تحریر : شاہ بانو میر
پشاور کینٹ میں واقع آرمی سکول میں 16 دسمبر صبح 9 بجے 6 دہشت گرد داخل ہوئے اور مختلف کلاسسز میں بے رحمی سے فائر کھول کر وحشیانہ بربریت کا مظاہرہ کرتے رہے٬ معصوم بچوں کے خون سے در و دیوار لال ہوتے رہے٬ پورا سکول گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونجتا رہا دس سے پندرہ منٹ کے درمیان آرمی نے ایکشن لیا اور جوابی کاروائی شروع ہو گئی دہشت گرد جو ہینڈ گرنیڈ سے مسلّح تھے انہوں نے خود کا یکے بعد دیگرے خود کو اڑانا شروع کر دیا ٬ کئی قسم کا بھاری بھرکم اسلحہ ان کے ساتھ تھا٬ اتنی بڑی تعداد میں کینٹ کے اندر اسلحے کا جانا اور پھر دن دیہاڑے ان ازبک باشندوں کا شدید حفاظتی علاقے میں داخل ہو کر ایسی وحشیانہ کاروائی خود گواہی دے رہی ہے کہ جب تک اندر سے کوئی غدّار ان معصوموں کی شہادت کے لئے مدد فراہم نہیں کرتا ان حیوانوں کا اندر داخل ہونے سے اسلحے کے استعمال تک سب کچھ ناممکن ہے٬
پورا شہر بھرا پڑا ہے سکولوں سے آخر آرمی سکول ہی کیوں؟ وجہ سادہ ہے
آرمی کا سکول ہے تو بچے بھی آرمی والوں کے ہوں گے ٬ دشمن کی ہمیشہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ ایسی زک لگائے جو جان لیوا ہو٬ یہ بچے عام بچّے نہیں تھے اکثریت ان میں کل کی فوج کے جانباز تھے ٬ یوں سمجھئے کہ دشمن نے گویا آپ کے ایک فوجی دستے کو شہید کیا گیا ہے ـ اس المناک حادثے کے بعد وہی روایتی گھِسا پِٹا پیغام میڈیا پے نشر ہوا
ہر مشکل گھڑی میں ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں
یہ ہیں وہ مُنافق دوست!!! جن سے اچھا وہ دشمن ہے جو دشمنی تو صاف صاف کرتا ہے٬ اسلحہ بھی انہی منافق دوستوں کا دیا ہوا آج ہمارے بچوں کو شہید کر رہا ٬ بندے بھی انہی کے پٹھوؤں کے تیار شدہ لوگ اور یہ ہی ہمارا ساتھ دے رہے ٬ اس سے بڑا سنگین مذاق کسی قوم کے ساتھ نہیں ہو سکتا٬
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو؟ علمائے اکرام خاص طور سے سمجھیں ٬ خُدارا !! قوم کا کھویا ہوا تشخص واپس دلا دیجیۓ ٬ اس بکھری ہوئی قوم کو اپنے ساحرانہ خطابات سے اختلافات کی دلدل سے نکال کر اتحاد بین المسلمین کا پُرانا سچاّ درس دیں ٬ خُدارا !! پاکستانیوں کو مذہبی اکائیوں کے اکیلے پن سے نجات دے کر صرف اب پاکستانی بننے کا درس دیں٬
دین بندے اور ربّ سچے کا معاملہ ہے اسی اللہ پے چھوڑ دیں ٬ کون کس فرقے سے ہے کون کتنا اچھا مسلمان ہے کون بہکا ہوا ہے ٬ یہ اختیار اسی ذات پُرنور کے پاس رہنے دیں٬ اپنی ذات کی اصلاح کی بہت ضرورت ہے٬ فرقہ بندی جھوٹے اتحاد جعلی عکس کی دِلدادہ یہ قوم اس جھوٹے مصنوعی انداز کی اس قدر عادی ہو گئی کہ اب شائد خود پے محنت کر کے اپنی اصلاح کرنے کی سوچ بھی کہیں دور خلا میں کھو گئ ٬
جاگو!! ہمارے علمائے اکرام اب آپ پے عائد ہوتی ہے یہ بھاری ذمہ داری تعزیتی پیغامات کے مُظاہرے پھول پتیاں نچھاور کر کے موم بتیاں جلا کر آپ کوئی اہم قدم نہیں اٹھا رہے٬ تصاویر بنیں گی ٬ چند اخبارات میں شہہ سرخیاں لگ جائیں گی ٬ اور پھر سب واپس اپنے کاموں پر؟ کیا یہ حادثہ اتنا بے اثر ہے؟ کیا آپ کا یہ ردّعمل مناسب ہے؟ کیا اس سے بچوں کے لواحقین کو ُپرسہ مل سکتا ہے؟
نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ بچّے تو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیے گئے لیکن اب اور لاکھوں معصوم پھول ہیں جنہیں کل گلستان کی بہار بنانا ہے٬ انہیں بچانا ہے٬ ان کے لئے پھولوں کی موم بتیوں کی ضرورت نہیں دعاؤں کے ساتھ عمل کی ضرورت ہے٬
اکٹھے ہو کر منافقت ختم کر کے باہمی یکجہتی کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر اپنے درمیان موجود کالی بھیڑوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ٬ یہ کوئی پکنک منانے کا وقت نہیں ٬ سنجیدہ نوعیت کے اہم ترین فیصلے لینے کا بطورِ قوم وقت ہے٬
خُدارا اس سانحے کو عام حادثہ سمجھ کر کل پھر سے اپنے روز مرہ معمولات کی طرف نہ لوٹیں بلکہ اس بار تو اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں٬ مُحترم علمائے اکرام پیارا اسلام محبتوں سے لبریز اسلام اخّوت و بھائی چارے والا اسلام 313 کے اخلاص کے ساتھ اللہ کی رہنمائی کے کرشماتی مناظر والا اسلام ٬ طاقتور غیرت مند آپس میں ہمدرد ریشم کی طرح نرم اور دشمن کے لئے فولاد بن جانے والا اسلام وقت کی ضرورت ہے٬
ہو حلقہ یاراں تو ریشم کی طرح نرم
بزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
یہ سچا اصل خالص اسلام اور قوم کی طاقت اب صرف علمائے اکرام کی کوششوں سے واپس لوٹ سکتا ہے یاد رکھیں آج ایک آرمی سکول ہدف بنا ہے ٬ اس ملک میں فوجی چھاؤنیاں جگہہ جگہہ ہیں٬ آج قربان ہو گیا لِلہ میں سب سے اپیل کروں گی کہ ان بچوں کا کل محفوظ کردو آج تو اس کمزور پاکستان کو ان معصوم پھولوں نے اپنا لہو بھی دے دیا٬
خُدارا !!! محسوس تو کرو کہ کیسا روح فرسا حادثہ ہوا ہے؟ سوچو زندگی ہاتھوں سے جا رہی ہے شام سے پہلے رات آ رہی ہے پاکستانیو اکٹھے ہو جاؤ اس ملک کو دشمنوں سے پاک کر دو ذات سے انا والا چولا اتار کر انسانیت والا پیراہن پہن لو اور بچا لو پاکستان آج کی یہ قربانی بہت مہنگی قربانی ہے٬ اس کو ضائع نہ ہونے دو اور خود کو ذات کے حصار سے باہر نکال کر صرف پاکستانی بنو 16 دسمبر پہلے سقوط تھا آج سکوت بن کر ملک کو ساکت کر گیا
تحریر : شاہ بانو میر