تحریر : طارق حسین بٹ
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے زمانے میں عدالتیں بڑی فعال ہوا کرتی تھیں اور میاں محمد نواز شریف کی منشاء کے مطابق فیصلے صادر کیا کرتی تھیں ۔کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ کھلی حقیقت ہے کہ اس زمانے میں سپریم کورٹ ہی حکومت کی سب سے بڑی اپوزیشن تصور ہوا کرتی تھی۔پی پی پی اس زمانے میں زیرِ عتاب تھی اور سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں سے پی پی پی کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔پی پی پی کا ہر انتظامی فیصلہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا تھا اور ملک کے تمام ادارے خاموشی سے یہ تماشہ دیکھتے رہتے تھے کیونکہ چیف جسٹس کے سامنے کھڑا ہونے کی کسی میں تاب نہیں تھی۔ کوئی نہیں تھا جو بڑھ کر چیف جسٹس کا ہاتھ روکتا اور انھیں اس بات پر قائل کرتا کہ حکومت کو معمول کے معا ملات نپٹانے کی چھوٹ ہونی چائیے۔
میمو سکینڈل پر تو ایک ایسا طوفان برپا ہوا تھا جس میں پی پی پی حکومت کا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں تھا ۔ ایسا لگتا تھا کہ پی پی پی کے دن گنے جا چکے اور ایک ایسا منظر نامہ تھا جس میں یہ گئی کے گئی جبکہ پی پی پی ایک کونے میں سہمی ہوئی کھڑی چیف جسٹس کو خوش کرنے کی کوشش کیا کرتی تھی ۔حد تو یہ تھی کہ میاں محمد نواز شریف بھی پہلی دفعہ کالا کوٹ زیب تن کر کے سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہو گئے تھے اور آصف علی زرداری کو غداری کیس میں سزا سنوانے کے در پہ تھے ۔میڈیا بھی سپریم کورٹ کی ہاں میں ہاں ملایا کرتا تھا کیونکہ اسے بھی اپنی کھال بڑی عزیز تھی۔
پانچ سو ملین ڈالر کے اکا ئونٹ کے لئے سوئیس حکومت کو خط لکھنے کا معاملہ اتنا طول کھینچ گیا کہ وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت کا سامنا کرنا پڑا اور اسی توہینِ عدالت کے مقدمے کے نتیجے میں انھیں وزارتِ عظمی سے ہاتھ دھونے پڑے۔یہ پاکستانی تاریخ کا بالکل انوکھا واقعہ تھا جس میں پہلی بار کسی وزیرِ اعظم کو توہینِ عدالت کی بنا پر وزارتِ عظمی سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔سید یوسف رضا گیلانی نے پی پی پی کی لیڈر شپ کو سوئس قانون سے بچانے کیلئے وزارتِ عظمی کی قربانی تو دے ڈالی لیکن اپنی قیادت کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا نہیں ہونے دیا۔یہ پی پی پی سے ان کی کمٹمنٹ کا واشگاف اظہار تھا ۔نئے آنے والے وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف کو بھی توہینِ عدالت کا سامنا کرنا پڑا لیکن انھوں نے کسی نہ کسی طرح سے اس الزام سے گلو خلاصی کروا لی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے چلے جانے کے بعد سپریم کورٹ میں اس طرح کا ایکٹو ازم نہیں ہے کیونکہ اب مسلم لیگ (ن) کی حکو مت ہے۔موجودہ چیف جسٹس سیاسی عزائم نہیں رکھتے اور نہ ہی حکومتی معاملات میں بے جا مداخلت کے رودارہیں۔وہ نہ تو حکومت کو تنگ کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی راہ میں بے جا رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی اس پالیسی کے پسِ منظر میں مسلم لیگ (ن) کی عدلیہ کے بارے میں وہ پالیسی ہے جس کے تحت وہ ذاتی مفادات کی خاطر سپریم کورٹ پر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔سید سجاد حسین شاہ کے خلاف مسلم لیگ (ن) کی یلغار سے کون واقف نہیں ہے ۔چیف جسٹس سجاد حسین شاہ کو جس طرح اپنے چیمبر میں چھپ کر جان بچانی پڑی تھی وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کبھی بھی میاں برادران کے خلاف کھل کر میدان میں نہیں آتی کیونکہ اسے علم ہے کہ ایسا کرنے سے اس کے ساتھ کیسا سلوک ہو سکتا ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے اپنے حکمِ امتناعی سے میاں شہباز شریف کو پانچ سالوں تک پنجاب کی وزارتِ اعلی کا حقدار ٹھہرائے رکھا تھا۔میاں محمد نواز شریف نے اپنے قومی خطاب میں جس طرح کے کمیشن کے قیام کا اعلان کیا ہے اس کیلئے ابھی تک کوئی حتمی نام فائنل نہیں ہو سکا کیونکہ میاں صاحب کسی ایسے جج کی تلاش میں ہیں جو انھیں کیلن چٹ تھما دے یہ الگ بات کہ اپوزیشن ایسے کسی کمیشن کو تسلیم نہیں کرتی۔
لیکن اگر یہ کمیشن قائم ہو گیا تو حکوکت کی اشک شوئی تو بہر حال ہو جائیگی کیونکہ آئینی طور پر اس کمیشن کے فیصلے نافذ العمل ہوں گئے۔الیکشن ٢٠١٣ کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں جو کمیشن بنا تھا اس کے فیصلے تسلیم کرنے پڑے تھے حالانکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ الیکشن ٢٠١٣ میں وسیع پیمانے پر دھاندلیوں کا ارتکاب ہوا تھاور پنجاب میں اس کارِ خیر کو سر انجام دینے والے وزیرِ اعلی نجم سیٹھی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی چیر مینی تھمائی گئی تھی۔خدمات کا صلہ دینے میں میاں برادران بڑے فیاض واقع ہوئے ہیں لہذا یہ کیسے ممکن تھا کہ نجم سیٹھی کو ان کی اتنی بڑی خدمات کا صلہ نہ دیا جاتا۔
پوری قوم نے نجم سیٹھی کی تقرری پر شور شرابہ کیا،اعتراضات وارد کئے اور اسے غلط انتخاب قرار دیا لیکن میاں محمد نواز شریف نے نجم سیٹھی کو کرکٹ کے معاملات کا مختارِ کل بناکر دم لیا کیونکہ نجم سیٹھی نے الیکشن ٣٠٢٣ میں میاں برادران کی فتح کیلئے راہ نکالی تھی۔میاں برادران اپنے محسنوں کوان کی خدمات کا ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں ۔ایک زمانہ تھا کہ یہی نجم سیٹھی آصف علی زرداری کی آنکھ کا تارا ہوا کرتا تھا اور پنجاب کے عبوری وزیرِ اعلی کی مسند کیلئے نام بھی انہی کی طرف ے پیش کیا گیا تھا لیکن نجم سیٹھی نے پی پی پی کی کمزور پوزیشن کے پیشِ ِ نظر اپنا وزن میاں برادران کے پلڑے میں ڈال کر مسلم لیگ (ن) کی جیت کیلئے راہ ہموار کر دی۔پی ٹی آئی چیختی چلاتی رہی لیکن نقارخا نے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔؟
اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پناما لیکس کے شور شرابے اور ہنگام میں میاں محمد نواز شریف کو وزارتِ عظمی سے کس طرح فارغ کیا جائے ۔یہ بات سب کے علم میں ہے کہ میاں برادران میڈیا کے شور شرابے سے تو جانے والے نہیں ہیںکیونکہ ان کے پاس بھی میڈیا کو سنبھالنے والے بڑ ے بڑے طورخم خان موجود ہیں جو جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے فن میں یدی طولی رکھتے ہیں۔
انھوں نے اگست ٢٠١٤ کے لانگ مارچ میں بھی مستعفی ہونے کے کسی مطالبے کو پذیرائی بخشنے سے انکار کر دیا ا تھا ۔ایک جمِ غفیر تھا جو اسلام آباد امنڈ آیا تھا اور جس نے پارلیمنٹ ہائوس اور پی ٹی وی پر قبضہ بھی کر لیا تھا ۔حکوت کی رٹ نہ ہونے کے برابر تھی لیکن میاں محمد نواز شریف نے پھر بھی استعفے دینے سے انکار کر دیا تھا کیومکہ وہ خود کو قانونی وزیرِ اعظم سمجھتے تھے۔
اس وقت تو حا لت یہ ہے کہ سارا شور شرابہ ٹیلیویژن کی سکرینوں تک ہے اور پاکستان کی گلیاں بالکل پر سکون ہیں۔ ہو سکتا ہے اس خاموشی کے پیچھے کوئی بڑا طوفان چھپا ہوا ہو لیکن فی ٰ الحال اس کے آثار نظر نہیں آتے ۔ عوام میں وہ ہیجان انگیزی جو لانگ مارچ کے وقت تھی اس وقت مفقود ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ لوگ معاشی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور انھیں اتنی فرصت نہیں کہ وہ پنامہ لیکس کی سنگینی کا ادراک کر سکیں۔تحریکِ انصاف بھی ابھی تک عوام کو سڑکوں پر لانے سے اجتناب کر رہی ہے کیونکہ اسے بخوبی علم ہے کہ اس وقت اس کا مضبوط ترین حلیف منہاج القرآن اس کے ساتھ نہیں ہے۔تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ میں اصل قوت منہا ج القرآن والوں کی تھی وگرنہ تولانگ مارچ رقص وسرور کاا جتماع بن کر رہ گیا تھا۔
آخری دنوں میں تو حالت یہ تھی کہ چند سو لوگوںسے زیادہ لوگ اس اجتماع میں شرکت بھی نہیں کرتے تھے۔یہ ١٦ دسمبر کے سانحے کا کمال تھا کہ عمران خان کو اپنا دھرنا منسوخ کرنا پڑا تھا وگرنہ ان کی سیاسی ساکھ بر ی طرح سے متا ثر ہوتی؟شائد یہی وجہ ہے کہ عمران خان ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے ہیں اور کسی طرح کے دھرنے کا اعلان نہیں کر رہے۔وہ ٢٤ اپریل کو اپنے لائحہ عمل کا اعلان کریں گئے لیکن اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہو گا۔
حکومتی حلیف اب بھی حکموت کے ساتھ کھڑے ہیں اور مولانا فضل الرحمان نے پنامہ لیکس کو شیطانی لیکس کا خطاب دے رکھا ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ وہ میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ویسے بھی مولانا کسی ڈوبتی ہوئی کشتی میں سوار نہیں ہوا کرتے۔ان کے بیان کے بعد یہی تاثر ابھرتا ہے کہ حکو مت کو کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے ۔ میڈیا کے شور سے ضروری تو نہیں کہ حکومت اس کے طوفان سے چلی جائے ۔میڈیا نے ایسا طوفان پی پی پی کی حکومت کے خلاف بھی اٹھا یا تھا لیکن انہیں منہ کی کھانی پڑی تھی۔،۔
تحریر : طارق حسین بٹ