تحریر : مسز جمشید خاکوانی
عام طور پر ہمارے ہاں ایک ہی سوچ پائی جاتی ہے کہ میڈیا عریانی اور فحاشی پھیلاتا ہے۔ یقینا ایسا ہے۔اور اس کی وجہ سے ہماری اخلاقی قدریں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔لیکن اسے ایک محدود تجزیہ کہا جا سکتا ہے۔کیونکہ میڈیا لوگوں کی سوچ پر بھی اثرانداز ہورہاہے۔ لوڈشیڈنگ،غُربت،مہنگائی،اور مروجہ سیاست نے ہمیں اس طرح جکڑا ہے کہ ہم کچھ اور سوچنے کے قابل نہیں رہے کیمرہ صرف شہرت کا ذریعہ سمجھا جانے لگا ہے ۔ملتان شہر کے ایک بڑے چوک سے گذرتے ہوئے میں نے دیکھا ایک معروف چینل کی وین وہاں موجود تھی کیمرے سے وڈیو بنائی جا رہی تھی تین چار ادھیڑ عمر مرداور دس بارہ نوعُمر لڑکے انکے آگے جلتے ہوئے تین ٹا ئر، یہ ایک مظا ہرہ تھا جس کی وڈیو بن رہی تھی اس مظا ہرے کا ہدائیت کار بھی وہی وڈیو بنانے والا تھا ۔اس نے مظاہرے کے انداز میں اُن لوگوں کے ہاتھ کھڑے کروا کر وڈیو بنائی اور پیک اپ کر کے چلتا بنا ۔یقینا اگلے دن کے اخبار میں اس مظاہرے کی تصویر چھپی ہوگی۔جس کا خود مظاہرین کو علم نہ تھا۔
خوشی تھی تو بس یہی کہ اخبار میں فوٹو لگ جائے گی یا ٹی وی پہ ایک جھلک آ جائے گی……… عالمی طاقتیں اور عالمی سرمایہ پرست افراد و ادارے اطلاعات کے نشریاتی جال کے ذریعے پسماندہ اقوام میںدماغی تطہیر کا جو عمل جاری رکھے ہوئے ہیں………. یہ اُسی ہمہ جہت عمل کے نتائج ہی تو ہیں کہ ہماری اجتماعی پسماندگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ تشدد پسند فکر عام ہوتی جا رہی ہے……. عدم برداشت کے ذہنی رویے اور طرزعمل کے مظاہرے ہم اپنے ہاں آئے روز دیکھتے ہیں….. یہی نہیں ایسی بہت سی تبد یلیا ں ہیں جو مسلسل واقع ہو رہی ہیں لیکن شائد اکثریت نے بے حسی کی چادر اوڑھ لی ہے ۔پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ اور جرمنی نے نفسیاتی ماہرین کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں۔
جن کے مرتب کردہ اصولوں اور طے کردہ حکمت عملی کے تحت دونوں ملکوں نے زبردست نفسیاتی جنگ ایک دوسرے کے خلاف لڑی…..بعد میں دونوں ملکوں کے ماہرین نے ایک دوسرے کے حاصل کردہ نتائج کو سامنے رکھ کر ایک وسیع اور ہمہ جہت عملی پروگرام تشکیل دیا …….. دماغی تطہیر Brain Washing کے عمل میں بنیادی اہمیت اس نقطے کو حاصل ہوتی ہے کہ فرد کی نفسیات کو کسی نہ کسی صورت مسلسل اور متواتر اعصابی کشمکش اور اضطرابی کیفیت میں مبتلارکھا جائے۔ اس حد تک کہ وہ اپنے کرب کے اظہار کا راستہ تلاش کرنے کے لیئے جدوجہد کرے…. اکثر ایسی صورت حال سے دوچار فرد یہ سوچنے کے قابل نہیں رہتا کہ اُس نے اپنے کرب کے اظہار کے لیئے منفی طریقہ اختیار کرنا ہے یا مثبت…..
حال ہی میں اسلام آباد میں ،، سکندر،، نامی شخص نے جس طرزعمل کا مظاہرہ کیا اُس کو ہر شخص نے اپنی اپنی سوچ کا چولا،، پہنایا لیکن کوئی اس کی گہرائی کو نہیں پہنچا کہ ہمیں بتدریج کس خوفناک انجام تک پہنچایا جا رہا ہے ۔مسلسل خونریزی کے بھیانک مناظر دیکھ دیکھ کر اب ہمارے اندر بے حسی اور لاتعلقی جنم لینے لگی ہے ۔ اب دکھ سانجھے نہیں رہے دُکھ صرف وہی محسوس کرتا ہے جس پہ گذرتی ہے کیا یہ احترام آدمیت سے دوری نہیں ؟ یہی ہونا تھا ہر لمہہ نفسیاتی کشمکش اور اضطرابی کیفیت طاری رہے تو فرد یا افراد کے اندرماحول کے ساتھ مثبت طور پر خود کو ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت جاتی رہتی ہے بعض حالات میں ایسی انفرادی یا اجتماعی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں کہ انسان حیوان کی سطع سے بھی نیچے گر جاتا ہے …… ایسے ماحول میں اخلاقی قدریں بُری طرح پامال ہوجاتی ہیں۔ خصوصاً نوجوانوں کی شخصیت اور کردار میں منفی تبدیلیاں نمایاں طور پر رُونما ہونے لگتی ہیں اور اکثر کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ یہ سب کچھ اس بات کا نتیجہ ہے کہ بیرونی یا اندرونی طور پر دماغی تطہیر کے پروگرام پر منظم طریقے سے عمل کیا جا رہا ہے۔
یقینا ہم میڈیا کی یلغار سے خود کو بچا نہیں سکتے لیکن اس کے منفی کردار کو مثبت رول ضرور دے سکتے ہیں۔ حکومت اور ایجنسیاں اسی مرض کی دوا ہوتی ہیں،لیکن یہ دوا غیر موئثر بنا دی گئی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم مایوس ہو کر بیٹھ جائیں۔کیا ہمیں اس صورت حال کا تدارک نہیں کرنا چاہیئے ؟ ایک نوجوان جو بہت اچھی سوچ رکھتا ہے غیرت مند،خوددار،خوش مزاج اچھی پوسٹ پے، اچانک وہ تلخ مزاج اور بیمار ہو گیا پتا چلا کہ وہ ایک اور فرقے کی نفرت میں مبتلا ہو گیا ہے چونکہ آجکل نیٹ پے ہر طرح کا مواد آسانی سے دستیاب ہے اس لیئے ایسی باتوں کو نظر انداز کرنا بھی خاصا مشکل ہو چکا ہے ۔یوں سمجھ لیں پہلے تو بخار تھا اب ایک طرح سے ،،سرسامی،، کیفیت طاری ہو گئی ہے یعنی ہر ایک دوسرے کو کافر کہنے کے خبط میں مبتلا ہے
دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں ہر طرف نفرت اور دہشت کا بازار گرم ہے لیکن جلتی پہ مزید تیل ڈالا جا رہا ہے یہ میڈیا کی کرم نوازیاں ہیں۔میڈیا کے اندر اتنی طاقت ہے کہ وہ ناصرف حقائق مسخ کر سکتا ہے بلکہ اسے یکسر تبدیل بھی کر دیتا ہے….. اس طرح کہ حقائق پس پردہ چلے جاتے ہیںاور مفروضات سامنے آ جاتے ہیں چونکہ مفروضات کو اس انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ لوگ اسے حقیقت سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور اس پر کسی درجے کی تنقید بھی سننا گوارہ نہیں کرتے۔ہمارے ملک میں فرقہ پرستی کو اُبھارنا اور اُسے ہوا دینا عالمی قوتوں کا محبوب مشغلہ ہے اور اُنھیں اس کے لیئے زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑتی خصوصاً شیعہ سُنی فساد تو اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے جس قوم میں پہلے سے ہی یہ عنصر موجود ہو وہاں میڈیا کی لگائی آگ کو بھڑکتے دیر نہیں لگتی …..
آج کی جنگیں اسلحہ اور سپا ہیوں کے ذریعے نہیںبلکہ میڈیا کے تھرو لڑی جاتی ہیں آج ثقافتی، تہذیبی، اور نفسیاتی جنگ کی منصوبہ بندی صحافت،ریڈیو اور ٹی وی کے ماہرین کرتے ہیں۔ آج دنیا میں برتری اور غلبہ اُسی کو حاصل ہے جس کے پلڑے میں پراپیگنڈے کا وزن ہے ایسا وزن! جس کے مقابلے میں اعلی اخلاقی ، تہذیبی اور سماجی قدروں کی کوئی قیمت نہیں،یہ اس دجالی میڈیا کی گرفت ہی ہے کہ آج پڑھے لکھے باشعور افراد بھی کسی نظرئیے،سوچ یا تصورات کی اہمیت اور قدرو قیمت کا اندازہ لگانے کے لیئے ذرائع ابلاغ کے پراپیگنڈے پر انحصار کرتے ہیں۔مشہور مغربی ماہر اشتہارات ٹونی شوارٹز اپنی کتاب The Second God میں تحریر کرتاہے ” خدا کی طرح میڈیا بھی جنگوں کا رخ تبدیل کر سکتا ہے
کسی صدر یا بادشاہ کو منصب اقتدار سے اتار سکتا ہے …… اور رائے عامہ کو غلط یا صحیح طور پر استوار کر سکتا ہے… دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پر ترقی یافتہ ممالک کی پانچ ایجنسیوں کی اجارہ داری ہے جبکہ بہت سے ترقی پذیر یا غریب ممالک کی اپنی ایک بھی خبررساں قومی ایجنسی نہیں ہے جسکی وجہ سے انکے عوام کو انہی کی معلو مات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔یہاں پر بحث میڈیا کے کردار کی ہے اگر یہ کردار معلومات کی حد تک محدود رکھا جاتا تو میڈیا کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔لیکن ناخواندہ عوام کی اکثریت نے اس کے منفی اثرات کو اپنایا اور محض نفسانی خواہشات کو محور و مرکز بنا لیا سو اس کا انجام یہی ہونا تھا
اگر ہم نے اللہ کے آخری نبی ۖ کی سُنت اور آخری کتاب قران مجید پر عمل کیا ہوتا تو نہ ہم نفس کے غلام ہوتے اور نہ ہی میڈیا کے ہاتھوں معمول بن کر عالمی منڈیوں میں بے مول ہو کر بکتے۔ کہ اب ہماری زبان سے صرف یہی نکلتا ہے ” جائیں تو جائیں کہاں ؟ نہ تو اب ہم ان مصنوعی اسائشات کے بغیر گذارا کر سکتے ہیں اور نہ انھیں حاصل کر سکتے ہیں سوائے ناجائز طریقے کے ۔یہی میڈیا کا کمال ہے۔
تحریر : مسز جمشید خاکوانی