راولپنڈی: سینٹرل جیل اڈیالہ میں قید شکیل آفریدی سے اس کے اہل خانہ نے ملاقات کی۔ اسامہ بن لادن بارے مبینہ طور پر امریکہ کو مخبری کرنے کے الزام میں ڈاکٹر شکیل آفریدی سے جمعرات کو سینٹرل جیل اڈیالہ میں اس کی اہلیہ عمرانہ شکیل، بیٹے بشام خان اور بیٹی مہ نور نے ملاقات کی۔ شکیل آفریدی کو کچھ عرصہ قبل پشاور جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا تھا۔ دوسری جانب اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں نشاندہی پولیو ٹیم کی آڑ میں صرف شکیل آفریدی نے ہی نہیں کی تھی بلکہ امریکہ کو اسامہ کی رہائش اور ٹھکانے کے بارے میں معلومات ایک ریٹائرڈ انٹیلی جنس افسر نے بھی دی تھیں۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد کا دعویٰ ،بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق سربراہ اے ایس دولت کیساتھ مشترکہ طور پر لکھی گئی کتاب ’’دی سپائی کرونکل، را آئی ایس آئی اینڈ دی الیوژن آف پیس‘‘ میں اسامہ بن لادن کے بارے میں باب ’’ڈیل فار اسامہ بن لادن‘‘ میں اسد درانی نے اس بات کو ماننے سے انکار کردیا ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹروں کے پاکستان میں داخلے اور ایبٹ آباد آپریشن کے بارے میں پاکستان کو علم نہیں تھا۔ جنرل (ر) اسد درانی نے کہا کہ یہ ناممکن ہے کہ ہیلی کاپٹر 150 کلومیٹر تک پاکستان میں داخل ہوں اور پاکستانی فورسز کو پتہ نہ چلے۔ ہم پر نااہلی اور ڈبل گیم کھیلنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ بدلے میں ہمیں کیا دیا جاتا ہے۔ جنرل (ر) اسد درانی نے انکشاف کیا ہے کہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں اشفاق پرویز کیانی میرے پسندیدہ طالب علم تھے۔ اب وہ ریٹائرہوچکے ہیں تو اس کے باوجود مجھ سے دور دور رہتے ہیں کہ کہیں میں ان سے اس واقعے کے بارے میں پوچھ نہ لوں۔ اے ایس دولت کے مختلف سوالوں کے جواب میں جنرل (ر) اسد درانی نے بتایا کہ 2011ء میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے دو روز قبل جنرل (ر) کیانی کی امریکی جنرل سے بحری جہاز پر ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل پیٹریاس تھے۔ اس کے دو روز بعد ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے یہی لگتا ہے کہ اس ملاقات کا تعلق اسامہ بن لادن کیخلاف امریکی فوج کی کارروائی سے تھا۔ اسی طرح ایک اور سوال کے جواب میں جنرل (ر) درانی نے انکشاف کیاکہ امریکہ کو اسامہ بن لادن کی رہائش اور ٹھکانے کے بارے میں معلومات ایک ریٹائرڈ انٹیلی جنس افسر نے بھی دی تھیں۔ اسد درانی نے اس افسر کا نام بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اس اقدام کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اس لئے اس کا نام نہیں لوں گا۔ تاہم اس ریٹائرڈ انٹیلی جنس افسر کو پانچ کروڑ کی انعامی رقم میں سے کتنے پیسے ملے،یہ وہی جانتے ہیں، کیونکہ وہ تب سے پاکستان سے لاپتہ ہیں۔ اے ایس دولت نے ایک سوال کے جواب میںانہوں نے کہا کہ 1999ء کی کارگل کے دوران آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اور لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان کی ٹیلی فونک گفتگو کے مندرجات افشاکرنے کے وہ خلاف تھے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے، یہ ایک دھوکا ہے، یہ ایک سیاسی مطالبہ تھا۔ اس گفتگو سے لگتا ہے کہ نواز شریف کو کارگل کی لڑائی کا مکمل علم نہیں تھا۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالےسے ایک سوال کے جواب میں جنرل (ر) درانی نے کہا کہ مودی کی پاکستان کے بارے میں پالیسیساز اجیت دودل ہیں، تمام فیصلے وہی کرتے ہیں۔دریں اثنا بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالاسز ونگ (را) کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے اپنی حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ پاک بھارت مذاکرات کے نئے آغاز کے لیے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو دورے پر مدعو کرے۔