تحریر: لقمان اسد
قدرت بسااوقات عجیب فیصلے کرتی ہے جو بلا شبہ بشری ذہنوں کی تمام تر دانشوں سے بھی با لاتر ہو تے ہیں۔ دنیا کے تمام تر مذاہب پر دینِ اسلام کی حقانیت اور افضلیت اس لئے غالب عمل ہے کہ دین اسلام کی حفاظت، دین اسلام کی ترویج، دین اسلام کی فتح اور دینِ اسلام کے غلبہ کے اسباب خو د اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس پیدا کرتی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی پڑھا لکھا آدمی، دنیا کا کوئی بھی محقق اور مور خ، دینا کا کوئی بھی ادیب اور شاعر، دنیا کا کوئی بھی تحقیق کا ر اور معلم دنیا کا کوئی بھی عالم اور سا ئنس دا ن اور دنیا کا کوئی بھی ڈاکٹر،پروفیسر، سکالر یا ریسرچروہ جہاں، جب بھی پیدا ہوا، جہا ں بھی اس نے علم حا صل کیا، جس خطہ میں بھی پل کر جوان ہوا ، جس مذہب سے بھی چاہے وہ وا بستہ رہا لیکن جب وہ کرہِ ار ض کی تا ریخ کا مطا لعہ کر تا ہے تب اُس کے سا منے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جا تی ہے کہ دین اسلا م نے ہمیشہ اُن کٹھن مرحلوں میں، ان مشکل اوقات اور نا مساعد حالات میں بلندی، سرفرازی اور کامیابی کے زینے طے کئے کہ جب جن حالات میں اسلام دشمن طاغو تی اور صیہونی طاقتیں یہ سمجھتی تھیں کہ اب اسلام کا نام ہمیشہ کے لئے صفحۂ ہستی سے مِٹ جائے گا۔ اب اسلام کا نام لینے وا لا کوئی نہ رہے گا،اب کرہِ ار ض پر کوئی کلمہ گو با قی نہ بچے گا اور اب اسلام گزرے وقتوں کا افسانہ اورقصۂ پار ینہ بن کر رہ جائے گامگر تبھی انہی نا بگفتہ اور پیچیدہ و پر پیچ حا لات میں اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام کو بعض اپنے خا ص اور نوا زے ہو ئے بندو ں کے سبب ایسی سر خرو ئی عطا فر مائی کہ دینِ اسلام کی وہ دشمن طا قتیں حیرا ن و ششد ر رہ جا تی ہیں اور ایسی انگشت بد ندا ں ہو تی ہیں کہ ان کی حیرا نگی ، انکی بے بسی اور لا چا ری کی کوئی حد با قی نہیں رہتی ۔ وہ انگلیا ں ہا تھو ں میں دبو چ دبو چ کر کبھی دیوا نے و مجنو ن بنے جا تے ہیں تو کبھی دا ئمی ہو ش و ہو ا س ہی کھو بیٹھتے ہیں۔
پا گل پن ان پر سوا ر رہتا ہے۔ اس لئے کہ وہ سوچتے ہیں ہم نے تو ایڑی چو ٹی کا زور لگا لیا ۔ ہم نے تو اسلام کا نام مٹا نے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ ہم نے اسلام کے نام لیوائو ں پر ظلم کے ایسے پہا ڑ تو ڑے کہ انہیں نشانِ عبر ت بنا دیا اور ہم تو یہ تصو رکئے بیٹھے تھے کہ ہمارے اس قد روسیع تر اور گھنائونے اسلا م مخالف اقدا ما ت کے بعد کون ہو گا جو اس د ین محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیرو ی کرے گا، کو ن ہو گا جو اس شا نو ں والے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت پر چلنے کی ہمت کرے گا، کو ن ایسا جری و بہا در ہو گا جو خو ف کی ان کا لی گھٹا ئو ں ، جو ظلم کی ان تا ریک را ہو ں کے اٹاٹوپ اند ھیروں ، جو فرعونیت او رجبر کی رقم کر تی نئی تا ریخو ں سے ٹکرا نے کی ہمت کرے گا؟مگر وہ اس وقت خود کو نا کا م و نامر ا د دیکھتے ہیں اور اپنی اس نا کا می و نا مرا دی پر چیختے چلا تے اور شور و ا ویلہ کر تے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی پیا رے بندے کو اس طر ز کے ظلم و جبر کے آگے ڈٹ جا نے کی ہمت و صلا حیت سے نوا ز کر ان تما م تر کفریہ طاقتو ں کی راہ میں سدِ سکندری کی نظیر بنا کر اُن کے سامنے لا کھڑا کر تا ہے کہ جس کے عزم وحوصلے کے مقابل ان کی ہر سا ز ش کے تا نے با نے بے سو د ٹھہر تے ہیں اور جس کی عز یمت و ہمت کے آگے ان کا ہر جبر ، ہر ظلم ، ہر غیر اخلاقی اور ہر غیر انسانی فعل و عمل دم تو ڑتا نظر آتا ہے۔
عظیم پیغمبر جناب موسی علیہ السلام کی مثال اس تنا ظر میں دنیا کے سا منے ہے۔ جنا ب حضر ت موسی علیہ اسلام اس جابر و ظالم فرعون کے گھر میں پرورش پا تے ہیں کہ جو اپنی باد شاہی کی حدود میں پیدا ہونے والے لڑ کے کو پیدا ئش کے فوری بعد اس غر ض سے قتل کرا دیتا تھا کہ کہیں یہ پَل بڑھ کر، کہیں یہ جوان ہو کر میری جھو ٹی خدا ئی اور میر ی جھو ٹی حکو متی رِٹ کو چلینج نہ کر دے، کہیں یہ پڑھ لکھ کر میری حکومت کا تختہ ہی نہ الٹ دے، کہیں لوگوں میں یہ شعور اجا گر نہ کرے کہ میں تو ایک کمز ور انسا ن ہو ں ، میری قو ت و طا قت تو محض دنیا کا دکھا وا ہے اورکہیں وہ میری اصلیت دنیا پر عیا ں نہ کر دے اور نتیجتاً دیکھتے ہی دیکھتے مجھ سمیت میری سلطنت دھڑا م سے نہ آگرے ۔ لیکن قد ر ت اپنے فیصلے صا د ر کر تی ہے اور فیصلے بھی ایسے لا زوا ل اور باکما ل جو بشری ذہنو ں سے یکسر بلند و با لا کہ انسا ن جنہیں پر کھنے سے کو سو ں دو ر ہی ہمیشہ رہتا ہے ۔ جنا ب حضر ت مو سیٰ علیہ السلا م اسی فرعون کے گھر میں پرورش پا تے ہیں، جو ان ہو تے ہیں اور انھو ں نے ہی پھر اس ظا لم فر عو ن کی جھو ٹی خُدا ئی کو چیلنج کیا۔ انھوں نے ہی پھر فر عون کے غبارے سے ساری ہو ا نکال دی۔ عبرت کے طور پر آج تک جس فر عو ن کا لا شہ مصر کے عجا ئب خا نے میں پڑا ہے۔ زمین نے جسے قبول کیا اور نہ ہی دریائو ں اورسمندر وں نے تا کہ ر ہتی دنیا تک دنیا کے جھوٹے اور ظا لم با د شا ہ اپنا انجا م بھی یا د رکھیں، اللہ کی طاقت اور غلبہ اسلام کی حقیقت کو بھی۔
صحرا کا وہ دلنشیں شاعر نسیمِ لیہ یاد آتا ہے کہ جس کی شاعری بادِ نسیم کے جھونکوں کی مانند ذہنوں کو تازگی بخشتی اور دلوں میں اُترتی جاتی ہے۔ عجب سوزوگداز عمر بھر اس کی شاعری کا محور رہا۔
تم اگر تخت نشیں ہو تو بڑی با ت نہیں
دھو ل بھی اُڑ کے بلندی پہ پہنچ جاتی ہے
اس با بت قرآن مقد س ایسی لا ریب اور سچی کتاب کے اورا ق مقد س بتلا تے اور حقا ئق سے پر دہ اُٹھا تے ہیں ۔ جنا ب حضر ت مو سیٰ علیہ السلا م کا قا فلہ دریا ئے نیل کے ایک کنارے سے اتر کر عا فیت اور اطمنا ن کے سا تھ دو سرے کنارے جا پہنچا اور اب فر عو ن کا قا فلہ ان کے پیچھے دریا میں اُترا جب فر عو ن کو دریا کی لہر وں نے پور ے ولو لے،طمطمے سے آگھیرااور دبو چا تو فرعون بے سا ختہ پکارا اور چلا کر اس نے کہا میں مو سیٰ اور ہا رو ن کے رب پر ایما ن لے آیا ہو ں ‘ مگر تب قدر ت نے اُسے مہلت نہ بخشی تو اس سے ثابت ہو تا ہے کہ اللہ تعالیٰ دینِ اسلا م کے غلبہ کے اسباب خو د ہی پیدا فر ما تا ہے ۔ 1857ء کی جنگِ آزا دی کی تا ریخ پر نظر دو ڑائیے ۔ خطۂ بر صغیر کی ایسی ہو لنا ک جنگ جس میں انگر یز اور اس کے لے پا لکوں نے اسلا م کے نا م لیوا ئو ں کے خلا ف فر عو نیت کے مظا لم کو بھی کہیں پیچھے چھو ڑ دیا ۔ اسلا م اور اسلا م کے نا م لیوا ئو ں کو مٹانے کے لئے انہو ں نے اپنے تئیں کو ئی بھی دقیقہ وا گزا شت نہ چھو ڑا ، کہیں عا م مسلما نو ں کو پکڑ پکڑ کر ان پر تیل چھڑ ک کر زندہ جلایاگیاتوکہیں علما ء کرا م کی ایک بڑی تعدا د کو کا لا پا نی کی قیدوبند کی صعبو تو ں میں پا بند سلا سل رکھا اور کہیں چن چن کر ان کا بھی قتل عا م کیا گیا۔
رب تعالیٰ کی ذات نے مگر اپنا فیصلہ سنایا اور برصغیر کی دھرتی کو مسلمانوں کی انہی قربانیو ں کے سبب کفریہ طاقتوں کی یلغار سے نہ صرف آزاد کرایا بلکہ اسی برصغیر کی دھرتی پر مولانا محمد الیاس ایسے بلند مر تبت اور مایہ ناز مبلغ اسلام اور مفکرِ اسلام کو پیدا کر کے دینِ اسلام کا جھنڈا محض بر صغیر پاک و ہندکی سر زمین پر ہی بلند کرنے کا انہیں عزم نہ سونپا بلکہ پورے عالمِ انسانیت اور کرہ ار ض پر دین اسلام کی تبلیغ و تر ویج کی ذمہ داری ان کے سپرد کر دی۔ بانی پاکستان قا ئد اعظم محمد علی جنا ح کی انتھک جدو جہد اور مسلمانوں کی لا زوال قر بانیوں کے صلہ میں اللہ تعالیٰ نے وطنِ عز یز ” پا کستان ” جیسا اسلا م کا مضبو ط قلعہ بھی عطا کر دیا کہ آج جس کے فر زندِ عظیم ،دنیا کے شہرہ آفا ق مبلغ ،سوادِ اہلسنت ، مجدد عصر، فخرِ عا لمِ اسلام ، سر مایہ عالم مسلم ، جید اور ممتا زایک عا لمِ دین دن را ت اسلا م کی سر بلندی و سر فرا زی اور حقا نیت کے الم کا پھر یرا پو ری دنیا میں لہرا تے نظر آتے ہیں ۔ گو یا ایک زما نہ جن کی خطا بت ، علمیت ، حسنِ اخلا ق ، جذبۂ خلو ص ، ایما نداری ، عاجز ی و انکساری اور لگن کا اسیر ہی محض نہیں بلکہ معتر ف بھی ہے ۔ با نی تبلیغی جماعت حضر ت مو لا نا محمد الیا س کے فکری ور ثہ کے اس جا نشیں کو دنیا مو لا نا محمد طارق جمیل کے نا م سے جا نتی و پہچا نتی ہے ۔ آج جب دنیا بھر کی صیہو نی و طا غو تی طا قتیں دینِ اسلا م کو ایک شد ت پسند مذہب کے طور پیش کر کے اس پر بد نا می کا دھبہ لگا دینے اور اسلام کو ایک خو نی طر زِ فکر اور طر زِ زند گی کا معیار متعارف کرانے میں ہر بھو نڈا طر یقہ اختیا ر کئے ہو ئے ہیں ۔ دنیا بھر کا میڈیا جب دین اسلام جیسے امن پسند دین کو دہشت گر دو ں ، قا تلو ں اور انسا ن دشمنو ں کا دین قرا ر ٹھہرا نے کی خا طر سر دھڑ کی با زی لگا رہا ہے وہا ں اس کے مدِ مقا بل دھیمے لہجے اور دھیمے انداز کا حامل یہ حسین و جمیل اسلامی شہز ادہ مو لا نا محمد طا ر ق جمیل اسلام کے پیا ر بھر ے اور امن پسندا نہ طرز زندگی کو بے باکی اور انتہائی صا ف گوئی سے دنیا بھر کے سا منے رکھ کر یہ تصور اور بھر م قا ئم رکھے ہو ئے ہے کہ دین اسلام کل بھی انسا نیت کے لئے امن کا ایک با ب تھا ، امن کا ایک در س اور امن کا ایک قلعہ تھا جب کہ آج بھی پیغمبر آخر زما ں حضر ت محمد مصطفی ۖ کا یہ دین محمد ی کائنا ت کے تما م انسا نو ں کو چا ہے وہ مسلم ہیں یا غیر مسلم امن کی طر ف بلا تا ہے ۔ مو لا نا طا ر ق جمیل اس عفریت زدہ اور اس شور ش زدہ دور میں بھی اسلام کے خلا ف ہو نے والی تیز ترین اور شا طر تر ین سا زشو ں کے جواب میں دین اسلام کا جو شاداب اور پر امن چہرہ دنیا کے سا منے انتہائی پر کشش اندا ز میں پیش کر تے ہیں اس پر ان غیر مسلم مما لک کے غیر مسلم معاشرے بھی دین اسلام کی انسا ن دو ستی ، با ہمی روا داری اور انصا ف پسندی سے متا ثر ہو ئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جن غیر مسلم مما لک کے حکمران طبقا ت دن را ت دین اسلام کو سما جی نا انصا فیو ں اور انسا نیت سو ز مظا لم کا ایک منبع قرا ر دینے کے لئے سر گر دا ں ہیں۔
در حقیقت تو ان غیر مسلم حکمرانوں کی مثا ل بھی ویسی ہی ہے جو فرعون کی طر ح اس خوف میں دبے ہو ئے ہیں کہ کہیں کوئی مو سیٰ علیہ السلام کا حقیقی ور اث اُٹھ کر ان کی حکو مت کا تختہ نہ اُلٹ دے اور جھو ٹ پر ہی سر ا سر انحصا ر کر تی اُن کی جھو ٹی یہ خدا ئی اور حا کمیت کہیں چلتی نہ بنے ۔مو لا نا طا ر ق جمیل سے کبھی میری ملا قا ت نہیں ہو ئی اور نہ ہی کبھی کوئی ٹیلی فونک را بطہ مگر میں بھی ان کے ان جو ہر خطابت کے متا ثرین میں سے ایک ہو ں کہ ان کے جن خطا بات کو تبلیغی بھائی ” مو لا نا کا بیان ” کہتے ہیں۔ کیا با کما ل شخصیت ہیں مو لانا بھی ، قدرت نے کس کمال سے انہیں نوازا ہے، کیا مہا ر ت و کیا ملکہ رب تعالیٰ کی ذات نے انہیں بخشا ہے کہ ایسا اندازِ بیاں اور ایسی فکر انگیز خطابت جو بھی ایک بار مولانا صاحب کا بیان سنتا ہے وہ آپ کی شخصیت کا گر ویدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اسے مولانا سے عقیدت ہو جاتی ہے۔ دورانِ خطابت سا دہ الفا ظ کا چنا ئو وہ کر تے ہیں مگر کما ل یہ ہے کہ انتہائی گہرے اور مفصل مو ضو عا ت کو بھی اپنے سا معین کے اذہا ن میں یو ں نقش کر تے چلے جا تے ہیں کہ ہمیشہ کے لئے اُن کی سمجھا ئی ہو ئی با ت سننے وا لے کو ذہن نشین رہتی ہے۔ ” صلائے عام ہے یا رانِ نکتہ دا ں کے لئے کے مصدا ق مو لانا طارق جمیل کی شخصیت معا شرہ کے ہر فر د کی خا طر اصلا ح کے جذبہ سے معمو رہے۔ مختلف شعبہ ہا ئے زند گی سے منسلک افراد ان کے اسی جذبہ سے متاثر ہو کر دینِ اسلام کی عملی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں ۔ انہیں دل جیت لینے کا ہنر معلو م ہے ۔ جب جد ھر کوئی انہیں ملتا ہے انہیں دل دے بیٹھتا ہے ۔ دل کیو ں نہ ہا ر دے کوئی کہ وہ بات ہی اس طر ز اور اس پتے کی کہے دیتے ہیں ۔ جب اس کا ہی فا ئدہ وہ ملنے وا لے پر عیا ں کر تے ہیں تو سمجھنے وا لے تو پھر دیر نہیں کرتے۔
مولانا طارق جمیل کی اسی کر شماتی اور طلسماتی شخصیت کا ہی یہ اثر اور ان کے حسن اخلاق اور خلوصِ لگن کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ کرکٹ وہ سپر اسٹار کھلا ڑی جن پر دولت اور شہر ت کا بھوت سوار رہتا کہ وہ معاشرہ کے باقی ما نندہ انسانو ں سے خود کو جدا ہی کوئی مخلوق تصور کر تے اور خود کوکوئی لا فا نی شے گر دا نتے ، انا ، فخر اور خو د پسندی کے ایک ایسے خو ل میں وہ قید رہتے کہ عا م انسانوں سے ان کا تعلق اور میل ملاپ ایک مخصوص حد تک ہی بمشکل جڑا ہو ا تھا۔ جب سے مولانا کی صحبت ا نہیں میسر آئی تو وہ دو لت کے نشہ اور شہر ت کے تکبر سے ایک دم آزا د ہو گئے ۔ خو د کو لا فا نی کوئی شے تصور کر نے وا لے اب خود کو مٹی سے تخلیق کیا گیا اپنے خا لق کا ایک عا م سا انسا ن ہی خیال کر تے ہیں۔ کر کٹ لیجنڈ انضمام الحق، شہرہ آفا ق او پنر بیٹسمین سعید انور، پاکستانیوں کے ہیرو لا لہ شا ہد خان آفر یدی ، بڑے اور تگڑے بیٹسمینو ں کی نیند یں اُڑا نے وا لے گگلی با ئو لر مشتاق احمد ، راولپنڈی ایکسپر یس شعیب اختر اور عظیم بلے با ز محمد یوسف کے نام ان میں قابلِ ذکر ہیں۔ ‘ سب تیری زلف کے اسیر ٹھہرے’ گو یا ایک طو یل فہر ست ایسے لو گو ں کی بھی ہے جنہو ں نے شوبز میں ایک بڑا نا م کما یا اور بعد میں مو لا نا کی ان پر کی گئی محنت رنگ لے آئی اور اللہ تعالیٰ کی ذا ت اقد س نے مو لا نا طا ر ق جمیل کی محنت و خلوص کا ثمر انہیں عطا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اپنے راستے میں قبو ل کیا ۔ اس دورِ پر فتن میں مو لا نا طارق جمیل کا وجود ہم جیسے گمراہ، آزا د خیا ل اور آوا ر ا ن گا ن کے لئے جہا ں باعث نعمت ہے وہا ں مو لا نا کی عملی جدو جہد اسلام کے اس حقیقی تشخص کی عملی تصو یر بھی کہ ” دین جبر کا نہیں محبت اور امن کا نا م ہے۔
آج جب وطنِ عز یز پا کستان دہشت گر دو ں کے نشا نہ پر ہے اور دہشت گر دی کے بے انتہا خطرات اور امکانات میں گھر ا ہو اہے ایسے حالات میں ہندو ستان جو ہمارا ازلی دشمن ہے اس کا ٹا ر گٹ بھی یقینا ہر صو ر ت پا کستان ہی ہے اور انڈ یا ہمیشہ کی طر ح اپنی پوری قو ت لگا کر پا کستان کا تعلق دہشت گر دو ں کو سپور ٹ کر نے والے مما لک کی فہر ست میں لا نے کی ناپاک خوا ہشا ت کی تکمیل میں مصرو ف عمل ہے ۔ ان نا مسا عد ترین حا لا ت میں جب مولانا طارق جمیل مغربی ممالک کے دورے کر تے ہیں اور وہا ںجا کر پا کستان اور اسلا م کا ایک پر امن اور اپنے انداز میں منفر د جو نقشہ پیش کر تے ہیں وہ یقینا وطنِ عز یز کے لئے ایک قا بلِ تحسین کر دا ر کے طور یہ اہم ترین فر یضہ سر انجا م دے رہے ہیں ۔سو شل میڈیا پر انہی دنوں مو لانا کی تصا و یر کچھ لو گ پو سٹ کر کے ان کا تعلق بعض متنا زعہ تنظیمو ں سے جو ڑ نے کی نا کا م سعی کر رہے ہیں جو در حقیقت ان لو گو ں کا ایک لا شعور ی فعل ہے جو اسلام دشمن قو تو ں کے جال میں آکر دین اسلام کو محض شد ت پسندی کا دین سمجھ بیٹھے ہیں ۔ مو لا نا طا ر ق جمیل صر ف اور صر ف دینِ اسلام کی سر فرازی کے لئے اپنے آپ کو وقف کئے ہو ئے ہیں ۔ اُن کی جدو جہد کا مقصد دین اسلام کی اس وسیع النظر ی کو عا م کر نا ہے جو کہ پوری انسا نیت کے لئے بھیجا گیا ایک آفا قی نظریہ اور دین ہے ۔ مو لا نا طار ق جمیل اور ان کی جماعت کا منشور پوری دنیا پر وا ضح ہے کہ وہ دین اسلام کے فر و غ کی فکر کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں نہ کہ کسی مخصو ص طبقہ فکر یا مکتبِ فکر یا کسی مخصو ص مسلک کا پر چا ر یا نمائند گی وہ کر تے ہیں ۔ جہاں تک مختلف سیاسی جماعتو ں یا مذہبی جماعتوں کے رہنمائو ں سے ملاقاتو ں کے سلسلوں یا ان کے سا تھ تصا ویر کی با ت ہے تو مختلف مسالک کے مذہبی پیشوائوں اور سیا سی جماعتوں کے قا ئدین کے سا تھ مو لانا کا وقتاََ فو قتاََ ملنا جلنا اور اُٹھنا بیٹھنا رہتا ہے۔ مولانا طارق جمیل صاحب گلگت میں امام بارگاہوں میں بھی خطاب کر چکے ہیں جہاں انہیں کسی مسلک کا نمائندہ دعو ت دیتا ہے وہا ں وہ تشریف لے جاتے ہیں اور اپنے علم کے مو تی ان کے سا منے بکھیر تے ہیںاسی طر ح ان کے دستر خوان پر جو بھی حاضری دینا چا ہتا ہے ان سب حضر ا ت سے مو لا نا تبا دلہ خیا ل اور ملاقات بھی کر تے ہیں۔
جب کہ مولانا کے دل کی بات اور مقصد صرف ایک ہی ہو تا ہے کہ وہ دینِ اسلام کے حقیقی اصو لو ں کی طرف اپنے ہر ملنے والے کے اذہان و قلوب پھیر لینے کی سعی میںہروقت مگن رہتے ہیں ۔ اگر وہ ہر شعبہ ہا ئے زند گی یا ہر مسلک کے لو گو ں سے میل ملاقات نہ کر تے اور ایک مخصو ص مکتبِ فکر کی نمائند گی کا فریضہ سر انجام دے رہے ہو تے توآج مو لانا کی شخصیت پاکستان یا دنیا بھر میں اس در جہ مقبو لِ عا م یا غیر متنا زعہ شخصیت نہ ہو تی جب کہ آج دنیا بھر کے ہر مسلک ، ہر فقہہ اور ہر مذہب کی اکثریت ان کی گر ویدہ نظر آتی ہے ۔ ایسے افراد سے میری گز ا ر ش ہے کہ وہ مو لانا کی بلند شخصیت کو ایک محدو د نقطۂ نظر سے دیکھنے کی بجا ئے کھلے ذہن اور وسیع القلبی سے دیکھنے اور جا نچنے کی کوشش کریں اور یہ امر بھی ذہن میں رکھیں کہ عصر حاضر میں اسلام دشمن طا قتیںجب اس اندا ز میں اسلام دشمنی پر اُتری ہوئی ہیں کہ فر انس ، جر منی اور اسٹریلیا جیسے مغر بی مما لک کے جرائد و اخبارات کے سر و ر ق پر ایک تسلسل سے ہمارے پیا رے پیغمبر حضو ر کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذا ت اقد س کے حوا لہ سے تو ہین آمیز خاکے شا ئع کئے جا رہے ہیں تو اس ضمن میں مو لا نا طا ر ق جمیل جیسی نا بغۂ روز گار اور غیر متنا زعہ شخصیت کے کر دا ر کی ضرورت پورے عا لمِ اسلام کے لئے کس قد ر بڑھ جا تی اور کس قدر اہمیت کی حا مل ہے۔
یہ سطور قطعاََ مو لانا کے شایانِ شان نہیں میں جنہیں سپر د قلم کر رہا ہو ں لیکن ایک عرصہ سے ایک خوا ہش تھی کہ جہاں ہمارا قلم رو زا نہ ایسے لوگوں کے لئے حر کت میں آتا ہے کہ جو رو زا نہ کی بنیا د پر ملک وقو م کوایک نئی گز ند پہنچا تے ہیں تو کیو ں نہ کبھی مو لا نا صا حب جیسی مفکرانہ اور معتبر شخصیت پر لکھنے کا قرض اُتا ر نے کی ایک نا تمام سعی کی جا ئے۔ اُمید ہے میری ان سطور پر اور میری اس خو اہش پرمو لا نا صا حب مجھ سے نا لا ں نہ ٹھہریں گے اگر کچھ نا گوا ر انہیں گز رے تو وہ اس قد ر وسیع القلب ہیں کہ میری گستا خیو ں کو شمار نہ کریں گے بلکہ فرا مو ش ہی کریں گے۔ وہ کہ گنہگا رو ں کو رب کے در وا ز ے کی طر ف بلانے اور دعوت دینے کا فریضہ انہو ں نے سنبھا ل رکھا ہے ، وہ کہ دینِ محمدۖ ی کے گر ا ں قدر روشن سر ما یہ کو سینے سے لگا کر اجاگر کر نے کی ذمہ داری کا بوجھ انہو ں نے تھا م رکھا ہے اوروہ کہ انہو ں نے فر قہ وا ریت کی صف بندیوں سے الگ تھلک رہ کر اسلا م کی ابدی سچائیو ں عام کرنے ، عام انسانوں اور گم کر دہ را ہ روئو ں کو سید ھی را ہ پر چلا نے کی فکر کو جلا بخشنے کی جدو جہد پر گامز ن رہنے کا جو عہد ازل کے رو ز اپنے رب سے کیا تھا آج بھی اس پر پوری استقا مت کے ساتھ قائم و دائم ہیں ۔ مو لانا طارق جمیل جن کی شخصیت علم کا ایک ایسا منور چرا غ کہ جن کی رو شنی کے سبب آج گنہگاروں کے سیا ہ دلو ں میں بھی حق تعالیٰ کی واحدانیت اور دینِ محمد ۖی کے وہ سنہری اور رہنما اصول جگمگا اُٹھے ہیں جن ضا بطو ں میں انسا نیت کے لئے خیر ہی خیر ہے اور شر قطعاََ نہیں ۔ مو لانا خو ش قسمت ہیں کہ رب تعالیٰ کی ذا ت اقد س نے انہیں دین کی ترو یج و تبلیغ جیسے اہم ترین فریضہ کے لئے منتخب کیا۔ یہ زبر دستی کی نہیں نصیبے کی با ت ہوتی ہے۔ یہاں زور و جبر نہیں چلتا یہا ں تو نظر کرم کے معا ملا ت ہی کا م آتے ہیں ۔ایک عا لم کا یہ فریضہ ہو تا ہے کہ وہ جہاں رہے علم کی تر ویج اور تر قی کے لئے کا م کر تا رہے ، کم علمو ں کو علم کی اہمیت کے متعلق آگا ہ کر تا رہے ۔ اس کے لئے علا قہ ، بستی، گا ئو ں ، شہر یا کسی بھی ملک کی محدو دیت نہیں ہو تی ۔ جس طر ح اللہ تعالیٰ کی ذا ت نے اُسے بے پنا ہ اور وسیع علم سے نوازا ہو تا ہے۔ عین اسی مانند اس کے لئے دنیا بھی وسعت پذیر ہو تی ہے وہ جہا ں کہیں بھی جا تا ہے علم و معر فت اور حکمت و دانش کے مو تی بکھیر تا رہتا ہے۔ با ت تو محض نصیب و قسمت کی ہے ور نہ علم و حکمت اور فکر و دا نش کے در ہر ایک پر کب وا ہو تے اور کھلتے ہیں۔ جب کہ میں یہ خیال کر تا ہو ں کہ قد ر ت جسے یہ لازوا ل اور اعلیٰ نعمتیں عطا کر دے اسے رب تعالیٰ کی ذا ت سے مز ید کیا چاہئے یا ایک با شعور اور ادراک رکھنے والے انسان کی طلب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے۔
یقینا مو لانا کا مشن بھی پوری عالمِ انسانیت کو ایک سچے اور آفاقی دین کی لڑی میں پرونا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی رسی کہہ کر انسا نو ں کو مخا طب کیا ہے ۔ وہ ایک ایسے نصب العین کے لئے دن را ت محنت کر رہے ہیں جو در اصل انسا نیت کی دین و دنیا کی بھلا ئی اور فلا ح کا مشن ہے کہ جس پر چل کر انسا نو ں کے لئے دین و دنیا دو نو ں کے سنور جا نے کے سو فیصد امکانا ت رو شن ہو تے ہیں ۔ تبھی تو دنیا کے ہر کو چہ میں کہ جہاں بھی مو لانا صا حب قد م رکھتے ہیں لو گ انہیں اپنا مسیحا تصور کرتے ہو ئے ان کی طرف دیوا نہ وار کھنچے چلے آتے ہیں اور ان کا پر جو ش خیر مقد م اور استقبا ل کر تے نظر آتے ہیں ۔ دنیا کے ہر خطہ میں بسنے وا لے اور زند گی کا شعور رکھنے وا لے ہر شخص کے لئے بلا امتیا ز ان کا پیغا م کسی بھی رنگ و نسل ، کسی بھی مذہب و مسلک اختیا ر کر نے وا لے کے لئے یہی ہے کہ دین و دنیا کی بھلا ئی ، دنیا اور آخر ت کی بھلا ئی صر ف اور صر ف شریعت محمد ی اور دین اسلا م میں ہے ۔ بلا شبہ ان کے اسی آفا قی پیغا م کے سبب دنیا کے ہر رنگ و نسل دنیا کے ہر مذہب و مسلک کے لو گ ان کے عقید ت مند ہیں ۔
جب مو لانا اسلام کی آفا قی فکر کو اس کے حقیقی فلسفہ حیات کی پرنور رنگینیوں کو پر مغز اندازِ خطابت میں بیان کر تے ہیں تو لا کھو ں کے مجمع پر ایک سکو ت چھا جا تا ہے لو گ اپنے ما ضی کو چھو ڑ کر نئے اندا ز میں زند گی جینے کا اپنے آپ سے عہد کرتے ہیں ۔ ان کے دلو ں پر گنا ہو ں کی بدو لت پڑا زنگ دُھلنے لگتا ہے تبھی وہ تبلیغ و الو ں کے لئے محبت اور مو لا نا طا ر ق جمیل سے وا لہا نہ عقید ت کا رنگ اختیا ر کر نے لگتے ہیں وہ یہ سو چنے پرمجبور ہو جا تے ہیں کہ آج سے پہلے تک تو انہو ں نے اسلام کی ایسی تابنا ک شکل کبھی نہ دیکھی تھی ، آج تک تو اسلا م کا یہ دلر با چہر ہ ان کی نظرو ں سے او جھل رہا ،آج تک اسلا م کی ایسی منظر کشی کا نظا رہ ان کی دید نے کبھی نہ کیا اوراس انداز میں اسلام کی سر فر ازی و سر بلندی آج تک ان کے کا نو ں میں رس گھو لتے ہوئے کبھی محسو س نہ ہوئی ، تب وہ عہد کر تے ہیں کہ اگر اسلا م ہی امن کا ، اخو ت کا ، انصا ف کا ، غر یب کا ، لا چا ر کا ، بے کس و مز دور کا ، ہا تھ سے رو زی کما نے وا لے کا ، خیر خو اہی کا، اخوت و بھائی چارے کا اور انسا نیت سے پیا ر کا دین ہے تو ہمیں پھر بھٹکنے کی کیا ضرور ت ہے ، ہمیں ایسے دین سے منہ مو ڑ نے کی کیا ضرور ت ہے ۔ ہمیں ایسی شا ن و شو کت وا لے خیرالانامۖ ، خیر الا ممۖ کی شر یعت سے رو گر دا نی کی کیا ضرو ر ت ہے؟۔
وہ دین جو انسا نیت کو ہر دہلیز پر جھک جا نے اور سجدہ ریز ہو نے سے بچا کر ایک ہی درو از ے پر جھکنے اور دستک دینے کی تلقین کرکے انسانیت کی عز ت و نفس اور انسا نی وقا ر کو رفعتیں عطا کر تا ہے ، وہ سچا اسلام جو خوا تین کے تحفظ کی مکمل ضمانت فر اہم کر تا ہے اور قرآن مقدس وہ سچی کتاب جو لا ریب ہے ، جس کو بد لا نہیں جا سکتا اور زما نہ ابد یت تک اس میں کوئی ایک حر ف بھی نہ اپنی طر ف سے کوئی شا مل کر سکتا ہے نہ ہی کسی کو یہ قو ت حا صل ہے کہ اس کتابِ مقد س کا کوئی ایک لفظ وہ مٹا سکے یا بد ل سکے ۔ جب یہ سب با تیں مو لا نا طا ر ق جمیل صا حب پر خلوص اور انتہائی احسن اندا زِ بیاں میں مجمع کے گو ش گزا ر تے ہیں تو کئی ہم ایسے بھٹکے ہو ئے را ہ رو ، کئی ہم ایسے سیا ہ کا ر و گنہگا ر اور سیا ہ بختو ں کے دل و اذہا ن سے تا ریکی چھٹنے لگتی ہے اور وہ گنا ہو ں سے تائب ہو کر اللہ کے دین کے رہنما اصو لو ں اور ضابطو ں کی رو شنی میں اپنی زند گی اور اپنے آنے والے کل کی راہیں متعین کر تے ہیں ۔ اللہ رب العز ت کے حضور دُعا گو ہو ں کہ اللہ تعالیٰ مو لانا طارق جمیل جیسے ممتاز عالمِ دین اور دنیا ئے اسلام کے عظیم مبلغ کا سایہ تا دیر اس دنیا کے انسا نو ں پر رکھے تا کہ ان کی عملی جدوجہد کے سبب گنہگا رو ں کے دل شیطا ن کے قبضے سے نکل کر ہمیشہ کے لیے اپنے سچے رب کے قبضے میں چلے جائیں اور کئی اجڑ تی بے راہ ہو تی اور ویرا نوں میں بد لتی زند گیو ں کے سیا ہ دنو ں کا اختتا م ممکن ہو ۔ بلا شبہ مو لا نا کو قد ر ت نے بے بہاعلمی مہا ر ت ، دینی پختگی اور دین ِ اسلام کی بلند فکری و سر فرا زی کا یہ منصب عطا کر کے ان کو اپنے بے حد خا ص کر م سے نوا ز ا ہے۔ دعا ہے کہ رب تعالیٰ کا یہ خاص کرم رحمت کی صورت اور رب تعالیٰ کی بے پناہ محبتوں کے ساتھ مولانا کی ذات پر دن رات اور لمحہ بہ لمحہ برستا رہے۔ خدائے لم یزل انہیں دشمنوں کی نظر بد سے اور حاسدین کے حسد سے بھی ہمیشہ محفوظ رکھے۔
تحریر: لقمان اسد