لاہور (ویب ڈیسک)کچھ لمحوں کے لیے اگر آپ ان تمام سیاسی جماعتوں کا موازنہ کریں‘ جنہوں نے ماضی میں حکومتوں کے خلاف دھرنے دیئے یا اختلاف رائے کا اظہار کیا‘ تو اندازہ ہو گا کہ تمام جماعتوں کا چلن ایک سا تھا۔ میاں صاحب سڑکوں پر نکلے‘ خلائی مخلوق کو للکارتے ہوئے‘ رکاوٹیں پار کرتے‘نامور خاتون کالم نگار مہر بخاری اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔ پولیس اہلکاروں کو حکم عدولی کے مشورے دیتے ہوئے آگے بڑھے‘ بات ریاست کی رٹ چیلنج کرنے تک بڑھی۔ خان صاحب کنٹینر پر آئے تو سول نافرمانی‘ پولیس کو للکارنے‘ حفاظتی حصار کو توڑنے‘ قانون کی پاسداری سے انحراف کرنے تک بات پہنچی۔ یہ تو طے ہے کہ ہمارے ہاں دھرنوں کا مزاج بدمست ہاتھی جیسا رہا ہے۔ کوئی حکومت گرا سکا ہو یا نہیں‘ مگر قانون اور حکومتی معاملات کو تہس نہس ضرور کر جاتا ہے۔ اور اس بدمست ہاتھی کو عدالتی فیصلے بھی کنٹرول نہیں کر پاتے۔ قاضی فائز عیسیٰ کے جس فیصلے کے خلاف حکومت فریق بنی ہے، اگر اس پر من و عن عمل ہو گیا ہوتا، تو حکومت اس شش و پنج میں نہ ہوتی۔ مولانا صاحب اس اعتماد سے، اپنی فوج تیار نہ کرتے اور بڑی سرکار کو اپنے کردار اور غیر جانبداری کی یوں گواہی نہ دینا پڑتی۔ اس فیصلے کے تناظر میں دیکھا جائے تو دھرنا دینے والا ایک اور گروہ، بڑی سرکار کا کردار، حکومت کی حکمت عملی اور آزادیٔ رائے، اپنی جگہ وہیں کھڑے ہیں‘ اور اسی شد و مد سے وہی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور رہا سیاسی دھرنوں کی تعریف کا معاملہ تو یہ تعریف ہمارے ملک میں رائج جمہوریت کے مزاج کے مطابق ہوتی ہے۔ سو تحریکیں، ہائی جیک ہو جائیں تو ملک کا نظام خود ساختہ صدر یعنی ضیا الحق چلاتے ہیں۔ تحریکیں اگر ایک سو چھبیس دن طویل ہو جائیں اور ہائی جیک نہ ہوں، تو نظام کمزور وزیر اعظم چلاتے ہیں۔ اور اگر تحریکیں جڑواں شہروں کے وسط میں بیٹھ کر، کاروبار زندگی مفلوج کر دیں تو تقاضے پورے کرنے کا نظام ریاست کو یوں چلاتا ہے کہ فیصلے اور تاریخ کے سبق، دونوں خاک چاٹتے رہ جاتے ہیں۔ مولانا صاحب اور حکومت‘ دونوں کسی عدالتی فیصلے کی فکر میں نہیں بلکہ اشارے کی فکر میں ہیں کہ اس دھرنے کو کون سا سیاسی لبادہ پہنایا جاتا ہے۔