تحریر : عبدالباسط معصومی
محترم عتیق عالم نے نہ جانے کیا سوچا کہ مجھے اس کام کے لیے موزوں خیال کیا ،کہنے لگے۔۔۔ مہدی حسن کے حوالے سے ہم جو پروگرام ترتیب دے رہے ہیں آپ ایسا کریں اُن کے گائے ہوئے چند گیتوں کی ایک کلیکشن تیار کریں تا کہ ہم محفل میں پیش کر سکیں ، کچھ گلوگاروں سے سُنیں گے اور کچھ سائونڈ سسٹم کے ذریعے حاضرین ِمجلس کو سنائیں گے (زبردستی سنائیں گے ۔۔۔زبردستی اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جو گانا بھی ہم نے وہاں بجایا ، اب اچھا لگے یا برا سننا تو پڑے گا )۔خیر میں نے گانوں کا مختصر سا ذخیرہ اپنے ساتھ لیا اور پروگرام میں شرکت کے لیے گرین لیگون ہوٹل پہنچ گیا ۔شکر خدا کا کہ مجھ سے پہلے وہاں کوئی نہ آیا تھا کہ بس شعیب ہمیش ہی تھے جو کسی بھی تقریب میں وقت سے پہلے پہنچے کا اعزاز ہمیشہ اپنے پاس ہی رکھتے ہیں ایسا کم کم ہی ہوتا ہے کہ یہ سعادت کسی دوسرے کو حاصل کرنے کا موقع دیتے ہوں ۔۔۔رفتہ رفتہ مہمانوں کی آمد جاری تھی کہ اتنے میں عتیق عالم نے مجھے پروگرام شروع کرنے کا کہا ،میں نے بھلا کیا پروگرام شروع کرنا تھا کہ یہ میرے بس کی بات کہاں تھی۔
بات صرف اتنی سی تھی کہ آج کل ایک نیا انتظامی عہدہ ایجاد ہوا ہے ”ڈی جے”۔۔۔ جی ہاں وہی DJ۔۔(جو پچھلے دنوں تحریک ِ انصاف کے دھرنوں میں اپنی ”خدمات” کے عوض نہ ملنے والی رقم کے لیے دھرنا دئیے بیٹھا تھا۔۔۔لیکن مجھے اس تقریب سے کوئی رقم یا مالی فائدہ نہیں لینا تھا) آپ تو جانتے ہیں کہ پروگرام میں ڈی جے کی ذمہ داریاں کسی بھی قسم کی دوسری ذمہ داریوں سے کس قدر اہم ہوتی ہیں۔۔۔سو یہ عہدہ میرے پاس تھا ۔میں نے لیپ ٹاپ کی مدد سے حاضرین کو مہدی حسن کے حوالے سے اپنی بنائی ہوئی ایک دستاویزی فلم دکھا کر باقاعدہ آغاز کیا۔ تقریب خراماں خراماں اپنے مقررہ ”راستوں ” سے ہوتی ہوئی آگے بڑھتی رہی یہا ں تک کہ باری آئی مہدی حسن کے شاگرد فرخ مہدی کی ۔۔۔”رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ”جیسے ہی فرخ مہدی نے اس لازوال کلام کے سروں اور انتروں سے کھیلنا شروع کیا تو سبھی حاضرین کے دلوں میں احمد فراز اور مہدی حسن کی یادیں تازہ ہو گئیں۔
ماحول میں ایک گداز سی رومانویت نے جنم لے لیا اور ہر کوئی اس ماحولیاتی کیفیت میں سر شار جھومنے لگا ۔ ابھی میں اور دیگر حاضرین اس غزل کے سحر میں ڈوبے غوطے لگا رہے تھے کہ” گلوں میں رنگ بھرے بادِنو بہار چلے ”کی مدھُر سروں نے کانوں میںرس کھولنا شروع کر دیا ۔ ایسی ایسی اُٹھان اور مُرکیاں ۔۔۔ کہ اس ماحول کے جادوئی اثر سے بچ رہنا کسی صورت ممکن نہ تھا ۔عام طور پر ادبی محفلوںکا عالم یہ ہوتا ہے کہ کئی دوست تو پچھلی نشستوں پر بیٹھے نیند کی دنیا میں چہل قدمی کرتے نظر آتے ہیںلیکن اس محفل میں منظر اس کے بالکل برعکس تھا۔ ہر ایک کی زبان اور ہاتھ ہرہر سُر پر داد دینے کو مچل رہے تھے۔
وطن عزیز کی سرحدوں کے رکھوالے سپوت کہ ہماری پُر سکون نیندیں جن کی شب بیداریوں کی احسان مند ہیں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے مہدی حسن نے معروف ملی نغمہ ”اپنی جاں نذر کروں ”گایا تھا۔ ۔۔یہ کیسے ممکن تھا کہ مہدی حسن کو یاد کریں اور اس نغمے کو بھول جائیں۔۔۔ سوفرخ مہدی نے یہ نایاب گیت شہید ِکارگل کیپٹن ناصر حمید شہید کے والد گرامی قدر راجہ عبدالحمید کی نذر کرتے ہوئے کمال خوبصورتی سے نبھایا کہ دل میں دہشت اورخوف کی گردمیں اَٹے جذبہ حب الوطنی نے ایسی انگڑائی لی کہ گھنٹوں میں اس کی سرشاری میں مست رہا۔کاش کہ ایسا ممکن ہو اس ملک خداداد کے دشمنوں کے دل بھی اپنے اصل کی طرف لوٹیں اور ہم بھی اپنی آنے والی نسلوں کو پُر امن پاکستان کا تحفہ دے کر دنیا سے الوداع ہوں ۔ تقریب ختم ہوئی تو کسی کہنے والے نے کہا ”شاباش فرخ مہدی! کہ آج مہدی حسن کی روح تمہیں اپنی شاگردی میں لینے پر فخر محسوس کر رہی ہو گی”۔
توجناب بات شروع ہوئی تھی مہدی حسن کے گانوں کی کلیکشن سے۔۔۔ ہوا یوں کہ گانے تو میرے پاس بے شمار موجود تھے لیکن مجھے پلے کرنے کا موقع کم ہی ملا لیکن ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ تقریب کے اختتام پر مذہبی حوالہ رکھنے والی ایک شخصیت نے میرے کان میں ہولے سے کہا ”ہو سکے تو مہدی حسن کے گانے مجھے یو ایس بی میں ڈال دیں ”میں ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گیا کہ یہ شخصیت ۔۔اور گانے ۔۔۔۔۔خیر پھر مجھے یاد آیاکہ مہدی حسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھاکہ” موسیقی اگر روح سے سنی اور گائی جائے تو ہمارے بزرگ اسے عبادت میں شمار کرتے ہیں اور اسے تلاشِ حقیقت میں معاون گردانتے ہیں”
مگر یاد رہے کہ یہاں موسیقی سے مراد بے سروپا گانے اور فقرے نہیںجو انسان کو انسانیت کے مقام سے ہی نیچے گرا دیتے ہیں۔مہدی حسن کی کلیکشن کی مدد سے میں دامنِ وقت میں تنگی کے باعث کوئی بہت ذیادہ دیر کے لیے حاضرین کے حوصلوں کو آزمانہ سکا مگر اس دن کے بعد سے میرے دوست اوراُستاد شعیب ہمیش مجھے ”میوزک ڈائریکٹر” کے لقب سے پکارتے اور مخاطب کرتے ہیں (مذاقاً)۔
تحریر : عبد الباسط معصومی