تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
ممبران اسمبلی جن کی تنخواہوں میں دو سال قبل اضافہ کیا گیا تھا اب پھر 100تا200فیصد تک اضافہ کرنے کی سمری ادھر اُدھر برائے منظوری گھوم رہی ہے اور بھوک سے بلکتے بچوں کو زہر آلود گولیاں کھلا کرہلاک کرنے اور خود بھی خود کشی کرنے والی اور بچوں سمیت دریا میں ڈوب مرنے والی خواتین کے واقعات دماغ میں ہتھوڑے مار رہے ہیں۔کہ یا اللہ یہ تیری کیسی بستی ہے اورہمارے حکمران کیا اتنے ظالم ،سفاک اور خود غرض ہیں کہ لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور انھیں پڑی ہے جاگیرداروں،وڈیروں اور نو دولتیے ممبران کی تنخواہوں میںاضافے کی ۔حالانکہ یہی ممبران اسمبلی ہیں جو قومی میں الیکشن کمیشن کے رولز کے مطابق 50لاکھ اور صوبائی میں 25لاکھ روپے تک الیکشنی خرچہ کرسکتے ہیں۔حالانکہ یہ لوگ اپنی سیٹیں بچانے کے لیے اور ہر صورت وکٹری سٹینڈ پر پہنچنے کے لیے20،25کروڑ سے کم خرچ نہیں کرتے ۔اگرسود خور صنعتکار ترین کا کوئی حلقہ لودھراں جیسا ہو تو ایک ارب کا خرچہ انتخاب جیتنے کے لیے کم ہی ہو گا۔ اور الیکشن کمیشن ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتاکہ مال ادھر بھی لگ ہی جاتا ہے۔
ممبران اسمبلی جیتنے کے فوری بعد”حلال کمائیوں “اور ھیرا پھیریوں سے بنک بیلنس اور بھی بڑھا لیتے ہیں ۔اس مسئلہ کا اصل حل توہے ہی یہ کہ پانچ ایکڑ سے زائد زمین اور25 لاکھ سے زیادہ بنک بیلنس رکھنے والے پرانتخابات میں حصہ لینے کی پابندی ہو۔کہ قوانین بنانے کے لیے غریب ،خدا ترس ،باکرداراوراہل افرادمنتخب ہوسکیں ۔انتخابات کی مہم چلانے کے لیے حکومت خود یونین کو نسلوں کی سطح پر اجتماعی جلسہ ہائے عام کا اہتمام کرے تمام خرچہ حکومت کے ذمہ ہو تمام امیدواروں کے منشور ،دستور ،پروگرام چھپوا کرحکومتی کارندے اور ڈاکخانہ کے ملازمین خود گھر گھر تقسیم کردیں انتخابات کے دن ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچانا بھی حکومت کے ذمہ ہوکوئی امیدوار کسی ووٹر کو لالچ دیتایا چائے کا کپ بھی پلاتا پکڑا جائے تو خو د بخود نااہل قرار پائے۔ پھر کوئی جیتا ہوا امیدوارایک دھیلے کی بھی کرپشن کرتا پایا جائے تو پھر اس کی کم ازکم سزاشہر کے مین چوک پرالٹا لٹکانا ہی ہو نی چاہیے۔ اس طرح سے حکومتی اداروں کی اصلاح کے لیے بھی ایسے ہی قوانین مرتب کرلیے جائیں تو بہتوں کا بھلا ہو گااور کرپشنی چوہے بھی دم دبا کرگہری بلوں میں گھس جانے پر مجبور ہوں گے ۔کہ نہ نو من تیل ہو گانہ رادھا ناچے گی نہ ان کا سرمایہ انتخاب پر لگے گااور نہ ہی وہ پورا کرنے کے چکر میں لوٹ کھسوٹ کریں گے۔
مگر عوامی رائے کے مطابق ایسا موجودہ یا سابقہ حکمرانوں کے اقتداروں میں تو ممکن ہی نہ ہے کہ یہ سبھی ظالم جاگیرداروں ،نو دولتیے سود خور سرمایہ داروں ، کرپٹ وڈیروں اور مظلوم مزدروں کا خون شرابوں میںملا کر پی جانے والے صنعتکاروں کے اکٹھ ہیں اور نام سیاسی جماعت رکھ چھوڑا ہے ۔بے پیندے کے لوٹوں کی طرح اِدھر اُدھرلُڑھکتے رہتے ہیں ۔جتھے دیکھی توا پرات اوتھے کٹی ساری رات کہ مفادات کے غلام اور پیسوں کے پجاری ہیں۔”سیاسی”کہلوانے کی وجہ سے ان کی پکڑ دھکڑ بھی نہیں ہو سکتی اب اگر زرداری 15ملین ڈالرز اور شریف برادران اس سے تہائی رقوم باہر کے بنکوں میں جمع کروائے بیٹھے ہیں تو ان سے کون سی عدالت یا قانون واپس منگوا کر سرکاری خزانو ں میں جمع کرواسکتا ہے کہ ایں خیال ہست ومحال است و جنوں۔ کر پٹ لادین بیورو کریسی بھی اربوں ہڑپ کر رہی ہے اور ایک دوسرے کے پشتی بان اور محافظ بنے ہوئے ہیں۔
واضح حل یہی ہے کہ گلی کوچوں گوٹھوں چکوں سے اللہ اکبر اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے پسے ہوئے غیرت مند پاکستانی باہر نکلیں اور بذریعہ بُلٹ نہیں بلکہ بذریعہ بیلٹ ان سے اقتداری کنجیاں چھین کرخدا کی زمین پر خدا کی حکومت کا جھنڈاگاڑدیں۔جس میں ہر طرح کی کرپشن ،رشوت ،مہنگائی ،بیروزگاری ،ناانصافی ،ڈکیتی ،دہشت گردی غنڈہ گردی ،اغوا برائے تاوان کا تصور بھی نہ ہو ۔میں کسی تخلیاتی حکمرانی کا ذکر نہیں کر رہا ۔کیوںکہ ایسا ممکن ہے کہ خدائے عزو جل پاکستان بننے پر لاکھوں مائوں ،بہنوں ،بیٹیوں کی قربانی دیکر کلمہ کی بنیاد پر پاکستان بنانے کے وعدوں کی تکمیل ہر صورت ممکن بنا ڈالیں ۔اب تقریباًستر سال سے ہم خون چوسنے والی جونکوں کی حکمرانی اور نام نہاد جمہوری و غیر جمہوری مارشل لائی ڈکٹیٹروں کا مزہ بھی چکھ چکے ہیں ۔کہ ان کو تو اپنی تجوریاں بھرنے کے علاوہ کسی عوامی مسئلہ کے حل کی کسی تجویز تک کا بھی پتا نہیں ہو تااور منتخب ہو کر اقتداری پنگھوڑوں میں پڑا رہنا ہی آتا ہے اور اب بھی اسی عطار کے لونڈے سے دوالیتے ہیں کے مصداق اسی مودی سے جپھیاں ڈال کر ملکی فلاح چاہتے ہیں اور کشمیر پر غاصبانہ قبضہ بھی چھڑوانا چاہتے ہیں ۔جس نے مقتدر ہوتے ہی بنگلہ دیش جاکر اعلان کردیا کہ اس کے بنانے میں ہمارا حصہ فائق تھااور اندرا گاندھی نے تو فوراً پاک سرزمین کے ٹکڑے ہوتے ہی کہہ ڈالا تھا کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو بحر ہند میں غرق کرڈالا ہے اور سکھ و ہندو غنڈے اور راء کے ایجنٹ ہماری اٹھائیس ہزارعفت مأب بچیوں کو اٹھا کر لے گئے ۔اور ہمارے حکمران اف اور تف نہ کرسکے تھے۔
اب ایسے ہی حکمرانوں اور ہندو بنیوں سے امیدیں وابستہ کرنااپنے پائوں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہو گا۔ویسے بھی ساری قوم کام چور بنی ہوئی ہے اور یہود و نصاریٰ نے مختلف قسم کے نشوں پر نوجوان نسل کو لگا ڈالا ہے ۔گستاخی معاف فوج بھی آرام طلب اور ایئر کنڈیشنڈ کی عادی بنی ہوئی ہے ایسے عوام و خواص کیا جہادی کام کریں گے کہ اب یہ ممکن ہی نہ رہا ہے۔قوموں کی زندگی میں ایسے وقت آہی جاتے ہیں صرف دلیر ایماندارقیادت ہی پانسہ پلٹ سکتی ہے ان حالات میں اگلے 2018کے عام انتخابات ایک آخری موقع ہیں جس میں اگر اسی “گائے “کے نشان پر جس کا گوشت کھانے اور اسے ذبح تک کرنے پر ہندوستان میں قتل و غارت گری جاری ہے مہریں عوام نے لگادیں تو انشاء اللہ 73کے متفقہ آئین پر عمل در آمد کرتے ہئے تمام بنیادی ضروریات زندگی گیس ،بجلی ،صاف پانی اعلیٰ سیوریج سسٹم ہمہ قسم تعلیم و علاج ہر فرد کے دروازے کی دہلیز پر مفت پہنچ سکے گااور کھانے پینے کی تمام ضروری اشیاء گندم ،چاول ،دالیں فروٹ سبزی گھی گوشت و مسالحہ جات موجودہ قیمت سے پانچواں حصہ کم قیمت پر مہیا ہوں گی اور ٹرانسپورٹ و بار برداری غریبوں کو مفت اور دیگر لوگوں کوتیسرا حصہ کم قیمت پر مہیا ہوں گی۔
ہمہ قسم مزدور و محنت کش 50ہزار روپے ماہانہ تنخواہ اور منافع میں دس فیصد حصہ دار ہو گادہشت گردی مہنگائی بیروزگاری کا مکمل خاتمہ ہو گاتو ہی ملک صحیح معنوں میں ترقی پذیر ممالک کی صفوں میں شامل ہو سکے گا۔خدا کے پاک نام اور اس کی سر بلندی کے لفظ اللہ اکبر کی تحریک ہی ایسا خوبصورت نظام دے سکے گی جس کے جیتنے پر موجودہ جغادری سیاستدان بوریا بستر سمیٹ کر بیرونی بنکوں میں جمع رقوم پر عیاشیاں کرنے کے لیے اپنے خرید کردہ بیرونی پلازوں اور فلیٹوں میں منتقل ہو جائیں گے اور ملک کی جان چھوٹ جائے گی عوام ہی انتخابات میں ایسا انقلاب بذریعہ ووٹ برپا کرسکتے ہیں اور ایسے تمام ممبران اسمبلی جو اپنے علاقوں میں جو بھی نئی سڑک یا عمارت بنے یا پرانی مرمت ہو 12.5فیصد حصہ لازماً لیتے ہیں ۔اسی طرح تھانوں کچہریوں میں سفارشوں سے بھی ان کی دیہاڑی لاکھوں کی اور وزیروں کی کروڑوں کی ہوتی ہیں پھر بھی تنخواہ بڑھائی جائے یہ تو وہی ہوا نہ کہ کتے کو راج بٹھاچکی چٹن جا(کتے کو حکمران بنایا مگر وہ چکی چاٹنے سے باز نہ آیا۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری