تحریر: نجیم شاہ
چند ہفتے قلم و قرطاس سے حجت نہ رہی اور یوں محسوس ہوا کہ ایک جہاں سے کٹ کر رہ گیا ہوں۔ ویسے تو ہر ذی روح نے اس جہانِ فانی سے کوچ کر جانا ہے مگر جانے والوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے پیچھے ناگوار یادیں چھوڑ جاتے ہیں اور ان کی یاد کی خوشبو ہر گھڑی ہر لحظہ مشام جاں کی طرح تروتازہ رکھتی ہے۔ ان ہی انسانوں میں ایک میری ہمشیرہ میمونہ بھی تھیں۔ میمون یا میمونہ کے معنی ایک اقبالمند، بختاور، مبارک، کامیاب، نیک سیرت ، پارسا خاتون کے ہیں اور وہ ان تمام خوبیوں کی مالک تھیں۔ ایک ایسے باپ کی بیٹی تھی جو ایک بلند حوصلہ، باکردار، کھرے اور دلیر انسان ہونے کے ساتھ ساتھ سخاوت کا پیکر بھی تھے۔ ان کی ملنساری اور مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ گھر آئے مہمان کی خوب خاطر مدارت کرتے ، اسی ملنساری اور مہمان نوازی کا عملی نمونہ بیٹی میمونہ بھی تھی۔ وہ بہنوں میں سب سے بڑی اور میرے لیے ایک اُستانی کا درجہ بھی رکھتی تھیں۔ میری ابتدائی تعلیم و تربیت میں اُن کا اہم کردار رہا۔ جب میں اسکول سے واپس آتا تو وہ مجھے گھر پر پڑھاتیں اور اسی وجہ سے اسکول کی ابتدائی کلاسوں میں میری ٹاپ پوزیشن رہتی۔
امیر خسرو کے مطابق بیٹی اصل میں باپ کی طرف دار ہوتی ہے جبکہ بیٹا ماں کا، مگر میمونہ نہ صرف باپ بلکہ ماں کی بھی طرف دار تھیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ والد صاحب بیٹوں کی نسبت بیٹیوں کو زیادہ فوقیت دیتے اور میمونہ سے اُن کی محبت بھی لازوال تھی، جس کا اکثر موقعوں پر وہ برملا اظہار بھی کرتے رہتے۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد میمونہ کو کینسر کی ابتدائی علامات ظاہر ہوئیں اور علاج سے افاقہ ہو گیا۔ اس عرصہ کے دوران وہ اولاد جیسی نعمت سے بھی محروم رہیں اور پھر جلد ہی اللہ تعالیٰ نے اولاد جیسی عظیم نعمت سے بھی نواز دیا جن میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ سب سے بڑا بیٹا کامران احمد شاہ یونیورسٹی میں پڑھتا ہے اور سب سے چھوٹا بیٹا عیان تقریباً چار سال کا ہے۔ والد کی وفات کے بعد میمونہ کچھ زیادہ ہی رنجیدہ تھیں۔ چند ماہ قبل بازو میں گلٹی کی شکایت ہوئی اور ٹیسٹ کروانے پر کینسر کی علامات ظاہر ہوئیں۔
بعض نے روحانی علاج اور بعض نے ڈاکٹری علاج کا مشورہ بھی دیا ڈاکٹری علاج وقفے وقفے سے جاری و ساری تھا۔ ایک دن گھر میں موجود تھیں کہ جسم کو شدید جھٹکے لگنا شروع ہو گئے اور ساتھ ہی بے ہوش بھی ہو گئیں۔ اس دوران فوری ہسپتال لے جایا گیا اور کراچی کے ایک بڑے ہسپتال میں چند ماہ تک زیر علاج رہیں اور کینسر جیسی موذی بیماری سے لڑتے لڑتے اور دنیا کے غموں سے نجات پا کر ٩ مارچ ٥١٠٢ء کو اس جہان فانی سے ہمیشہ کیلئے کوچ کر گئیں اور اب اسٹیل ٹائون کراچی کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہی ہیں۔ بیماری کے دوران اپنی اولاد کیلئے زیادہ فکر مند رہتیں۔ اس دوران ہی مرحومہ نے اپنی ایک بیٹی کی شادی کر ڈالی مگر سب سے بڑے بیٹے کامران احمد شاہ کی شادی کی خوشیاں نہ دیکھ سکیں۔ خاوند نے علاج معالجے میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگراس علاج کا موت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ موت ہر جاندار چیز کو ایک بار ضرور آنی ہے اور اس کا ایک وقت مقرر ہے جو ایک منٹ بھی اس سے آگے نہ پیچھے ہوتا ہے اور جس کی موت جہاں اور جس حالت میں لکھی ہوتی ہے اسے موت آ کر رہتی ہے اور اسی وقت آتی ہے جس وقت اس نے مرنا ہوتا ہے۔
آپ نے دیکھا بھی ہوگا کہ ہمارے بوڑھے بزرگ جب بیمار ہوتے ہیں تو کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں لیکن ان کی موت کا وقت برابر نہیں ہوتا اسکے بدلے ایک ٹھیک ٹھاک نوجوان اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہوتا ہے، کیونکہ اس کی موت کا وقت پورا ہو جاتا ہے جو بزرگ بیمار ہوتے ہیں ان کا وقت پورا نہیں ہوتا اور اگر اللہ چاہتا تو انہیں زندگی دیتا ہے اور انہیں بالکل ٹھیک ٹھاک کر دیتا ہے۔ اسی بات سے ہم سب کو عبرت ضرور حاصل کرنی چاہئے کیونکہ اللہ نے ہی ہمیں پیدا کیا اور اللہ ہی کے پاس ہم سب کو لوٹ کر بھی جانا ہے۔ بس اللہ تعالیٰ ہر کسی کو ایمان کی موت دے۔ (آمین)۔ دنیا میں اپنی زندگی کے آخری دن میمونہ بھی چوبیس گھنٹے سے زیادہ وقت سے بے ہوش تھیں اور موت کا فرشتہ اگر چاہتا تو اسی حالت میں روح قبض کر سکتا تھا مگر مگر شاید موت کا فرشتہ انہیں کلمہ پڑھنے کا موقع دینا چاہتا تھا اور عین وقت پر وہ ہوش میں آ گئیں اور پھر اگلے چند سیکنڈ میں ہی کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہی موت کو گلے لگا لیا۔ تحریر پڑھنے والے تمام قارئین سے مرحومہ کے حق میں دعائے مغفرت کی التجا ہے۔
تحریر: نجیم شاہ