لائل پورسے جب ٹرین لاہورکیلیے روانہ ہوئی تو مجھے قطعاًعلم نہیں تھاکہ یہ مجھے ایک ایسے شہرمیں لے جارہی ہے جہاں سے واپسی تقریباًناممکن ہوگی۔کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج میں داخلہ ہوچکاتھا۔ عامرچوہدری میرے ساتھ تھا۔ہم دونوں چپ سے تھے۔فیصل آباد اسٹیشن پرہمیں چھوڑنے کیلیے بھی کوئی نہیں تھااور لاہور میں بھی یہی حال تھا۔یہ1978ء کالاہورتھا۔آج کے لاہورسے بہت زیادہ مہذب اورخاموش۔
ہوسٹل میں کمرہ حاصل کرنامیڈیکل کالج میں داخلہ سے بڑاکام تھا۔ہال روڈ پر خستہ حال کمرہ ملنے پر ہم سب ضرورت سے زیادہ خوش تھے۔میرے نزدیک ہوسٹل دنیاکی سب سے بڑی تربیت گاہ ہے۔کیڈٹ کالج حسن ابدال کی وجہ سے زندگی کایہ پہلو نیانھیں تھا۔ایک دم اتنے بے مثال لوگ دوست بن گئے کہ زندگی تبدیل ہوگئی۔حسن ابدال کے کڑے ڈسپلن کے بعد ’’کے ای‘‘ میں ایسے لگتاتھاکہ آزاد پرندہ بن چکا ہوں۔ ہم سب کیلیے یہ آزادی بالکل نئی تھی اور کافی اجنبی تھی۔کلاس میں تھوڑے دن کے بعد فاروق علوی سے ملاقات ہوئی۔مکالمہ صرف ایک تھاکہ اگرآپ روزانہ چھ گھنٹے پڑھتے ہیں تومیں روم میٹ بننے کیلیے تیار ہوں۔ واقعی یہی ہوا۔عامر،میں اورعلوی کالج سے واپس آکر بے تحاشہ پڑھتے تھے۔سلسلہ تقریباًایک سال مسلسل قائم رہا۔ اس کے بعدعلوی نے بہت زیادہ پڑھنے سے توبہ کرلی۔اب وہ امتحان تجربہ اورقیافہ کی بنیادپرپاس کرتا تھا۔ عامرچوہدری پڑھنے کی عادت میں مبتلارہا۔آج وہ آنکھوں کابے مثال سرجن ہے۔اس کے علاوہ گزشتہ دس برس سے پاکستان کی بلندترین چوٹیوں کوسر کرتا رہتا ہے۔
پہلے سال میرارول نمبر107تھا۔میرے سے ایک نمبرآگے اشرف تھا۔لاہوربورڈ میں دوسری یا تیسری پوزیشن حاصل کرکے کے ای میں داخل ہواتھا۔انتہائی کم گواور مطلب کی بات کرنے والا۔کبھی کبھی عجیب سے لطیفے سناتا تھاجنھیں سن کرہنسناکافی مشکل ہوتا تھا۔ اشرف ہرکلاس میں سب سے آگے بیٹھتاتھا۔توجہ سے ہر پروفیسر کا لیکچر سنتا تھا۔نوٹس بناتاتھا۔سنجیدگی سے کام کرتاتھا۔چھ مہینے کے بعد ایک دم اشرف غائب ہوگیا۔ جہاں وہ مسلسل بیٹھتاتھا،اس جگہ پرکوئی طالبعلم بیٹھنا شروع ہوگیا۔امتحان نزدیک آیا تو پٹیالہ بلاک میں اشرف سے ملاقات ہوئی۔وہیل چیئر پر تھا اوراس کامنہ اور بدن سوجاہواتھا۔پہچانناتقریباًناممکن تھا۔ بتانے لگاکہ ایک موذی بیماری ہوچکی ہے اور جسم کے تمام پٹھے آہستہ آہستہ کام کرناچھوڑرہے ہیں۔امتحان پاس کرنے کے تھوڑے دن بعدمعلوم ہواکہ اشرف اب زندہ نہیں رہا۔ مرچکاہے۔ بیس سال کی عمرمیں موت ہرایک کو سوگوار کر ڈالتی ہے۔معلوم نہیں کیوں آج لکھتے لکھتے خیال اشرف کی طرف چلاگیاجسے اس کے کلاس فیلوبھی فراموش کر چکے ہوں گے۔شائدیہی زندگی ہے۔سوال یہ ہے کہ اگریہی زندگی ہے توپھرموت کیاشے ہے؟
کلاس میں پتہ چلاکہ احمدنام کاطالبعلم بھی فیصل آبادسے آیاہواہے۔اَناٹومی کی بارعب پروفیسرمیڈم تقیہ کے ہرسوال کافرفرجواب دیتاتھا۔انتہائی دبدبہ والی پروفیسربھی حیران ہوتی تھی کہ سوالات کے جواب کیسے آتے ہیں۔پتہ چلاکہ احمدکی یاداشت حیران کن ہے۔ ایک دوبار کتاب پڑھنے کے بعدہرایک کو بتا دیتا تھا کہ فلاں صفحے کی فلاں سطر پر کیا لکھا ہواہے۔عملی زندگی میں ذہانت کانقصان یافائدہ ہوا،یہ الگ سوال ہے۔ ہمارے ملک میں ذہانت بنیادی طورپرجرم ہے۔اس جرم کی سزامسلسل ملتی رہتی ہے۔ اگرملک میں آگے بڑھنا ہے توکوشش کیجیے کہ آپ ذہین نہ ہوں۔ادنیٰ سی سوجھ بوجھ ملک میں آگے نکلنے کیلیے نسخہ کیمیاہے۔
ہوسٹل میں صابرسے ملاقات خاصی دلچسپ تھی۔ صابرہماری ہی عمرکاتھا۔مگرقدرت نے اسے چہرہ اپنی عمرسے کافی سنجیدہ عطاکردیاتھا۔شروع شروع میں لگتا تھاکہ ہال روڈہاسٹل کاوارڈن ہے۔صابرجس اندازمیں بولتا تھاتوہم سارے قہقہہ لگناشروع کردیتے تھے۔اس کے جانے کے بعدقہقہے اوربلندہوجاتے تھے۔صابرانتہائی مخلص انسان تھا۔ہرایک کی مددکرتاتھا۔مگراس کے بولنے میں پنجابی اور اردو کاایک ایسالہجہ تھاجس کی کم ازکم میں نے آج تک کوئی مثال نہیں دیکھی۔کنٹین پرکئی دوست ناشتہ کرنے کے بعدبل صابرکے کھاتے میں ڈلوادیتے تھے۔یہ سب کچھ اس کی غیرموجودگی میں ہوتاتھا۔مہینہ کے آخرمیں بل دیکھ کرکافی پریشان ہوتاتھا۔کچھ عرصے کے بعد صابر کواندازہ ہوگیا کہ کیا ہورہاہے۔مگروہ شرافت میں کافی عرصے تک خاموش رہا۔ اس کی مسلسل خاموشی کی بدولت سب نے اس کے حساب سے خفیہ ناشتہ کرنا بند کر دیا۔
خالدچارلی حسن ابدال سے میرے ساتھ تھا۔ بہاولپورسے تعلق رکھنے والاانتہائی وجیہہ نوجوان۔ ذہانت اوراپنی عمرسے بہت آگے کے پختہ خیالات۔ زندگی میں کئی تھیوریاں سب کوسمجھانے کی کوشش کی۔ ہر چھوٹے سے امتحان کے بعدایک لیکچردیتاتھا۔متن کچھ اس طرح کاتھاکہ اس امتحان میں زیادہ سے زیادہ فیل ہوسکتے ہیں۔ لہذا ڈپریشن ختم کرنے کیلیے فلم دیکھنا ضروری ہے۔دوسراامکان یہ ہوسکتاہے کہ پاس ہوجائیں۔چنانچہ خوشی میں فلم دیکھنا بھی اَزحدضروری ہے۔یادرہے کہ یہ مکالمے کمرہ امتحان کے باہرہوتے تھے۔ابھی رزلٹ آنے میں کافی وقت ہوتا تھا۔چارلی کی اس تھیوری کے مدِنظرہم سب نے کوئی دو ڈھائی سوفلمیں دیکھی تھیں۔چارلی حسن ابدال کے ذہین ترین طالبعلموں میں تھا۔بارہ تیرہ سال کی عمرمیں وہ عورتوں کے یکساں حقوق پرتقریریں کرتاتھا۔ذہنی طورپرہم سے بہت آگے کاانسان تھا۔اس کاجرم بھی زیادہ ذہین ہونا تھا۔ سزا اسے آج تک مل رہی ہے۔
عامرعلی شاہ گورنمنٹ کالج سے کے۔ای میں آیا تھا۔ چھ فٹ سے لمباقداوربہت زیادہ خاموش طالبعلم۔بلا کا نظم وضبط کاعادی اورکمال کامحنتی۔ عامرمسلسل پانچ برس کالج میں نمایاں پوزیشن لیتا رہا۔ زندگی میں عامر سے زیادہ با تربیت انسان نہیں دیکھا۔ لندن سے ایف آرسی ایس کرنے کے بعدآج پاکستان کے ماہرترین سرجنوں میں شامل ہے۔ کینسرکی مشکل ترین سرجری کرتا ہے۔دوستوں کا دوست اور بہت کم لوگوں سے گھلنے ملنے والاانسان۔آج بھی اس کامزاج بالکل وہی ہے جو میڈیکل کالج کے فسٹ ائیرمیں تھا۔ وہی متانت اور وہی توازن۔
فاروقی جس موٹرسائیکل پرکالج آتاتھا،اس کی بریکیں نہ ہونے کے برابرتھیں۔چنانچہ وہ موٹرسائیکل روکنے کیلیے پیروں کااستعمال کرتاتھا۔یہ دنیاکی واحد موٹرسائیکل تھی جس کے مالک نے بریکیں ٹھیک کروانے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی بلکہ کافی عرصہ ویسے ہی گزارا کرتارہا۔عرض نہیں کرنا چاہتا کہ یہ عرصہ دوسال تک محدود تھایاپانچ برس تک۔فاروقی ایک حیرت انگیزانسان ہے۔جس طرح اپنے دوستوں کا خیال رکھتاہے اس کی مثال بہت کم ہے۔آپ اسے رات کے پچھلے پہربھی کوئی کام کہہ دیں توخندہ پیشانی سے کریگا۔ لاہورمیں ہڈیوں کا معروف سرجن ہے۔دسترخوان بھی اس کے دل کی طرح وسیع ہے۔کمال انسان ہے،صاحب،کمال انسان!
بلال بن خالدفسٹ ائیرمیں ہی مختلف ساانسان تھا۔ لہجے میں لاہورکے خاندانی پن کی مٹھاس تھی۔ ویسے توبالکل بے پرواہ ساانسان نظرآتاتھا۔مگریہ صرف ظاہرمیں تھا۔ اندرونی طورپر اپنے معین کردہ نظم وضبط کابھرپورخیال کرتا تھا۔لہجہ میں کسی قسم کی بناوٹ کے بغیر آج تک آسان سے آسان اورمشکل سے مشکل بات بڑے اطمینان سے کرتا ہے۔مجلس میں قہقہے بکھیرنے والا شخص۔اس کے اندازاورلہجہ کا دوسرا آدمی دیکھنے کونہیں ملا۔ایم بی بی ایس کرنے کے بعد حیرت انگیزفیصلہ کیا۔ بڑے بھائی سعدسے ملکرمعیاری کپڑے بنانے لگا۔ سعدی بھائی اوربلال آج پاکستان کے معیاری ترین برینڈکے خالق اورمالک ہیں۔ سعدی بھائی ہمارے ساتھ ادب کے رشتہ کے باوجودانتہائی بے تکلف محبت کرتے ہیں۔یہ دونوں بھائی، عجیب سے مردِدرویش ہیں۔
ناصرشاہ جہلم سے جب لاہورآیاتوکسی کومعلوم نہیں تھا کہ اپنی ذات میں خوددیوان ہے۔ اردو اور پنجابی کے ہزاروں شعر اَزبر تھے۔آج بھی وہی حالت ہے۔شاہ جی کو موڈمیں آنے دیں۔اس کے بعد خوبصورت ترین اشعار کی برسات ہوجاتی ہے۔ یادہے،نیوہاسٹل کی چھت پر ناصرشاہ نے پوری رات مسلسل شعرسنائے تھے۔آج تک میں حیرت زدہ ہوں کہ شاہ جی کواتنے شعرکیسے اور کیونکر یاد ہیں۔ بلا کا حافظہ اورادائیگی میں کمال کاٹھہراؤ۔ جہاں بھی شاہ جی سے ملاقات ہوتی ہے،ایک یک طرفہ مشاعرہ بند جاتا ہے۔ وہ شعرسناتاہے اورہم سارے سردھنستے ہیں۔ پنجابی زبان پر دسترس کمال کی ہے۔کس کس نایاب انسان کاذکر کروں۔ کس کا نہ کروں۔ مبین، سہیل، احمد مہدی،طارق اورایسے کئی خوشبودار لوگ۔ مجھے ایسے لگ رہاہے کہ یہ تمام دوست میرے اردگرد بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں اکیلانھیں ہوں۔مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ یادوں پرمحیط یہ نایاب لمحے کیوں لکھ رہے ہو!