پچھلے کالم میں کہیں قربانی کا تذکرہ تھا، اسی ذکر کو بنیاد بنا کر برطانیہ سے بیرسٹر رضوان الحق لکھتے ہیں کہ ’’…..آپ کی تحریر قربانی کے جذبے سے لبریز تھی، پاکستانی سیاستدان قربانی تو دن رات کررہے ہیں مگر افسوس کہ چھری اپنے ہی ملکی وسائل پر چل رہی ہے، پچاس پچاس گاڑیوں کے پروٹوکول میں گھومنے والے منتخب و غیر منتخب افراد کس ملک کے وسائل پر پل رہے ہیں، کیا یہ لوگ اپنی لوٹ مار پر قوم سے معافی مانگتے ہیں، ہرگز نہیں۔ کیا یہ لوگ راتوں کو اٹھ کر اللہ تعالیٰ سے معافی کے طلبگار ہوتے ہیں، ہرگز نہیں۔ کیونکہ یہ لوگ طاقت کے نشے میں غرق ہیں، انہیں کسی سے کوئی غرض نہیں، یہ لوگ قانون کا مذاق اڑاتے ہیں اور مذاق ہی مذاق میں سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوتے ہیں اور جس وقت یہ سب کام ہورہا ہوتا ہے، قائدین ساتھ ہوتے ہیں۔ جہاں تک حکومتی کارکردگی کی بات ہے توبجٹ کا توازن بگاڑنے کیلئے ایک اورنج ٹرین ہی کافی ہے، پاکستانی معاشرے میں ٹیکس تو صرف سرکاری و غیر سرکاری ملازمین دیتے ہیں، باقی لوگ کہاں ٹیکس دیتے ہیں…..‘‘
بیرسٹر رضوان الحق نے جو نشاندہی کی ہے اس طرح کی نشاندہی کئی اور افراد کرتے رہتے ہیں مگر ان افراد کو وہ فہرست بھی ضرور پڑھ لینی چاہئے جس میں ٹیکس دینے والے سیاستدانوں کا ذکر ہے۔ پروٹوکول کے بارے میں اگر سیاسی جماعتوں کے افراد سے سوال کیا جائے تو وہ صاف کہتے ہیں کہ’’…..ہر ملک کے اپنے اصول اور تقاضے ہوتے ہیں، ہمیں اپنے ملک کے اصولوں اور تقاضوں کے مطابق چلنا پڑتا ہے، یہاں کے حالات پروٹوکول کے متقاضی ہیں، اگراتنا بڑا پروٹوکول نہ دیا جائے تو پھر یہ کیسے پتہ چلے گا کہ کون آیا ہے؟ ہمیں ہمارے لیڈروں کی جان بھی بہت عزیز ہے، ہم عوامی خدمت گار ضرور ہیں مگر جان کی حفاظت بھی بہت ضروری ہے، جن لوگوںکو پروٹوکول برا لگتا ہے انہوں نے تو کبھی عوامی خدمت کی ہی نہیں لہٰذا پاکستان کے حالات ایسے ہیں کہ یہاں پروٹوکول کا ہونا ازحد ضروری ہے…..‘‘
جس دن میاں نوازشریف چترال کے جلسے پر بڑے خوش تھے، ابھی چند روزپہلے وہ اس کامیاب جلسے کے انعقاد پر امیر مقام کو شاباش دے رہے تھے تو مجھے ایک پرانا جلسہ یاد آگیا۔ یہی امیر مقام تھے، یہی جلسہ گاہ تھی بس لیڈر کا فرق تھا۔ کچھ سال پہلے امیر مقام نے چترال میں بڑا کامیاب جلسہ منعقد کیا، جلسے پر (امیر مقام کے اس وقت کے لیڈر) جنرل پرویز مشرف اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے اسی خوشی میں امیر مقام کو تحفے میں پستول دیا۔ وہ پستول یقیناً آج بھی اس صاحب مقام سیاستدان کے گھر پر ہوگا کیونکہ کچھ مزید سال گزرنے کےبعد ایسے لوگوں کی اولاد اپنے دوستوںکو بتا رہی ہوتی ہے کہ جب فلاں حکمراں آیا تو اس نے ہمارے باپ کو یہ دیا، جب دوسرا آیا تو اس نے وہ دیا، جب تیسرا آیا تو اس نے یہ نشانی دی، چوتھا آیا تو یہ تحفہ، ابو جی کی خدمات کے صلے میں لایا۔
میں نے پاکستان کے کئی امیر زادوں اور امیر زادیوں کے گھروں میں ایسی تصاویر دیکھی ہیں جو ان کی غلامی کی منہ بولتی تصاویر تو ہیں مگر وہ ان پر بڑے نازاں نظر آتے ہیں، جب وہ ان تصاویر پر کمنٹری کررہے ہوتے ہیں تو تعریفوں کے کیا کیا قلابے ملا رہے ہوتے ہیں حالانکہ یہ پورا جہیز غلامی ہی کا ہوتا ہے۔
میرے ایک اور دوست نے اس جانب توجہ مبذول کروائی ہے کہ پرویز مشرف تو اب تک میاں نوازشریف کے کام آرہے ہیں مثلاً میاں صاحب کے دفاع کیلئے پرویز مشرف کی ٹیم آگے آگے ہے۔ بولنے کیلئے دانیال عزیز اور طلال چوہدری جبکہ قانونی پیچیدگیوں کیلئے زاہد حامد کا چھومنتر چلتا ہے اور تو اور سابق وزیر دفاع جو پرویز مشرف کے کلاس فیلو تھے ان کا ایک بھانجا دن رات جاگ کر موجودہ حکومت کیلئے کام کررہا ہے، جلسوں کا انتظام، امیر مقام کے پاس ہے۔
میرے پاس عوامی خدمت گاروں کی چند تفصیلات آگئی ہیں۔ ایک ایم این اے کی ماہانہ آمدنی ایک لاکھ بیس ہزار سے دو لاکھ تک بنتی ہے، آئین سازی کے نام پر روزانہ کی بنیاد پر روپیہ الگ ملتا ہے۔ باقی سفری سہولتیں ہوتی ہیں، صحت کی سہولتیں ہوتی ہیں، اس کے علاوہ بجلی اور فون کے اخراجات بھی ہوتے ہیں۔ عوامی خدمت کیلئے ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈز بھی ملتے ہیں مگر عوامی نمائندوں کے بقول بہت کم پیسے ملتے ہیں۔ اگر عوامی خدمت گاروں کی بات مان لی جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر سیاستدان گھاٹے کا یہ سودا کیوں کرتے ہیں، کیوں قومی اسمبلی میں پہنچنے کیلئے کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ میں نے اپنے ایک سمجھدار دوست سے پوچھا کہ آخر قومی اسمبلی یا سینیٹ کا ممبر بننے کیلئے یہ لوگ اتنا پیسہ خرچ کیوں کرتے ہیں؟ اس پر میرے دوست نے ایک لطیفہ سنایا، اس نے کہا کہ ’’…..میرے ایک دوست حاجی ’’چرچر‘‘ خان ایوان بالا کے رکن بنے تو میں نے ان سے پوچھا، حاجی صاحب اتنے کروڑ ایک سینیٹر بننے کیلئے لگا دیئے ہیں، کمائیں گے کیسے؟ حاجی مسکرایا اور کہنے لگا، پہلے چھ مہینوں میں دو پھیرے لگ گئے تو حساب برابر، باقی کے سال کمانا ہی کمانا ہے، گاڑی ہمارا کون روکے گا، ہمارا استحقاق مجروح ہوتا ہے…..‘‘
قارئین کرام! آپ اس لطیفے کو لطیفہ ہی سمجھیں، ویسے لطیفے زندگی کا حصہ ہیں، شاعری بھی زندگی کا حصہ ہے، بہت خوبصورت شاعرہ رخشندہ نوید کے بقول؎
چند لمحوں کی مختصر قربت
اور یادیں شمار سے باہر
اس لئے اس کی یاد میں گم ہوں
بھولنا اختیار سے باہر