تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال
عالمی ادارہ صحت کا کہناہے کہ دنیا بھر میں 45 سے 50 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔ ہر چوتھا فرد کسی نہ کسی ذہنی مرض کا شکار ہے جس میں سب سے زیادہ پائی جانے والی دماغی بیماریاں ڈیپریشن اور شیزو فرینیا ہیں۔ ذہنی بیماریوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اس کالم میں ا ن کے نام اور مختصرتعارف بھی لکھنا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان میں ذہنی امراض کی صورتحال پریشان کن ہے۔
ہمارے ملک کی تقریباََ نصف آبادی ڈپریشن کا شکار ہے، اس لیے آج اسی پر بات کرتے ہیں ۔یہ بات میں پوری ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں اکثریت ان کی ہے جو ڈپریشن کو مرض ہی نہیں سمجھتے یعنی یہ مرض اتنا عام ہے۔ بد امنی، خود کش بم دھماکے ، غربت، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ ،خاندانی لڑائی جھگڑے،اور سب سے بڑھ کر عدم تحفظ کا بڑھتا ہوا احساس ذہنی امراض مثلاََاضطراب، بے چینی، چڑچڑاپن، غصہ ،ڈپریشن یا ذہنی دباؤ وغیرہ کا باعث بن رہا ہے ۔پاکستان میں تقریبا 40 فیصد افراد مختلف قسم کے ذہنی مسائل کا شکار ہیں۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے 18 کروڑ عوام کے ذہنی امراض کے علاج کے لیے صرف 450 سے زائد ماہر ڈاکٹر اور 5 یا 6 ہسپتال موجود ہیںجو کہ انتہائی ناکافی ہیں۔
کیا آپ ذہنی دباوئویا ڈپریشن کا شکار ہیں ،اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ ہر وقت ہر وقت افسردہ رہیں ، اپنے کاموں ،مشاغل سے دلچسپی کم یا ختم ہو جائے ،ذہنی یا جسمانی تھکن محسوس کریں یہ تھکن مسلسل رہے ۔بلا وجہ غصہ آئے، آپ خود کو دوسروں سے اعلی یاکمتر خیال کرنے لگیں ،ماضی کی غلطیاں پچھتاوے بن جائیں ،خود کو یا دوسروں کو برے حالات کا ذمہ دار سمجھیں ۔اور مایوس ہو جائیں اگر آپ کی نیند اور بھوک اڑ جائے ،خود کشی کو دل چاہے تو سمجھ لیں کہ آپ ڈپریشن کا شکار ہیں۔
امریکہ میں قائم ادارے نے 1992ء میں پہلی مرتبہ دماغی صحت پر عالمی کانفرنس کا نعقاد کیا تھا۔جس میں فیصلہ ہوا کہ ہر سال 10 اکتوبر کو ذہنی صحت کا عالمی دن منایا جائے ۔اس کا مقصد ذہنی صحت کے متعلق شعور اور آگہی میں اضافہ کرکے صحت مند معاشرے کی تشکیل میں کردار ادا کرنا ہے ۔ذہنی امراض کے حوالے سے ہمیں ایک بات بہت توجہ طلب ہے کہ ذہنی بیماریاں جسمانی بیماریوں کا باعث بن سکتی ہیں۔تحقیق ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو ڈیپریشن کا خطرہ دگنا ہوتاہے ۔ السر ،دمہ ،آدھے سر کا درد، کمر درد، بلڈ پریشر اور دل کی بیماریاں اعصابی بیماریاں بھی قابل ذکر ہیں۔ روحانی و نفسیاتی اسکالر خواجہ شمش الدین نے اپنی ایک کتاب میں ایسی اڑھائی سو بیماریوں کے بارے میں لکھا ہے جو ذہنی امراض سے جسمانی امراض بن جاتی ہیں ۔اس کے علاوہ نفسیات کتابوں میں اس موضوع پر کافی تحقیقی معلومات درج ہیں ۔جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بہت سی جسمانی بیماریوں کا سبب ذہنی بیماریاں ہوتی ہیں۔ ڈیپریشن میں مبتلا لوگ اکثر ورزش نہیں کرتے اس لیے موٹاپااور دیگر بہت سی بیماریوں کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں ۔وقت پر کھانا نہ کھانا ،نیند پوری نہ ہونا اس سے اعصاب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور جسمانی بیماریاں حملہ کر دیتی ہیں۔
امریکی ماہرین کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جو لوگ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں، ایسے لوگوں میں ذہنی دبائو ہونے والی بیماریاں جیسے ذیابیطس، امراض دل اور سرطان ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں تاہم وزن کو کنٹرول کرکے (وزن بذریعہ ورزش کنٹرول کریں) مہلک امراض سے محفوظ رہ کر فعال اور صحت مندانہ زندگی گزارنا ممکن ہے ۔ ڈپریشن کاہلی اور بے کاری سے پیدا ہوتا ہے ۔اس لیے خود کو مصروف رکھئے ۔خود کو مصروف رکھنے کے لیے بامقصد کام یا مشغلہ تلاش کریں مثلاََ جس سے آمدن یا صحت میں اضافہ ہو۔
یاد رکھیں خالق نے آپ کو ایک خاص مقصد کے لیے دنیا میں بھیجا گیا ہے، اس لیے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں ۔احساس برتری بھی ایک ذہنی مرض ہے یاد رکھیں اللہ کو غرور پسند نہیں ہے، اس لیے خود کو دوسروں سے افضل نہ سمجھیں نفرت، غصے ، پشیمانی ،بدلہ، پریشانی اور حسد کے جذبات کو دل سے نکال دیں۔ اللہ کی خوشنودی کے لیے مخالفین کو معاف کر دیں ۔ضرورت مندوں کی مدد کریں، اس سے دلی سکون ملے گا۔جی بھر کر رونے سے بھی ڈپریشن میں کمی آتی ہے، اس لیے بہتر ہے کہ اللہ کے سامنے روئیں ۔مساج ، چہل قدمی ، یوگا ،عبادات خصوصاً نماز کا اہتمام کرنے سے جو ذہنی و قلبی سکون حاصل ہوتا ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔
باقاعدگی سے نماز پڑھنے والے لوگ اکثر لمبی عمر پاتے ہیں اور کم بیمار پڑتے ہیں۔ڈپریشن تنہائی کی وجہ سے ہوتا ہے اس لیے ، میل جول بڑھائیں،نئے دوست بنائیں، فلم، موسیقی، کھیل خاص کر مطالعہ کا مشغلہ اپنائیں اور ہاں، مسکرانا مت بھولیے ۔نصیحت ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر منہ نہ لٹکائیں بلکہ مسکرائیں اتنی سی کوشش سے آپ ڈپریشن کے حملے سے بچ سکتے ہیں ۔ کالم کے اختتام پر مجھے کہنا ہے کہ ۔انسان جب جوان ہو تو ذہنی امراض کا کسی حد تک مقابلہ کر سکتا ہے، لیکن بڑھاپے میں اعصابی کمزوری کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں رہتا اس لیے دین اسلام میں حکم ہے کہ اپنے والدین کو اف تک نہ کہو اس لئے معاشرے میں لوگوں کو چاہیے کہ وہ ضعیف العمر افراد کو خصوصی توجہ دیں۔
تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال