جب جنگ کا ماحول ہو تو سپہ سالاروں کی مقبولیت مزید بڑھ جاتی ہے۔شاید یہی سوچ کر ایک امریکی ادارے نے گلف وار کے دوران سروے کروایا کہ کتنے فیصد امریکیوں کو اپنے صدر کا نام معلوم ہے اور کتنے فیصد امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے نام سے واقف ہیں۔مگر جب نتائج مرتب ہوئے تو سب حیرت زدہ رہ گئے۔صرف 15فیصد امریکی شہری اپنی فوج کے سربراہ کا نام بتا سکے جبکہ صدر کا نام 83فیصد شرکا کو معلوم تھا۔2007ء میں جب افغانستان کے بعد عراق میںامریکی افواج برسرپیکار تھیں تو ایک مرتبہ پھر سروے کروایا گیا اور اس مرتبہ آرمی چیف کے بجائے وزیر دفاع کا نام پوچھا گیا ۔79فیصد امریکیوں کو معلوم نہ تھا کہ ان کے ملک کا وزیر دفاع کون ہے۔لاعلمی و لاتعلقی کا یہ رجحان محض امریکہ تک محدود نہیں آپ اپنے ہمسایہ ملک بھارت میں کسی سے فوجی سربراہ کا نام پوچھیں تو وہ سر کھجانے لگے گا۔کینیڈا سے برطانیہ اور ترکی سے ملائیشیا تک کسی بھی ملک میں آرمی چیف کو اس قدر مقبولیت حاصل نہیں ہوتی جتنی وطن عزیز میں عساکرپاکستان کے سربراہ کے حصے میں آتی ہے۔آپ اسکردو سے کراچی اور وزیرستان سے لاہور تک کسی سے بھی پوچھ لیں کہ آرمی چیف کون ہے ،وہ موجودہ آرمی چیف تو کیا اب تک آنے والے 16میں سے 10سابقہ چیف صاحبان کے نام بھی گنوا دے گا۔دنیا بھر میں آرمی چیف ،چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور خفیہ اداروں کے سربراہان کا تقرر سربراہ حکومت کا استحقاق سمجھا جاتا ہے اور اسے معمول کی سرگرمی کے طورپر دیکھا جاتا ہے۔لیون پنیٹاامریکی سی آئی اے کے سربراہ رہے ہیں۔ان کی کتاب ـ’’وردی فائٹس‘‘ پڑھ کر دیکھیں تو آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں۔جب براک اوباما امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے ایک دن اطالوی امیگرنٹ کارمیلو پنیٹا کے بیٹے لیون پنیٹا سے رابطہ کیا اور سی آئی اے چیف بننے کی پیشکش کی۔لیون پنیٹا دنگ رہ گئے۔انہوں نے کہا ،جناب صدر! آپ کی ذرہ نوازی کا شکریہ مگر مجھے تو انٹیلی جنس کی الف ب کا نہیں پتہ۔میں کبھی فوج میں نہیں رہا۔مختلف قانون سازوں کے ساتھ کام کر نے کا تجربہ ضرور ہے ،بجٹ کی تیاری کا کام جانتا ہوں مگر خفیہ ادارہ چلانے کے بارے میں کوئی مہارت نہیں رکھتا۔اور میں تو ریٹائرمنٹ لینے کا سوچ رہا ہوں کیونکہ میری عمر 70برس ہو گئی ہے۔اوباما نے ان میں سے کوئی عذر قبول نہ کیا اور یہ تاویل پیش کی کہ سی آئی اے غیر قانونی طور پر لوگوں کو تحویل میں لینے ،غیر اخلاقی طور پر تشدد کا نشانہ بنانے اور گوانتا ناموجیسے عقوبت خانے بسانے کے باعث بدنام ہو گئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ جیسا غیر فوجی شخص اس کا کھویا ہوا تشخص بحال کرے۔کسی امریکی اینکر نے اس غیر متوقع تعیناتی پرکسی کو سیکورٹی رسک قرار نہیں دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لیون پنیٹا امریکی تاریخ کے کامیاب ترین سی آئی اے چیف ثابت ہوئے۔ان کے دور میں ہی اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگانے کے لئے سی آئی اے نے کامیاب آپریشن کیا۔اور وہ میک کرسٹل تو یاد ہو گا آپ کو؟امریکی فوج کا انتہائی قابل جر نیل ۔ایک دن اس نے کسی حساس قومی معاملے پر غیر محتاط رائے زنی کی غلطی کی تو اوباما نے عین جنگ کے دوران اس سے استعفیٰ لے لیا۔
مگر ہمارے ہاں آرمی چیف کی تعیناتی اتنی بڑی خبر ہوتی ہے کہ فوجی سربراہ کے عہدہ سنبھالتے ہی یہ فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ کیا یہ صاحب مدت ملازمت ختم ہونے پر ملک و قوم کے مفاد میں گھر چلے جائیں گے۔جنرل راحیل شریف افواج پاکستان کے 15ویں سربراہ تھے مگر ان سے پہلے چار آرمی چیف ہی ایسے ہیں جو معمول کے مطابق اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔جنرل ڈگلس،جنرل ٹکا خان،جنرل اسلم بیگ اور جنرل عبدالوحید کاکڑ۔جنرل فرینک میسروی اورجنرل گل حسن کو مدت ملازمت ختم ہونے سے پہلے گھر بھیج دیا گیا۔جنرل موسیٰ اور جنرل کیانی کو قانونی طریقے سے مدت ملازمت میں توسیع دی گئی۔جنرل آصف نواز جنجوعہ دوران ملازمت فوت ہو گئے اور جنرل جہانگیر کرامت کو استعفیٰ دینا پڑا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں آرمی چیف کی وزیراعظم سے ملاقات بھی بریکنگ نیوز ہوتی ہے اور ٹی وی اسکرینز پر جلوہ افروز بعض اینکرز باڈی لینگویج کی بنیاد پر ناظرین کو آگاہ کرتے ہیں کہ بس آج شٹ اپ کال دیدی گئی ہے۔ملاقات کی ویڈیو اور تصاویرکا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے کہ آرمی چیف نے وزیراعظم کو سیلوٹ کیا ہے یا نہیں۔پاکستان کے ایک چینل کے ایک اینکر جو مسلسل بتا رہے تھے کہ قیامت آنے والی ہے ،ان کے پاس کہنے کو اور کچھ نہ بچا تو یہ نکتہ آفرینی کی کہ آرمی چیف کی تعیناتی کی ٹویٹ آئی ایس پی آر کی طرف سے نہیں آئی اس کا مطلب ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔اب انہیں کون بتائے کہ جس عہدے پر تعیناتی وزیراعظم نے کرنی ہے اس کی اطلاع آئی ایس پی آر کیسے دے سکتا ہے؟
طرفہ تماشا دیکھئے کہ تین برس تک جن کے منہ سے شکریہ راحیل شریف کے پھول جھڑتے رہے ،آج ان کی زبانیں زہر اگل رہی ہیں اور وہ جنہوں نے اب تک داد و تحسین کے ڈونگرے نہیں برسائے تھے اب زندگی بھر راحیل شریف کو اچھے الفاظ میں یاد کیا کریں گے۔کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ جو تجزیہ نگار کل تک یہ تسلیم کرنے کو ہی تیار نہ تھے کہ وزیراعظم کو آرمی چیف کا انتخاب کرنے کی مہلت ملے گی ،وہ بھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ میں نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ جنرل باجوہ نئے آرمی چیف ہوں گے۔جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر امریکی میڈیا کی تجزیہ نگاری کا پول کھل گیا اسی طرح جنرل قمر باجوہ کی تعیناتی پر بھی بہت سے سینئر صحافی کسی کومنہ دکھانے کے لائق نہیں رہے۔ان طوطافال تجزیہ نگاروں کی باتوں پر جائیں تو اس حساب سے استاد نصرت فتح علی خان نے کئی دہائیاں پہلے ہی ’’میرے رشک قمر‘‘ گا کر بتا دیا تھا کہ جنرل قمر باجوہ کو افواج پاکستان کا سربراہ بنایا جائے گا۔
میرے رشک قمر تو نے پہلی نظر جب نظر سے ملائی مزا آگیا
برف ہی گر گئی کام ہی کر گئی ،آگ ایسی لگائی مزا آ گیا