تحریر: امتیاز علی شاکر
تخلیق کائنات کے ساتھ ہی خیروشر کی جنگ نے سر اُٹھا لیا جو آج تک جاری ہے۔ اُولیا اللہ ہمیشہ سے خیر کی نمائندگی کرتے آرہے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے۔ حق وسچ کے حصول اور اشاعت کیلئے ہرقسم کے دبائو کو کسی خاطر میں نہ لانا اللہ والوں کی شان ہے۔ شر نے ہمیشہ دنیا میں جہالت پھیلائی اور اولیا اللہ نے ہمیشہ علم وعمل کی روشنی سے معاشرے کو منور کیا اور معاشرتی بُرائیوں کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
سرکار دو عالم حضرت محمدۖ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں ۔رب رحمان نے آپۖ کے بعد سلسلہ نبوت ختم کردیا ۔آپ ۖ سے پہلے آنے والے انبیاء کرام مخلوق کوبھلائی کی دعوت اور بُرائی سے بچنے کی نصیحت کرتے رہے ۔اُولیا اللہ ہر دور میں موجود رہے جبکہ سلسلہ نبوت بند ہونے کے بعد مخلوق کی بھلائی اور انبیاء کرام اور خاص طور نبی کریم ۖ کی تعلیمات اور احکامات کی روشنی میں اسلامی تہذیت کو زندہ رکھنا اور انسانیت کو شر سے بچاکر خیر کی طرف مائل کرنا اُولیا اللہ کی ذمہ داری ہے۔اپنے مرشِد،آل رسولۖسید عرفان احمد شاہ المعروف نانگا مست،آپ کے مرشِد باباجی عبدالغنی چشتی سرکارنے آپ کوشہزادے کا لقب دیا ،باباجی محمد علی مست سرکارنے آپ کو معراجدین کا لقب دیااور حضرت خواجہ اُویس قرنی کی تعلیمات کے ساتھ خاص محبت کے باعث تحریک اُویس پاکستان کے امیر پیر غلام رسول اُویسی صاحب نے آپ کو تحریک اویس پاکستان لاہور کے سرپرست اعلیٰ کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔
اپنے مرشِد سید عرفان احمد شاہ اُویسی صاحب کی تربیت میں ایک طالب کی علم کی حیثیت سے حاضر ہوتا ہوں تو اللہ تعالیٰ ،رسول اللہۖ اور اُولیا اللہ کی تعلیمات کے انمول موتی حاصل ہوتے ہیں ۔اہل قلم کی حیثیت سے ان انمول موتیوں کی روشنی کو آپ تک پہنچاکر اپنا فرض پورا کرنے کی کوشش بھی اکثر کرتا رہتا ہوں۔ خیر کا پیغام عوام تک پہچانے کیلئے ہمیں آپۖ کی حیات مبارکہ سے ہمیشہ مدد ملتی ہے ۔خیرکاجو پیغام آپۖ نے دنیا کو دیا اُس کی مثال نہیں ملتی ۔ضرورت اس امر کی کہ ہم قرآن کریم ،احدیث نبیۖاورآپۖ کی حیات مبارکہ سے فائدہ حاصل کریں۔رسول ا للہ ۖنے خطبة الوداع دیتے ہوئے فرمایا” لوگومیں جوکہوں سن لو،گو مجھے معلوم نہیں ،ممکن ہے کہ اس حج کے بعد پھر میں تم سے یہاں نہ مل سکوں۔لوگو جس طرح یہ دن ،یہ مہینہ اور یہ مقام محترم ہے اسی طرح جب تک تم زندہ ہوتمہاری جانیں،تمہاری عزتیںاور تمہارے مال بھی باہم ایک دوسرے پرحرام ہیں۔
عنقریب تم اپنے پروردگار کے سامنے پیش کئے جائو گے اور وہ تمہارے اعمال کی بابت بازپرس کرے گا،خبردار میرے بعد گمراہ نہ ہوجاناکہ ایک دوسرے کی گردنیںکاٹنے لگو،جاہلیت کی ہربات میں اپنے پائوں پامال کرتا ہوں۔آپۖ نے فرمایا کہ کسی عربی کو عجمی پرعجمی کو عربی پر ،گورے کو کالے پراور کسی کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہیں،بڑائی کا معیار نیکی اور خوف خُدا ہے تم سب اُولاد آدم ۖاور آدم علیہ السلام مٹی سے بنے تھے ،سب مسلمان آپس میں بھائی ،بھائی ہیں،لوگو میں نے تم میں دوچیزیں چھوڑی ہیں ،جب تک انہیں تھامے رہوگے،ہرگز گمراہ نہیں ہوگے،وہ چیزیں کتاب اللہ اور اس کے رسولۖ کی سُنت ہے”قارئین محترم فرمان رسول اللہ ۖ کے مطابق ہمیں اپنی زندگی اور معاشرے کو گمراہی سے بچانے کیلئے جن دو چیزوں کو تھامے رکھنا تھا بدقسمتی سے ہم نے اُن سے دوری اختیار کرلی ہے۔یہاں تھامے رکھنے کامطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ پکڑے رکھنا بلکہ کتاب اللہ اور سُنت رسول اللہ ۖ کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھ کر حرام سے ٹھیک اُسی طرح کنارا کرنے کا حکم ہے جس طرح فرما دیا گیا۔
سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں نبی کریم ۖ کے اس فرمان کے بعد یہ بات واضع ہوگئی ہے کہ ہمیں نہ صرف ایک دوسرے کی غلطی کو معاف کرنا ہے بلکہ ایک دوسرے کا خیال بھی رکھنا ہے ۔اگر آپۖ کی حیات مبارکہ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپۖ نے کبھی کسی دشمن کو بھی بددُعا نہ دے کر ہمارے لئے ایسی مثال قائم کی جسے ہم پوری کوشش کے بعد بھی فراموش نہیں کرسکتے ۔فرمان رسول اللہ ۖ ہے کہ”اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے ،کیونکہ وہ نہیں جانتے ”رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اسلام کا بدترین دشمن تھا،جب وہ فوت ہوا تو رسول اللہ ۖ نے اُس کے حق میں دعا ئے مغفرت کی اوراپنی قمیض مبارک عنایت فرمائی ۔اُس کی سرکشی اور منافقت کے سبب اسے فائدہ نہ ہوالیکن اُس کے قبیلے کے سینکڑوں افراد نے آپۖ کی رحم دلی کی وجہ سے اسلام قبول کرلیا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آخری اور محبوب نبی حضرت محمدۖ کی اُمت سے پہلے نبیوں کی امتوں کو اُن کی نافرمانی اور سرکشی کے سبب مختلف عذابوں میں مبتلا کیا گیا۔
کسی قوم کی صورت مسخ کردی گئی ،کسی کی بستی کواُلٹ دیا گیا،کسی پرپتھروں کی بارش کی گئی اورحضرت نوح علیہ السلام کی قوم تو اپنی مسلسل نافرمانیوں اور حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے پانی کے عظیم طوفان(عذاب)کی نذر ہوکر صفحہ ہستی سے مٹ گئی لیکن میں قربان جائوں اپنے نبی کریم حضرت محمدۖ کی شان پرجن کی برکت سے کفار مکہ جو انتہائی سرکش اور نافرمان تھے پھر بھی عذاب عظیم سے محفوظ رہے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ”اور اللہ ہرگزاُن پر عذاب نازل نہیں کرے گاجب تک کہ آپۖ ان میں موجود ہیں”بددعا ایسا ہتھیار ہے جس کی کوئی قیمت نہیں یعنی بد دعا دینے میں ہر انسان خود کفیل ہے ۔ہم اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ غصے کی حالت میں ہر انسان کے پاس ایک ہتھیار ہر وقت موجود ہوتا ہے اور وہ ہے بددُعا۔دور حاضر میں اس ہتھیار کا زیادہ تر استعمال کمزور یعنی غریب لوگ کرتے ہیں لیکن امیر اور طاقت ور بھی دل کھول کر اس ہتھیار کااستعمال کرتے ہیں۔
حضور اکرمۖ سے پہلے بہت سے انبیاء نے اپنی قوموں کی نافرمانیوں سے تنگ آکر اسی ہتھیار کا استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اپنی قوموں کے حق میں بددُعا کی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اُن قوموں کو اعظیم عذابوں کی نظر کردیا۔دشمن کے حق میں بددُعا کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے پرمیں ایک بار پھر قربان جائوں اپنے نبی کریمۖ کی نرم دلی پر ۔ہجرت سے قبل مکہ میں مسلمانوں پر اور خود رسول اللہۖ پر کفار نے جو مظالم ڈھائے تھے اُن کا ذکر سن کر آج بھی انسان کی روح کانپ جاتی ہے۔اسی زمانہ میں ایک صحابی نے عرض کی کہ یارسول ۖ دشمنوں کے حق میں بددُعا فرمائیے۔یہ بات سن کر آپۖ کا چہرہ مبار ک سرخ ہوگیا ۔ایک مرتبہ ایک سے زیادہ صحابہ نے اسی قسم کی بات کہی توآپۖ نے فرمایا ”میں دنیا کیلئے لعنت نہیں بلکہ رحمت بنا کربھیجا گیا ہوں۔جنگ احد میں دشمنوں نے آپ ۖ پر پتھر پھینکے ،تلواریں چلائیں،تیربرسائے ،دندان مبارک شہید ہوئے،جبین ِ اقدس کو خون سے رنگ دیاگیالیکن پھر بھی حضور اکرم ۖنے دشمنوں کے حق میں بددُعا نہیں کی بلکہ یہ دُعا فرمائی” اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے۔
تحریر: امتیاز علی شاکر: 1 فرید کوٹ روڈلاہور
imtiazali470@gmail.com