تحریر: ریاض بخش
کون کہتا ہے کہ پاکستان میں ترقی نہیں ہو رہی؟کون سا ایسا کام ہے جو دوسرے ملکوں میں ہو رہا ہو ارو پاکستان میں نا ہو؟میٹروبس کو ہی دیکھ لے انڈیا ارو ترکی میں چل رہی ۔اب پاکستان میں بھی چل رہی ہے۔وہ الگ باب ہے کہ اربوں روپیہ ایک چھوٹے سے پروجیکٹ پہ لگا دیا۔آخر کار ہمیں بھی دوسرے ملکوں کے ساتھ چلنا ہے کیا ہوا جو اربوں روپیہ لگ گیا تو؟گاوں کی ایک کہاوت ہے کہ شریک کا منہ لال ہو تو اپنا کوٹ کر لال کرنا پڑتا ہے۔
میاں صاحب تو ویسے بھی لاہوریاں پہ بہت مہربان ہے۔تو پھر کیوں نا میٹرو بس چلاتے؟لاہور کو یورپ کا روپ دیتے جا رہے ہے ۔پہلے میٹرو پھر فلائی اوار پھر انڈر پاس ابھی بھی بہت سارے روڈ پہ کام چل رہا ہے ارو اب لاہوریوں کے لیے ایک ارو good news ہے۔لاہور میں اب میٹرو ٹرین چلنے لگی ہے۔موجیے ہو گیی لاہوریوں کی تو۔ یہ آفر صرف لاہوریوں کے لیے ہے لاہور میں رہنے والوں کیلیے نہیں۔ن لیگ کام کر رہی ہے ہر طرف چرچا ہے۔کرنا بھی چاہے حق بنتا ہے۔خیرنواز شریف ارو میاں شہباز شیریف کو یہ تو پروجیکٹ نظرآہ رہا ہے مگر پتہ نہیں لاہور سے باہر رہنے والے لوگ میاں صاحبان کو نظر کیوں نہیں آتے؟ارب1.6ڈالرکا یہ پروجیکٹ مطلب میٹرو ٹرین کا معاہدہ طہ پایا ہے۔رواں سال میں شروع ہو گاارو ماہ27میں یہ پروجیکٹ پورا ہو گا۔
چلو جی بڑی اچھی بات ہے۔ مگر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آہ رہی میں نے کافی سمجھنے کی کوشس بھی کی مگر ناکام رہایہ کہ ایک پروجیکٹ کے لیے 1.6ا رب ڈولر انوسٹ ہو رہا ہے ۔ارو یہ ہم جانتے ہے۔ کہ لاہور میں میٹرو ٹرین کی کوئی ضرورت نہیںچھوٹا سا تو شہر ہے یہاں میٹرو کی کیا ضرورت ترقی کرنے والا شہر ہے پہلے یہ یہا ںمیٹرو بس چل رہی ہے ہا ں اگر یہ پروجیکٹ کراچی میں شروع ہو تا تو زیادہ اچھا ہوتا مگر کراچی والوں کی قسمت لاجواب ہے ان کو ہمارے میاں شہباز شریف جیسا لیڈر نہیں میلا۔خیر اب معاہدہ ہو گیا ہے ۔تو میٹرو آے ہی آے۔میرے آفس میں ایک الڑکا ہے اس کے رشتے دار کے بیٹے کو کینسر ہوگیا ہے بچے کی عمر ابھی 8سال ہے۔
شوکت خانم میں لے گیے انہوں نے 40لاکھ مانگے جو ہر ٹائم کہتے رہتے ہے کہ مفت علاج ہوتا ہے۔انمول میں لے گے انہوں نے لاکھ35 مانگے۔جس فیملی کا بچہ ہے ان کی ماہانہ آمدنی تیس ہزرا ہے۔اس بچے کا ماں باپ بھی جان چکے ہے کہ ہمارا بیٹا نہیں بچے گا مگر وہ ناکام کوشس کر رہے ہے ۔اب جنرل ہسپتال میں داخل ہے وہا ںبھی ان کو سفارش پہ بیڈ میلا ہے۔یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ کل رات اس بچے کو خون کی ضرورت پڑی میں گیا خون دینے ۔رات دو بجے میں فارغ ہوا۔جنرل ہسپتال سامنے سے بہت خوبصورت ہے عمارتیں بہت دلکش ہے کچھ ارو عمارتیں بھی بن رہی ہے ۔مگر ٹھورا سا اندر جاو مطلب جس سائید پہ میں تھا ۔ بلڈبینک ارو امراض جلد والے واڈ میں ارو دیکھ کر حیران ہو گیا۔
ارو خود سے کہا کہ یار باہر سے کتنا خوبصورت ہے ارو اندر سے اٰتنا ہی خراب بہت بری حالت بیٹھنے کے لیے صاف جگہ نہیں تھی مٹی کے بنیے ہوے چند بینچ اپنی خستا حا لی کی کہانی سنا رہے تھے رات کا ٹائم لوگوں کا گرمی ارو مچھر سے برا حال ادھر ادھر کھڑے ہو کر اپنی مجبوری پاس کر رہے تھے۔بلڈ بینک والے واڈ اسے اتنی بدبو آ رہی تھی کہ ناک پہ ہاتھ رکھنا پڑا جو بچارے دوسرے شہروں سے آے ہوے تھے ان کا برا حال اس کے علاوہ عورتیںارو بچے زمین پہ لیٹے ہوے تھے ایک گرمی اوپر سے مچھر شریف بچے بچارے گرمی ارو مچھر سے بلبلا رہے تھے۔
کوئی بیٹھنے کا انتطام نہیں نا صاف پانی کا۔نام جنرل ہسپتال جہاں لوگ اپنی مرض کا علاج کروانے آے مگر وہ اپنی بیماری کے ساتھ ارو کہی بیماریاں ساتھ گفٹ میں لے جاتے ہے یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ لو گ بتاے؟صحت ضروری ہے یا آرام کا سفر؟بچو ں کو مچھر کاٹے یا آسی میں آرام سے سفر کرنا؟مریضوں کے لیے آرام داہ جنرل ہسپتال میںنطام یا میٹرو ٹرین؟میاں صاحب نے میٹرو ٹرین کا معاہدہ تو سائن کر دیا۔کیا میاں صاحب کو یہ سب چیریں نطر نہیں آتی؟آپ یہ بتاو میٹرو زیادہ ضروری ہے یا جنرل ہسپتال؟میٹرو ضروری ہے یا آٹھ سال کے بچے کا علاج؟میٹرو زیادہ ضروری ہے یا کنیسر ہسپتال؟سب ٹوپی ڈرامہ ہے کہتے ہے کہ مفت علاج ہے مگر جب مریض اپنا علاج کرواتا ہے تب اسے پتہ چلتا ہے کہ مفت ہے یا پیسے دینے پڑتے ہے۔
ایک طرف تو ڈینگی مہم چلائی جا رہی ارو دوسری طرف ہسپتال میںبچوںکو مچھر کاٹ رہا ہے۔ہے نا کمال کی بات؟میاں صاحب کو چاہے کے ایک بارمیٹرو ٹرین کی باجاے جنرل ہسپتال مطلب جتنے بھی سرکاری ہسپتال ہے ان کے بارے میں سوچے خدا کیلیے1.6ارب ڈالر کے اگر ہسپتال بناے جاے تو میرا خیال ہے کہ ذیادہ اچھا ہو گا آپ کیا کہتے ہو صحت ہو گیی تو ہی سفرکیا جاے گا ورنہ گھر میں پڑی چارپائی پہ ہی مر جاے گے۔ہزروں لوگ پڑھے ہے لاہور میں جن کواچھا علاج نا ملنے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہے۔چلو آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے ترقی کی باتیں کسی ارو دن سہی
بے آبرو ہو گیی ہے زندگی اس دور میں ریاض
چیزوں سے کمتر ہو گیا ہے انسان۔
تحریر: ریاض بخش