حسینیت بد ترین ملوکیت اورجبراستبداد کو صبر کی تلوار کیساتھ کاٹنے کا نام ہے، صرف مقصد امام حسینؑ سمجھ کر ہی مسلمان فلسطین اورکشمیر جیسے محاذوں پرسرخرو ہوسکتے ہیں، میاں محمد حنیف؎
پیرس ؍اسلام آباد( ایس ایم حسنین) پاکستان مسلم لیگ ن فرانس کے صدر میاں محمد حنیف نے محرم الحرام کی آمد کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ حسینیت ایک مکمل فلسفہ حیات ہے جو بدترین ملوکیت اورجبراستبداد کو صبر کی تلوار سے کاٹنے کا نام ہے، صرف مقصد امام حسین ؑ سمجھ کر ہی مسلمان کشمیر اورفلسطین جیسے محاذوں پر سرخروہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کربلا کی تاریخ اپنے اندر ظلم و بربریت ، ظلم و استبداد اور صبر و استقلال کی انمٹ داستانیں سموئے ہوئے ہے ۔اسی لےے محرم کا چاند نظرآتے ہیں تمام اہل اسلام نواسہ رسول جگر گوشہ بتول ؓکی اپنے نانا حضرت محمد کے دین کی خاطر دی جانے والی قربانی کو یاد کر کے رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی ہر سال 10محرم الحرام کو ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے یہ واقعہ ابھی پیش آیا ہے ، سانحہ کربلا تاریخ کا سب سے المناک اور اندوہناک واقعہ ہے ۔ واقعہ کربلا تاریخ اسلام کا ایک اہم موڑ ہے ، امام حسین ؓنے دین کی سربلندی اور تحفظ انسانیت کےلئے قربانی پیش کی اور ایسی تاریخ رقم کی جس پر بنی نوع انسان ہمیشہ فخر کرتی رہے گی ۔
عالم اسلام پر نظر ڈالی جائے تو حق اور کفر کے بے شمار معرکے سامنے آتے ہیں جن میں حق پرستوں نے خون میں نہا کر جام شہادت نوش کیا معرکوں کی تاریخیں ہمیشہ لکھی جاتی رہی ہیں ۔ سانحہ کربلا کا راوی لکھتا ہے کہ ”نواسہ رسول زخمی ہونے کے باوجود اس قدر ثابت قدمی اور بے جگری سے لڑے کہ یزیدی فوج کے سوار اور پیادے امام ؓکے سامنے اس طرح بھاگتے تھے جیسے بکریوں کے ریوڑ شیر کے حملے سے بھاگتے ہیں “
انگریز مﺅرخ مسٹر جیمز کارن حضرت امام حسین ؓکی بہادری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ”رستم “ کا نام بہادری میں مشہور ہے لیکن کچھ ہستیاں ایسی بھی گزری ہیں جن کے سامنے رستم کا نام لینے کے قابل بھی نہیں ہے ۔ اس نے لکھا ہے کہ ”بہادری کی تاریخ میں اول درجہ پر حسین ابن علیؓ ہیں جو گھوڑے سے زخمی حالت میں گرنے کے بعد بھی اس جوانمردی سے لڑے کہ جس طرف بھی حملہ کرتے یزیدی فوج گیدڑ کی طرح آگے بھاگتی تھی۔ ،
تاریخ کی ورق گردانی سے عیاں ہوتا ہے کہ یزید نے جب ظلم و ستم اور جبر و استبداد کے ذریعے بدترین ملوکیت کی ، ملک میں فساد پھیلایا ، حدود اللہ کو معطل کیا ، حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کی جسارت کی اور اپنے اقتدار کی وسعت کےلئے امام حسین ؓسے بیعت طلب کی تو نمائندہ الٰہی نے یزید اور اسکے گماشتوں کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی اورفرمایا کہ میں ایک فاسق وفاجر کی بیعت کیسے کر سکتا ہوں ، میں اپنے نانا کی سنت اور سیرت پر چلوں گا جو میری اتباع کریگا اسے سعادت اور سلامتی ملے گی اور جوانکار کریگا اس کے بارے میں صبر کرونگا۔ یزید کی بیعت سے انکار پر امام حسین ؓکو نانا کا شہر مدینہ چھوڑ کر عراق آنا پڑا اور سن 61ہجری 10محرم الحرام عراق کے بے آب و گیا جنگل ، لق و دق صحرا ”نینوا“ یعنی کرب و بلا میں اپنے 72جانثاروں کے ساتھ تین دن کی بھوک و پیاس کی پرواہ کیے بغیر دین محمدی اور تحفظ انسانیت کےلئے اپنے جانثاروں ، بھائیوں ، بھتیجوں اور بیٹوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے یزیدیت کو ہمیشہ کےلئے دفن کر دیا
امریکہ کا مشہور و معروف مﺅرخ اپرونیک لکھتا ہے کہ ”امام حسین ؓ کےلئے ممکن تھا کہ وہ یزید کی بیعت کر کے اپنی زندگی بچا لیتے لیکن منصب امامت کی ذمہ داری اجازت نہیں دے رہی تھی کہ آپ یزید کو تسلیم کریں اورہر طرح کی مشکل کو خندہ پیشانی سے قبول کیا ۔ دھوپ کی شدت اور کربلا کی جلتی ہوئی ریت پر حیات ابدی کا سودا کر لیا ، اس طرح آپ کی شہادت سے بعد از موت حیات کا تصور موجزن ہوا۔ہمارے نبی آخر زمان پر قرآن نازل ہوا اور شہادت کی خوشخبری دی گئی کہ اس کیلئے جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کر دئےے جائیں انہیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں تمہیں انکی حیات کو سمجھنے کا شعور نہیں ۔ دوسری آیت میں ارشاد ہوا ”جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کر دئےے جائیں انہیں مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں اپنے رب سے رزق پاتے ہیں۔ ان دونوں پہلوﺅں کو بیان کر کے زبان و خیال پر پہرہ بٹھا دیا گیا کہ شہداءکی حیات میں شک کی گنجائش باقی نہ رہے ، امام حسین نے نوک نیزہ پر بغیر جسم کے قرآن کی تلاوت کر کے ثابت کیا کہ اللہ کا ہر فیصلہ سچا ہے اور شہید زندہ ہے
۔ واقعہ کربلا میں جہاں بہت سے رموز آشکار ہوئے وہاں ” الوفا باالعہد“وعدہ وفا کرنا ہے ۔ جب ہم عاشورہ کی طرف دیکھتے ہیں ایک طرف وفاداری کے مجسم پیکر نظر آتے ہیں اور دوسری طرف بے وفائی اور عہد شکنی کے بت دکھائی دیتے ہیں ۔ کوفیوں کا ایک نکتہ ضعف یہی بے وفائی تھی ، انہوںنے صرف یہی وعدہ بے وفائی نہیں کی کہ خط لکھ کے بھی آپ کی مدد نہیں کی بلکہ دشمن کی صفوں میں آکر امام ؓکے ساتھ معرکہ آراءہوئے ، ایک طرف بے وفائی اور دوسری طرف وفاداری کا مجسم نمونہ 72جانثار وفاداری کی آخری منزل پر فائز ہیں۔ جب شب عاشور امام عالیٰ مقامؓ نے چراغ بجھا کر فرمایا میں آپ کو اجازت دیتا ہوں یزید مجھے قتل کرنا چاہتا ہے تم چلے جاﺅ اور اپنی جان بچاﺅ ورنہ کل تم سب قتل کر دئےے جاﺅ گے ، چراغ جلایا گیا دیکھا تو سب موجود تھے اور انہوںنے حیران کن جملے پیش کر کے امامؓ کے قدموں میں اپنی جانیں قربان کرنے کی آمادگی کا اظہار کیا۔ حالانکہ امام ؓنے اپنی بیعت کو ان کے کندھوں سے اٹھا لیا تھا ، آخر کار امام کو یہ کہنا پڑا ”میں اپنے اصحاب سے زیادہ وفادار اصحاب کو نہیں جانتا ،
واقعہ کربلا وفا کے بعد رضا اور تسلیم کا کامل نمونہ ہے ، عرفان کے بلند ترین مراتب میں سے ایک مرتبہ ”رضا“ کا ہے ۔ رضا خدا کی نسبت انتہائی محبت اور عشق کی علامت بھی ہے اور کمال اخلاص اور استحکام ارادہ و عمل کی دلیل بھی ہے ، اہل بیعت ؓنے بر بنائے رضا ہر بلا اور مصیبت کو خندہ پیشانی سے تحمل کرلیا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر گز شجرہ دین استوار اور پر ثمر نہ ہوتا ۔ حضرت امام حسین ؓکوفہ سے جانب کربلا فرزوق نامی شاعر سے ملاقات کرنے کے بعد فرماتے ہیں میں قضائے الٰہی کو دوست رکھتا ہوں خدا کا اس کی نعمات پر شکریہ ادا کرتا ہوں اور اگر قضائے الٰہی نے ہمارے درمیان اور ہماری امید کے درمیان فاصلہ ڈال دیا تب بھی ہم رضائے الٰہی کو مقدم رکھیں گے ۔ اللہ کی رضا و تسلیم کا ثبوت دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ صبر و رضا کا دعویٰ تو کر لینا بہت آسان ہے ، اپنے آپ کو صابر اور تسلیم حق کہہ دینا آسان ہے لیکن حسین ابن علیؓ کی طرح ثبوت دینا اور تسلیم و رضا کے درجہ کمال کو پا لینا صرف حسین ؓکا کام ہے جنہوں نے زخموں سے چور گرم ریت پر نماز عصر ادا کی ۔ حالت نماز میں پس گردن کند خنجر کی 13ضربوں سے نمازی کا سر تن سے جدا ہوا اور نوک نیزہ پر بلند ہوا ۔آسمان سے خون کی بارش ہوئی ، سیاہ آندھی چلی ، شرق و غرب عالم تاریک ہوگیا ۔ آسمان سے ندا آئی ، ”قد قتل الحسین بکر بلا “ ظاہری فتح حاصل کرنے والا یزید ہمیشہ کےلئے مغلوب ہو گیا اور امام عالیٰ مقامؓ کے سر نے نوک نیزہ پر قرآن پڑھ کر ثابت کر دیا شہادت بعد از موت حیات ہے ۔