تحریر : پروفیسر مظہر
اقوامِ مغرب اور اسرائیل خوش کہ عالمِ اسلام باہم دست وگریباں ،گولی مسلمان کی اورسینہ بھی مسلمان کا، خونِ مسلم کی ارزانی کایہ عالم کہ ٹپکنے والالہو مسلمان کااور لہو ٹپکانے والابھی مسلمان ۔ارسطونے کہا ”ہرغلطی آپ کوکچھ نہ کچھ سکھاسکتی ہے بشرطیکہ آپ کچھ سیکھناچاہیں ”لیکن رہنمایانِ عالمِ اسلام کچھ سیکھنے کوتیار ہی نہیں ۔روزِ روشن کی طرح عیاںکہ عشروںسے طاغوتی طاقتیں عالمِ اسلام کوآپس میں لڑانے اورداخلی انتشارپیدا کرنے کے لیے سرگرم لیکن عالمِ اسلام کوسوچ بچارکی فرصت ہی نہیں ۔پہلے ایران عراق جنگ ،پھر عراق کویت تصادم اور فائدہ کس کو؟امریکہ اوراُس کے اتحادیوںکو ۔اب عراق شام اوریمن میںخون ریزفسادات جولاریب پورے عالمِ اسلام کواپنی لپیٹ میںلے لیںگے لیکن ہم ایمان وایقان کی منہدم بنیادوںکے ساتھ مصلحتوںکے اسیراور نرغۂ وہم وگماںمیں عالمی طاقتیں مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال کوشیعہ سنی جنگ بناکر عالمِ اسلام کوبدنام کرنے کی کوششیںکر رہی ہیں حالانکہ یہ شیعہ سنی جنگ نہیں۔
عالمی اہل سنت ولجماعت کی مشترکہ پریس کانفرنس میںیہ واضح کردیا گیاہے کہ حوثی قبائل کاتعلق شیعہ فرقہ سے نہیں بلکہ اہلِ سنت سے ہے اوریہ جنگ شیعہ سنی کی نہیںبلکہ علاقائی مفادات کی جنگ ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ حوثی قبائل اوراُن کے اتحادی یمن میںاقتدارمیں شراکت چاہتے ہیں اورایران اُن کی درپردہ حمایت کررہاہے جبکہ حوثی قبائل کی یہ بغاوت سعودی عرب کے مفادات سے ٹکراتی ہے اِس لیے سعودی شاہ سلیمان بِن عبدلعزیزنے شرم الشیخ میںہونے والے عرب لیگ سربراہی اجلاس میںواضح اوردو ٹوک الفاظ میںیہ کہا کہ یمن میں مکمل استحکام تک فوجی کارروائی نہیںرکے گی ۔سعودی حکومت نے داخلی استحکام کے لیے پاکستان سے فوجی دستے بھیجنے کامطالبہ کیا
لیکن ایٹمی پاکستان کاتویہ عالم کہ لینے کے پیمانے اور ،دینے کے اور ۔حرمین شریفین کی حرمت پہ کٹ مرنے کی تواناآوازیںچارسو لیکن اِس کے آگے خبثِ باطن ہی خبثِ باطن ۔وزیرِاعظم میاںنوازشریف صاحب نے یمن میںحوثی باغیوںکے خلاف سعودی عرب کی مکمل حمایت کاعزم ظاہرکیا لیکن سعودی عرب میںفوج بھیجنے کامعاملہ پارلیمنٹ پرچھوڑدیا ۔چہ عجب کہ ہم امریکہ کی ایک ڈانٹ پراپنا سب کچھ نثارکر دیتے ہیںلیکن اُس سعودی عرب کی پکارپر گومگوکا شکارہو جاتے ہیںجو ہرمشکل اورکڑے وقت میںہمارے کندھے سے کندھاملا کرکھڑا ہوتاہے۔ موجودہ مالی بحران کے دوران جب ہمارے اثاثے چھ ارب ڈالرکی کمترین سطح تک پہنچ چکے تھے توبِن مانگے ڈیڑھ ارب ڈالرکی امداددی۔ 1998ء کے ایٹمی دھماکوںکے موقعے پرجب امریکہ پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاںلگا رہاتھا تب بھی سعودی عرب نے امریکہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پاکستان کوتیل کی مفت فراہمی شروع کردی اورسعودی فرمانروا شاہ فیصل بِن عبد العزیز توپاکستان کواپنا دوسراگھر قراردیتے رہے۔
ہم دوسروں سے حاصل کی جانے والی امدادکوتو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیںلیکن جب کوئی مددکے لیے پکارے توآئیںبائیں شائیںاور بہانے بسیار ۔جنابِ آصف زرداری کہتے ہیں”حرمین شریفین کے دفاع کے لیے میںخود جاکر لڑنے کوتیار ہوںلیکن افغانستان اورپاکستان میںخون بہہ رہاہے اِس لیے حکومت دوسروںکی مددسے پہلے اپنا ملک دیکھے ۔ ہمیںاپنے آپ کونقصان پہنچاکر کسی اسلامی ملک کی مددنہیں کرنی چاہیے جتنی ہم برداشت کرسکیں ۔ماضی میںدوسروں کی لگائی آگ سے ہمارااپنا گھرجَل گیا”۔ عمران خاںبھی یہی کہتے ہیں”مکہ مدینہ کے لیے ہرمسلمان جان دینے کوتیار ہے لیکن ہمیںاِس جنگ میںشریک نہیںہونا چاہیے ۔دس کروڑ عوام دووقت کی روٹی نہیںکھاسکتے ،تعلیم وصحت کابرا حال ہے ۔افغان جدوجہد کاحصہ بنیںتو کلاشنکوف کلچرپھیل گیا ۔ہم پارلیمنٹ میںیمن میںفوج بھیجنے کی بھرپورمخالفت کریںگے ”۔بنی گالامیں کورکمیٹی کے اجلاس میںتحریکِ انصاف نے پارلیمنٹ میںجانے کافیصلہ کرلیا ۔سانحہ پشاورپر تحریکِ انصاف کودھرناختم کرنے کابہانہ مل گیااور اب جنگِ یمن کابہانہ بناکر تحریکِ انصاف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںشرکت کرکے قومی دھارے میںشامل ہورہی ہے۔
اس شرکت سے تحریکِ انصاف کی اخلاقی پوزیشن انتہائی کمزور ہوجائے گی کیونکہ جس جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی شرط کے ساتھ تحریکِ انصاف اسمبلیوںمیں جانے کوتیار ہوئی اُس کے بارے میںتو ابھی تک حکومت نے سپریم کورٹ کوخط بھی نہیں لکھا دودِن پہلے جہانگیرترین ایک ٹاک شومیں کہہ رہے تھے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںشرکت کے معاملے پرتحریکِ انصاف میںاتفاق نہیںکیونکہ ابھی تک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نہیںہوئی اورنہ ہی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیاہے کہ محض ایک صدارتی آرڈیننس پرتحقیقاتی کمیشن کی تشکیل ہوبھی سکتی ہے یانہیں ۔کمیشن کی تشکیل کے بعدبھی یہ خطرہ بہرحال موجود ر ہے گاکہ کوئی بھی اِس تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کو سپریم کورٹ میںچیلنج کرسکتا ہے ۔جوڈیشل کمیشن کوایک طرف رکھتے ہوئے تحریکِ انصاف نے جنگِ یمن کابہانہ تراشااور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںجانے کافیصلہ کرلیا لیکن ساتھ ہی محترم خاںصاحب نے یہ بھی کہہ دیاکہ وہ جوڈیشل کمیشن میںاور سڑکوںپر بھی دھاندلی کے خلاف آوازبلند کریںگے کیونکہ نوازلیگ کو 2013ء کے انتخابات میں70 لاکھ جعلی ووٹ پڑے ہیں۔خاںصاحب کافرمان بجالیکن جس بلند آہنگ سے وہ اسی پارلیمنٹ کومتواتر چوروں، ڈاکوؤںاورجعل سازوںکی بدبودارجعلی اسمبلی قراردیتے رہے ہیں،اب اُسی پارلیمنٹ میںوہ کس مُنہ سے جائیںگے ؟۔ویسے قوم سپیکرقومی اسمبلی محترم ایازصادق سے یہ پوچھنے میںحق بجانب ہے کہ اُنہوںنے کس آئین کے تحت سات ماہ تک تحریکِ انصاف کے پارلیمنٹیرینز کے استعفے منظورنہیں کیے؟۔اِس سوال کاجواب آج نہیںتو کل بہرحال سپیکرصاحب کودینا ہی ہوگا۔
بات دوسری طرف نکل گئی ،آمدم برسرِ مطلب عرض ہے کہ میاںصاحب سعودی عرب کواقرار کرسکتے ہیںنہ انکار۔ سعودی عرب ہماری عقیدتوںاور محبتوںکا مرکزہی نہیںبلکہ شاہ فیصل سے لے کرشاہ سلیمان تک ہر سعودی حکمران ہمیشہ پاکستان کے بے لوث دوست رہاہے اِس لیے پاکستان کسی بھی صورت میںسعودی عرب کودو ٹوک اندازمیں انکارنہیں کرسکتا ۔سردمہری اورلیت ولعل کی صورت میںبھی گلف میںموجوداُن لاکھوں پاکستانیوں کے لیے مصیبت کھڑی ہوجائے گی جوہر سال اربوںڈالر کازرِ مبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں جبکہ دوسری طرف فوج بھیجنے کی صورت میںحکومت کوشدید ترین تنقیدکا سامنا کرناپڑے گا ۔اِن حالات میںمیاںصاحب سعودی عرب میںفوجی دستے بھیجنے کارسک لیتے نظرنہیں آتے ۔اب صرف ایک ہی راہ بچتی ہے یعنی متحارب گروہوںکو مذاکرات کی ٹیبل تک لانا ،جس کے لیے میاںصاحب صبح ومسا تگ ودَو کررہے ہیں اورتحقیق کہ یہی راہ فلاح کی راہ بھی ہے کیونکہ میرے آقا کا فرمان ہے ”کیامیں تم کوایسی چیز نہ بتاؤںجو نماز ،روزہ اورصدقہ وخیرات سے بڑھ کرہے ،وہ آپس میںصلح صفائی ہے کیونکہ آپس میںجھگڑا اورفساد ہلاکت میںڈالنے والی چیزیںہیں”۔
تحریر : پروفیسر مظہر