تحریر : سید انور محمود
نواز شریف کی کابینہ میں یا تو اُنکے رشتہ دار ہیں یا پھر وہ لوگ جنکو ہر حال میں وزیراعظم کو خوش رکھنا ہوتا ہے۔ سابق وزیر ماحولیات سینیٹر مشاہد اللہ خان جو ماحول بگاڑنے کے ماہر ہیں، نواز شریف کے چہیتوں میں سے ایک ہیں، آپ میڈیا پر ہونے والے کسی بھی ٹاک شو میں اُنکو دیکھ لیں، یہ نہ صرف سب سے زیادہ شور مچارہے ہوتے ہیں بلکہ مخالف کےلیے جو زبان استمال کرتے ہیں وہ انتہائی گری ہوئی اور تہذیب کے دائرہ سے باہر ہوتی ہے۔ اپنے اسی طرز عمل کی وجہ سے 18 دسمبر 2015ء کو سینٹ کے اجلاس میں کہہ بیٹھے کہ “ملک حالت جنگ اور سندھ حکومت حالت بھنگ میں ہے”۔ مشاہد اللہ کے یہ الفاظ پیپلز پارٹی کے ارکان کو اسقدر برے لگے کہ شدید احتجاج کرتے ہوئے اجلاس سے واک آوٹ کرگے۔پیپلز پارٹی کے شدید احتجاج پر سینیٹر مشاہد اللہ نے اپنے الفاظ پر معذرت کرلی۔ سینیٹر مشاہد اللہ کو قطعی معذرت نہیں کرنی پڑتی اگر وہ پوری بات کرتے اور وہ پوری بات یہ ہے کہ “ملک حالت جنگ میں ہےلیکن مرکزی اور سندھ کی حکومتوں نے بھنگ پی ہوئی ہے”۔
ایسا میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ سندھ میں اور خاصکر کراچی میں رینجرز کے اختیارات کو سلب کرنے کی جو پالیسی پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے اپنای ہوئی ہے وہی پالیسی مرکزی حکومت نے اسلام آباد میں دہشت گردوں کےلیے اپنای ہوئی ہے۔ ملک کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی یہ کہنے کو تیار نہیں ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ دہشت گردوں کی خاموشی خطرناک بھی ہوسکتی ہے، کراچی میں رینجرزکے اختیارات کو کم کرنے اور مرکزی وزیر داخلہ کا اسمبلی میں کھڑے ہوکر یہ کہنا کہ “مولانا عبد العزیز کے خلاف تو کوئی کیس ہی نہیں ہے تو پھرپولیس مولانا عبدالعزیز کو کب تک پکڑ کر رکھ سکتی ہے” کسی بھی تخریب کاری کا سبب بن سکتی ہے۔ وزیر داخلہ اگر دہشت گردوں کی ہمدردی سے باہر آیں تو اُنہیں فوراً یاد آجائے گاکہ “اس سلسلے میں ایک ایف آئی آر 19 دسمبر 2014 ءکو سول سوسائٹی کی جانب سے تھانہ آبپارہ، اسلام آباد میں جبکہ دوسری ایف آئی آر تھانہ عزیز آباد، کراچی میں 20 دسمبر 2014ءکو درج کی گیں تھیں۔
چار دن پہلے مرکزی وزیر داخلہ چوہدری نثار سندھ حکومت پر ایسے ہی برس رہے تھے جیسے کبھی پنجابی فلموں میں سلظان راہی برسا کرتا تھا، لیکن جب جواب میں خورشید شاہ نے مصطفی قریشی کے انداز میں جواب دیتے ہوے چوہدری نثار کو نواز شریف کی آستین کا سانپ قرار دیا ہے، تب سےچوہدری نثار نے سندھ میں رینجرز کے اختیارات کے حوالے سے اپنا منہ بند کیا ہوا ہے۔ آپکو یاد ہوگا کہ 16 اگست 2013ء کو اسلام آباد کے ریڈ زون ایریا میں حافظ آباد کے رہائشی سکندر حیات نے ساڑھے پانچ گھنٹے تک اسلحہ کے زور پر ہلچل مچائی، لیکن وزیر داخلہ چوہدری نثار کا دور دور پتہ نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما زمرد خان نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بچوں کو ملنے کے بہانے ملزم کو دبوچا تھا۔ 18 دسمبر 2015ء کو وزیر داخلہ چوہدری نثار اسمبلی کے فلور پر کھڑئے ہوکرفرمارہے تھے کہ “اسلام آباد کے گھرگھر کا پتہ ہے اور وفاقی دارالحکومت میں بلیک واٹر یا کوئی اور غیرملکی خفیہ ایجنسی موجود نہیں۔ اگر چوہدری نثار کی اس بات کو مان لیا جائے تو گذشتہ چار ہفتے سے ہر جمعہ کو دوپہر 12بجےسے 2 بجے تک وزارت داخلہ اور پی ٹی اے کی جانب سے کوئی اعلان ہوئے بغیر موبائل فون سروس کیوں بند ہوجاتی ہے؟۔
مان لیتے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت میں بلیک واٹر یا کوئی اور غیرملکی خفیہ ایجنسی موجود نہیں ہے لیکن وفاقی وزیر داخلہ کو اسلام آباد میں موجود طالبان اور داعش کے ہمدرد لال مسجد کے دہشت گرد مولانا عبدالعزیز سے کیا ہمدردی ہے کہ وہ آئے دن ریاست کو للکارتا رہتا ہے سرکاری اہلکار سرگوشی میں بتاتے ہیں کہ مولانا عبدالعزیز لال مسجد میں نما ز جمعہ کے اجتماع سے جامعہ حفصہ سے بیٹھ کر فون پر تقریر کرتا ہے جس کو روکنے کے لیے موبائل فون سروس بند کی جاتی ہے لیکن مولانا عبدالعزیز کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے حکومت ڈرتی ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کس گھر میں کون رہتا ہے وزیر داخلہ اور حکومت سب کے بارے میں جانتے ہیں،مگر جب جمعہ کے روز اسلام آباد میں تمام موبائل فونز کے سگنلز دو گھنٹے کے لیے کیوں بند کر دیے جاتے ہیں تو اس کی وجہ کوئی نہیں جانتا۔شہری گاڑیوں کے ٹریکرز بند ہونے کے بعد سڑک پر بے بسی کی تصویر بن جاتے ہیں۔ وجہ پوچھیں تو وزارت داخلہ کو چپ سی لگ جاتی ہے اور پی ٹی اے کے ذمہ داران جواب دینے کےلیے بےبس لگتے ہیں۔ اس سے واقعی اندازہ ہوتا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ کے اس دعویٰ میں کتنی سچائی ہے کہ اُنہیں پورئے اسلام آباد پر کنٹرول حاصل ہے۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ امن قائم رکھنا میری ذمہ داری ہے۔علماء کرام ہمارا ٹارگٹ نہیں، دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ہمارے معاون ہیں،جو دینی مدارس شدت پسندی کی تربیت دینے میں ملوث پائے گئے ان کیخلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔تاہم ابھی تک کسی بھی مدرسے کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت نہیں دیئے گئے۔طالبان سے مذاکرات فوج کے مشورے سے شروع کئے اورآپریشن بھی ان کی مشاورت سے شروع کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر داخلہ اس انتظار میں ہیں کہ دہشت گرد خود آکر وزیر داخلہ کو بتاینگے کہ ہم دہشت گرد ہیں اور ہم نے فلاں فلاں جگہ دہشت گردی کی ہے۔ وزیر داخلہ کا یہ بیان کہ نواز شریف حکومت نے طالبان سے مذاکرات فوج کے مشورے سے شروع کئے اورآپریشن حکومت کی مشاورت سے شروع ہوا سراسر جھوٹ ہے، نواز شریف حکومت قطعی طور پر آپریشن کی مخالف تھی یہ ہی وجہ ہے کہ جب اتوار 15 جون 2014ءکو افواج پاکستان نے طالبان دہشتگردوں کے خلاف ایک بھرپور آپریشن”ضرب عضب” کا آغاز کیا تو قوم کو آئی ایس پی آر کے پريس ريليز کے زریعے آپریشن شروع ہونے کی اطلاع ملی۔
آپریشن شروع ہونے کے اگلے روز وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہم مذاکرات کررہے تھے جبکہ دوسری جانب سے دہشت گردی جاری تھی۔ دہشت گردی ہماری معیشت کو 103 ارب ڈالر کا زخم لگا چکی ہے۔ ہم کسی قیمت پر ملک کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے۔ قومی اسمبلی میں یہ سب باتیں کرنے والے نواز شریف اور اُنکے وزرا گذشتہ ایک سال سے زیادہ خاصکر 23 جنوری 2014ءسے مذاکرات کے نام پر پوری قوم کو دھوکا دے رہے تھے۔ آٹھ جون کو ایک مرتبہ پھر کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں نے خون بہایا اور ملکی معیشت کو تباہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ نواز شریف جو فی الوقت آپریشن کےلیے تیار نہیں تھے کراچی ایئرپورٹ پرحملے کے بعد اُنہیں آپریشن کی منظوری دینا پڑی یا افواج پاکستان کے آپریشن کے مشورہ کو قبول کرنا پڑا اسکے علاوہ اُنکے پاس اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کیونکہ پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی تھی۔
وزیر داخلہ کا اپنی تقریر میں مزید کہنا تھا کہ چند مدارس سے پڑھ کر کوئی دہشتگردی کرتا ہے تو اسکولوں سے پڑھ کر بھی لوگ دہشت گردی کرتے ہیں، تو پھر کیا حکومت ان تعلیمی اداروں کیخلاف بھی کارروائی کرے؟ وزیر داخلہ نےکہاکہ مدارس کی مخالفت اور کارروائی کے مطالبے کو فیشن بنا لیا گیا ہے بس کریں مدارس نے دہشت گردی کے خلاف ریاست کا ساتھ دیا ہے۔ چوہدری نثار نےکہاکہ 2007ء میں اسلام آباد میں اتنا بڑا آپریشن کیاگیاہم سمجھتے ہیں غلط کچھ سمجھتے ہیں صحیح، لیکن اس آپریشن کا کیا فائدہ ہوا مولانا صاحب کو دوبارہ کیوں بسایا گیا وہ مسجد میں واپس کیسے اور کیوں آ گئے۔اسلام میں لبرل ازم اور بنیاد پرستی کی کوئی گنجائش نہیں، اسلام کو اسلام رہنے دیں۔جہاں تک چوہدری نثار کا یہ کہنا کہ اسکولوں سے پڑھنے والے بھی دہشت گردی میں شامل ہیں تو کس نے کہا ہے کہ ان دہشت گردوں کو کچھ نہ کہا جائے، وزیر داخلہ جو خود شدت پسندوں کے بہت زیادہ حامی ہیں اس لیے اُنکو تکلیف ہورہی ہے کہ مدارس میں جو دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے اُسکا ذکر کیوں ہورہا ہے، چوہدری نثار کسی ایک مدرسے کا نام نہیں بتاسکتے جس نے دہشت گردوں کے خلاف کوئی معاونت کی ہو اور جہاں تک مولانا عبدالعزیز کو دوبارہ اسلام آباد میں بسانے کی بات ہے تو وہ کم از کم انہوں نے نہیں بسایا جنہوں نے مولانا کی دہشت گردی کے خلاف آپریشن کیا تھا ۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار کے مطابق طالبان سے مذاکرات میں نامورعلماء نے مثبت کرداراداکیا، کونسے نامور علما، ؟ حکومت کی کمیٹی میں کوآڑڈینیٹر عرفان صدیقی، آئی ایس آئی کے افسر میجر (ر) عامر شاہ، سابق سفیر رستم شاہ مہمند اور نامور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی شامل تھےجبکہ طالبان کی جانب سے مذاکرات کے لیے قائم کی گئی کمیٹی میں جمیعت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، لال مسجد سے مولانا عبدالعزیز اور جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر ابراہیم شامل تھے اور یہ سب کے سب سوائے رحیم اللہ یوسف زئی کے طالبان کے حامی ہیں، طالبان کی کمیٹی میں مولانا سمیع الحق جو اپنے آپ کو طالبان دہشت گردوں کا باپ کہتا ہے، دوسرا مولانا عبدالعزیز جو لال مسجد میں بیٹھ کر دہشت گردی کا درس دیتا ہے اور تیسرا پاکستان کی شدت پسند جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم جو سر سے پیر تک طالبان کے ہمدرد ہیں۔
چوہدری نثار آج بھی اپنے بھائی بدنام زمانہ دہشت گرد حکیم اللہ محسود کو یاد کرتے ہیں اور اُسکی کی ہلاکت کا ذکر کرنا نہیں بھولتے، انہیں کل بھی اُس سے ہمدردی تھی اور آج بھی ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثارکو لبرل ازم کا نام سنکر تکلیف ہوتی ہے، وہ ایک انتہائی شدت پسند انسان ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں آج بھی طالبان اور داعش کا حامی دہشت گرد لال مسجد کا سابق خطیب عبدالعزیز موجود ہے۔ اب اگرسینیٹر مشاہد اللہ خان وزیر داخلہ کی تقریر سن کر یہ کہہ بیٹھیں کہ چوہدری نثارشدت پسند ہیں، تقریر کرتے وقت بھنگ کا نشہ تھا اور کچھ نہیں تو مشاہد اللہ کوکوئی کیا کہے گا۔ اگر آپ چوہدری نثار کی تقریر کو صرف دو مرتبہ غور سے پڑھ لیں یا سن لیں تو آپکو یہ اندازہ ہوجائے گا کہ وزیر داخلہ کی یہ تقریر کلی طور پر دہشت گردوں کی حمایت میں تھی۔
تحریر : سید انور محمود