کشمیریوں کی بے قابو اور مکمل مقامی تحریک ِ آزادی اوراس پر بڑھتی عالمی توجہ، اسے دبانے کے لئے بھارت کی کھلی ریاستی دہشت گردی، قبل ازیں بلوچستان میں دہشت گردی کا بھارتی ریاستی نیٹ ورک توڑنے اور اسے ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ بے نقاب کرنے میں پاک فوج کی کامیابی، جواب میں بلوچستان کی وکلا برادری پر بھارتی۔افغان ایجنسیوںکاحملہ، پاک افغان سرحد کو پرامن رکھنے کے لئے قوانین کے مطابق بارڈر مینجمنٹ کرنے کا پاکستانی اقدام، رسپانس میں چمن میں باب ِدوستی کو باب ِ دشمنی میں تبدیل کرنے کا کابلی حربہ اور پاکستان کا اسے ناکام کرنا، جواب میں پاکستان میں مسلسل دہشت گردی کے لئے نیا مودی۔ غنی گٹھ جوڑ، مہمندایجنسی میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی اسی کی
پہلی پراڈکٹ کے طور پر پاکستانی اذہان میں واضح ہوئی۔ وہ پاکستانی جو کابل کی انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ سے نجات کے بعد افغان بھائیوں کوگلےلگانے کے متمنی اور منتظر ہیں۔ تبھی تو پاکستانیوں نے تیس سال تک 30 لاکھ سے زائد افغانوں کو مہمان رکھا، لیکن اب افغان اشرافیہ انہیں بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے مراکز بنانے پرتل گئی۔ پاکستانی افواج کوعلاقے بھر کی خوشحالی کے لئے سی پیک جیسے پرامن اور عوام دوست عظیم منصوبے کے لئے بھی سیکورٹی کے مخصوص انتظام کرنا پڑرہا ہے کہ اس کے خلاف بنیاد پرست مودی کے آتش گیر ابلاغ اور عمل میں ڈھلتے مذموم ارادوں نے پاکستان کو یہ (سی پیک کی سیکورٹی) کرنے پر مجبور کردیا۔ اس کے متوازی پاکستانی مسلح افواج اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے خطرناک اور انتہائی کٹھن مراکز اکھاڑنے کے بعد پاکستانی قوم کے انسداد ِ دہشت گردی کے پروگرام ’’ضرب ِ عضب‘‘ کے ذریعے ملک بھر میں سرگرم عمل ہے، جس کے خاطر خواہ نتائج برآمدہو رہے ہیں اور پاکستانی سرحدوں کے اُس پارپاکستان پراکسی وار میں دشمن بے بس ہوتے جارہےہیں۔ اس کے بعد بھارت، اس کے پشت پناہوں نے اور گٹھ جوڑ کئے اب پاکستان دشمنوں کے لئے کھلی جنگ ہی رہ گئی ہے۔ جسے یقیناً پاکستان دشمنوں نے ہی نہیں بلکہ خود پاکستان اور امکانی متاثرین نے بھی مل کر ڈیزائن کرنا ہوگا۔ یہ فقط دلّی و کابل کی مرضی سے نہیں لڑی جائے گی۔
یہ ہے وہ پاکستان کے لئے پیدا کی گئی صورتحال جس سے اور جس کے نتائج سے بھارتی رائے عامہ، افغان عوام اور پوری عالمی برادری کو اعلیٰ معیار کی نتیجہ خیز ابلاغی مہم سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ یقیناً پاکستان کی اس حوالے سے کیپسٹی مطلوبہ درجے پر نہیں جبکہ بیڈگورننس کی واحد وجہ کے باعث ہماری خارجہ اور اطلاعات کی وزارتیں نااہل تو ہیں ہی، اسٹیٹس کو کی ماری حکومت تمام تر نشاندہی اور بنتی صورتحال کی حساسیت کے باوجود ان کی مطلوبہ اصلاح کے لئے کسی طور ٹس سے مس ہوتی نظر نہیں آتی۔
اس پس منظر میں جبکہ وزیراعظم نوازشریف اپوزیشن کی مسلسل تنقید اور میڈیا پر ہونےوالے تجزیوں کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر کو زوردار طریقے اور مکمل دلائل کے ساتھ عالمی برادری کے سامنے رکھنے پر پُرعزم ہیںاور اس کے لئے نیویارک پہنچ چکے ہیں۔ بھارت اس کی ممکنہ مزاحمت اور اس کے مقابل اپنے سدا کے روایتی حربے استعمال کرتا معلوم دیتا ہے۔ پاکستان کے لئے طرح طرح کی سازشوں سے پیدا کی گئی گمبھیر صورتحال میں کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے لئے خود سلامتی کے نئے چیلنج پیدا کرے۔ بارہ مولا میں لائن آف کنٹرول سے قریب ترین اڑی کے مقام پر بھارتی فوج کے بریگیڈہیڈکوارٹر پر گزشتہ صبح جو حملہ ہواہے، وہ پاکستان کے گرد پھیلائے جانےوالے جالوں کے ماحول میں کتنے ہی اہم سوال لئے ہوئے ہے۔ پہلا تویہ ہی کہ کیا پاکستان جو خود اپنی سرحدوں کے قریب اور ملک بھر میں دہشت گردی کے آئے دن کے حملوں اور اس کے خلاف ضرب ِ عضب کے ماحول میں ایسی کوئی مہم جوئی کرسکتا ہے؟ جس کا الزام بھارتی حکومت اور میڈیا پاکستان پر دھر کر ایک بار پھر کشمیریوں کی کامرانیاں حاصل کرتی تحریک کو سبوتاژ کرنےکے لئے ’’پاکستانی حملے‘‘کا ڈرامہ نہیں رچا رہا؟ واقعہ کے بعد یہ حقائق بھی منظرعام پر آئے کہ متاثرہ علاقے میں ہندو آبادی اکثریت میں ہے اور ملٹری کیمپ میں سکھوں کی، جن کی سول آبادی تحریک ِ آزادی کشمیر پر نرم گوشہ رکھتی ہے، یوں بھی مودی حکومت قائم ہونے کےبعد سکھوں کو ایک بار پھر شدت سے احساس ہو رہاہے کہ ہمیں مشکوک سمجھا جارہا ہے اورہم پر بھارتی جاسوسی اداروں کی کڑی نظر ہے۔ ایسے میں بھارتی ایجنسیاں اس شیطانی کھیل کو کوئی مہنگا سودا نہیں سمجھتیں کہ اگر سکھ فوجیوں کے ساتھ چند ہندو فوجی بھی ہلاک ہو جائیں، لیکن اس سے ایک بار پھر پاکستان عالمی فورمز پر مشکوک ہو جائے، کشمیریوں کی تحریک سے توجہ ہٹ کر ’’بھارت کے ساتھ زیادتی‘‘ پر لگ جائے اور وزیراعظم نواز شریف کا مجوزہ خطاب ڈسٹرب ہو جائے تو یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں۔ پھریہ کہ اس سے کشمیریوں اور سکھوں میں بھی فاصلہ بڑھ جائے۔ گویاایک تیر سے دو شکار۔
یوں تو پاکستانی وزارت ِ خارجہ نے اڑی کیمپ پر حملے کے یکدم بعد پاکستان پر لگائے الزامات یکسر مسترد کردیئے ہیں اور آئی ایس پی آر نے بھی بھارتی سائیڈ کے ڈی جی ملٹری آپریشن کے پاکستانی کائونٹر پارٹنر سے رابطے کرنے پر پاکستانی ڈی جی ایم او نے انہیں انٹیلی جنس انفارمیشن شیئر کرنےکی صورت میں تعاون کا یقین دلایا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پٹھانکوٹ کی طرح اب بھارت تحقیق کو ادھورا چھوڑ کر بھاگتا تو نہیں، کیونکہ بھارتی حکومتی حلقوں اور میڈیا نے واقعہ کے بعد فوری الزام پاکستان (یعنی ریاست پاکستان) پر لگایا ہے تو دوسرے سانس میں اسے جیش محمد کا حملہ قرار دیا ہے جو کشمیر میں ہی قائم ہوئی تھی۔ 2002میں اسے پاکستان میں بھی کالعدم قرار دیدیا گیا۔ یہ وہی ڈرامہ ہے کہ جب بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تھا تو نئی دہلی نے فوراً الزام آئی ایس آئی پر لگایا پھر جیش محمد کی خبریں آنے لگیں۔ پھراس کی اپنی عدالتوںمیں تحقیق و تفتیش کے بعد جب کشمیری حریت پسند افضل کو پھانسی کی سزا دی گئی تو دنیا بھر میں ہی نہیں ’’فراہمی ٔ انصاف کےطریق کار‘‘ پر کتنے ہی سوال سچے پیشہ ورانہ بھارتی میڈیا اور سول سوسائٹی کے باہمت ارکان نے اٹھا دیئے۔ یاد رہے بھارتی وزارت ِ داخلہ کے ایک ایڈیشنل سیکرٹری نے ممبئی دہشت گردی اور پارلیمنٹ پر حملے دونوں کو عدالت میں بیان دیتے ہوئے ریاستی ڈرامہ قرار دیا تھا۔ ایسے میں بھارتی بریگیڈ کے ہیڈکوارٹر پر حملہ، جو پاکستانی طرف کی لائن آف کنٹرول سے قریب تر ہے، جہاں بھارت نے جنگلے لگا کر پورے علاقے کو ممکنہ حد تک محفوظ کیا ہواہے، ریاستی ڈرامے کے علاوہ بھی ممکن ہوسکتا ہے؟ ایسا ہے تو پہلے بھارت اپنے حساس مقامات کی سلامتی کو یقینی بنائے۔ دہشت گردی کی صورت میں اپنا دفاع بھارت کا استحقاق ہے۔ اگر ایسا ہو تو پاکستان ایسے میں اپنے ہرممکنہ تعاون کی پیشکش متعدد بار کر چکا ہے اور پاکستان، جو اب دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے کمربستہ ہوگیاہے، کو اپنی یہ ہی پالیسی جاری و ساری رکھنی ہے۔ بھارتی عوام کو اب ریاست کے سیکورٹی لیپس پر پاکستان کو فوراً مورد ِ الزام ٹھہرانے اور علاقے میں کشیدگی پیدا کرنے کے حکومتی رویے پر جو سوال اٹھاتے ہیں وہ اس میں حق بجانب ہیں۔ بھارت جمہوری ملک ہے تو اپنے عوام کو ان چبھتے سوالوں کا جواب دے۔