تحریر: ڈاکٹر راجہ جاوید جنجوعہ
قارئین! پاکستان کا عدالتی نظام اپنے اندر بہت سی خرابیاں سمیٹے ہوئے ہے ۔ اور افسوسناک بات یہ ہے اس کو ٹھیک کرنے تو درکنار ، اسکے بارے میں کوئی بات کرنا اور سننا پسند نہیں کرتا۔ سب سے بڑی خرابی جو ہر ذی عقل محسوس کرسکتا ہے کہ مقدمات کی پیروی میں غیر ضروری تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر وطنِ عزیز کے عدالتی ڈھانچے پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ماتحت عدالتیں انصاف کی پہلی سیڑھی کے طور پر کام کرتی ہیں ، جہاں پر قتل، ڈکیتی سمیت چھوٹے بڑے جرائم اور متفرق سول مقدمات کی سماعت ہوتی ہے۔ ابتدائی طریقہ ء کار سے لیکر مقدمے کے فیصلے تک اس میں وکلاء کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر معزز جج صاحبان اور مدعی و مدعا علیہ کی بھی ایک حیثیت ہے۔ فرض کرلیں کہ اگر کوئی قتل کا مقدمہ کسی عدالت میں زیرِ سماعت ہے تو قانون کی رو سے اس ضابطے کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کسی بیگناہ کو سزا ہوجانا کسی بڑے المیے سے کم نہیں اور اگرچند قصور وار بھی قانونی پیچیدگیوں سے فائدہ اٹھا کر قانون کی گرفت سے بچ جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر کسی شخص کو اسکے گناہِ ناکردہ کی سزا نہیں ملنی چاہیئے۔
جن مقدمات کی تعزیر سزائے موت یا تا عمر قید ہو اور کئی کئی سالوں تک زیرِ سماعت رہتے ہوں اور ان میں ایسا ملزم بھی نامزد ہو جو بے گناہ ہو اور اسے لمبے عرصے تک محض شک کی بناء پر قید کیا گیا ہو اور بعد ازاں اسکی بیگناہی ثابت ہونے پر اسے باعزت بری کردیا جائے تو اسکی زندگی کے اس قیمتی سالوں پر محیط عرصے کو واپس کیسے کیا جاسکتا ہے جو اس بیگناہ ملزم نے سلاخوں کے پیچھے گزار دیئے۔ اس بیگناہ ملزم کی قید پر محیط وقت کو کیسے واپس لایا جاسکتا ہے جو اسکے خاندان نے اپنے پیارے کے بغیر اذیت میں گزارا۔ جہاں تک قانون کی بات ہے تو قانون پر عمل درآمد کروانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی بیگناہ کو زیرِ حراست نہ رکھا جائے اور یہ بات بھی یقینی بنائی جائے کہ ملزمان اور مجرمان ؛ کھلے عام معاشرے میں دندناتے نہ پھریں اور مزید جرایم کے مرتکب نہ ہوسکیں۔ موجودہ ملکی صورتحال میں عدالتوں کا فرض ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر مقدمات کی پیروی کرکے کم سے کم وقت میں فیصلہ صادر کرے جس سے مظلوم کو انصاف کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ بعض اوقات موجودہ عدالتی ڈھانچے کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ مجرم قانون کا لاڈلہ بچہ ہے اور ضمانت اور مقدمے کے فیصلے میں تاخیر سمیت ‘دیگر رعایتوں’ کا بھی حقدار ہے۔ لیکن اس صورتحال میں قانون مدعی اور مظلوم کے انصاف کو یکسر نظر انداز کردیتا ہے۔
میری ذاتی رائے میں کوئی بھی جرم قابلِ ضمانت نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ایسے تمام مقدمات کا فیصلہ سمری ٹرائل کے ذریعے کم سے کم وقت میں ممکن ہونا چاہیئے۔ ضمانت اور حکمِ امتناعی کے بعد وکلاء حضرات تاریخ پر تاریخ لینے کے بہانے ڈھانڈتے رہتے ہیں اور جھوٹے سچے دلائل سے ‘ڈنگ ٹپائو’ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔ ماضی قریب و بعید میں نیشمار ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے واضح ہے کہ انصاف میں تاخیر، انصاف سے منکر ہونے کے مترادف ہے جوکہ مدعی و مظلوم کے لیے انتہائی اذیت کا سبب بنتی ہے۔ ہونا تو یوں چاہیئے کہ جب قابلِ ضمانت مقدمات میں ملزمان کو جب عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو پہلی پیشی ملزم ، گواہان اور ثبوت معزز عدالت میں پیش کیے جائیں ملزم کو جرم ثابت ہونے پر سزا دی جائے لیکن ایسا نہیں ہوتا کیونکہ عدالتوں پر پہلے سے کام کا اتنا بوجھ ہوتا ہے کہ نئے آنے والے مقدمات مہینوں بلکہ سالوں تک پیشیوں پر چلتے رہتے ہیں اور غریب سائلین پر بہت برا اثر ڈالتے ہیں۔ قابلِ ضمانت مقدمات میں اکثر قصوروار ملزموں کو ضمانت پر بری بھی کردیا جاتا ہے اور یہ لوگ قانون کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر معاشرے کے امن کو مزید خراب کرنے پر تل جاتے ہیں۔
قارئین ! سانحہ پشاور کے بعد پاک فوج نے دہشتگردوں کے گرد گھیرا تنگ کردیا ہے اور اس ضمن میں بہت سارے دہشتگرد کیفرِ کردار کو پہنچ گئے ہیں اور باقی رہتے دہشتگرد بھی جلد ہی جہنم رسید کردیئے جائیں گے۔ پاک فوج ایک واحد ادارہ ہے کہ جو ملک کے اندرونی و بیرونی خطرات کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوتی ہے ۔ پاک فوج کے جوان ہمارے ہی بھائی ہیں۔ یہ باہمت فوجی بھی سینے میں دل اور جذبات رکھتے ہیں۔ یہ ہم میں سے ہی ہیں کہ جن کے نصیب میں اللہ کریم نے وطنِ عزیز پاکستان کی حفاظت کی ذمہ داری لکھ دی ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے فوجی بھائیوں کی خوش قسمتی ہے کہ وہ ‘لا الہ الا اللہ ‘ کے نعروں کی گونج میں قائم ہونے والی پاک سر زمین کی اندرونی ، بیرونی، جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ قارئین! وطنِ عزیز میں زلزلہ آئے یا سیلاب تباہی مچادے، کوئی وباء پھوٹ پڑے یا قحط سالی غالب آجائے، عوام دہشتگردی کا شکار ہوجائیں یا حکمران پٹڑی سے اتر جائیں، پاک فوج نے ہمیشہ مشکل ترین حالات میں بھی عوامِ پاکستان کو تنہاء نہیں چھوڑا اور مکمل جذبہ ء ایمانی سے وطنِ عزیز کی حفاظت کو یقینی بنایا ہے۔ موجودہ حالات میں فوجی عدالتوں کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ ترامیم کی گئی ہیں اور ترمیم شدہ آرمی ایکٹ میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ سیاسی جماعتوں سے متعلق مجریہ 2002آرڈر کے تحت موجودہ مذہبی یا سیاسی جماعت کے خلاف کاروائی نہیں کی جاسکے گی مولانا فضل الرحمان کا مئوقف ہے کہ اگر حکومت نے اکیسویں ترمیم اور فوجی ایکٹ میں ترمیم کے لیے مذہب کا لفظ شامل ہی کرنا تھا تو وہ ساتھ میں قوم، زبان اور دیگر وجوہات کی بناء پر ریاست کے خلاف دہشتگردی کرنے والوں کا حوالہ بھی شامل کرتی۔ حکومت نے ایسا کرکے صرف ‘مذہب’ کو ہی نشانہ بنایا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں پرویز رشید نے کہا کہ تکنیکی طور پر یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کی پارلیمان میں جمیعت علمائے اسلام (ف) سمیت کسی جماعت نے آئینی ترمیم کے خلاف ووٹ نہیں ڈالا۔ اس وقت پاکستان میں جس سب سے بڑی دہشتگردی سے متاثر ہورہا ہے وہ مذہب اور اسلام کے نام پر ہے۔ سینیئر تجزیہ نگار حضرات کے مطابق مولانا فضل الرحمان اور دیگر ان نے صرف سیاسی بیانات ہی دیئے ہیں ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے حلقوں میں موجود مدارس کے خلاف کھڑے نہیں ہوسکتے جوکہ بیرونی ممالک کی امداد سے چل رہے ہیں۔ جبکہ اکثر سینئر قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر مولانا فضل الرحمان کے مطالبے کے مطابق حکومت لسانی و فرقہ وارانہ فسادات کے ذمہ دار گروہوں کے نام بھی شامل کرلیتی تو ایسی صورت میں مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ہوجاتی اور حکومت کے لیے مزید نئے مسائل کھڑے ہوجاتے۔ تعین حکومت کو ہی کرنا ہے کہ کون سا مقدمہ فوجی عدالت میں بھیجا جائے گا۔
سننے میں آرہا ہے کہ پاکستان بار کونسل نے بھی فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف 29جنوری کو یومِ سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتیں ، عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہیں۔ لیکن رکیے جناب ! کون سی آزاد عدلیہ ؟؟ وہ آزاد عدلیہ اور کرپٹ سسٹم جو سنگین جرائم میں ملوث دہشتگردوں کو سزا سنانے سے بھی ڈرتا ہے ؟ اور وہ وکلاء احتجاج کریں گے جو دہشتگردوں سے فیسوں کی مد میں بھاری رقوم حاصل کرکے جھوٹ کو سچ بنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور مظلوم کو بروقت انصاف کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں؟ قارئین ! اپنا اپنا نظریہ ، اپنی اپنی بات کے مصداق، میرا ماننا ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام ملکی حالات کے پیشِ نظر انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور مخالف عناصر و جماعتیں الٹی سیدھی ہانکنے کی بجائے اپنی اپنی ذمہ داریوں پر فوکس کریں اور آزاد عدلیہ کے جیالے اکیلے بیٹھ کر سوچیں کہ فوجی عدالتیں بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ عوام امید کرتے ہیں کہ فوجی عدالتیں دہشتگردوں کو کڑی سے کڑی سزا دیں گی اور معاشرے کو امن کا گہوارہ بنانے میں بہترین کردار ادا کریں گی۔
تحریر: ڈاکٹر راجہ جاوید جنجوعہ