تحریر: اصغر علی گھرال
پاکستان گزشتہ دس بارہ سال سے تاریخ کی بد ترین دہشت گردی کا شکار ہے۔ نصف لاکھ کے قریب سویلین اور 10 ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز کے جوان اور آفیسرز شہید ہو چکے ہیں۔ افواج کے عسکری مراکز۔ پولیس ہیڈ کوارٹر مساجد چرچ امام بارگاہیں۔ مزارات۔ جنازگاہیں ۔ جیلیں۔ بازار ۔ ہوٹل۔ ہسپتال ۔ بچوں اور بچیوں کے تعلیمی ادارے کیا کیا ان کے نشانے پر نہیں ہے۔ ہزاروں بیوہ اور لاکھوں یتیم ہوئے ہیں۔ 16 دسمبر 2014ء کا آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ جس میں 134 معصوم بچوں اور سٹاف سمیت ڈیڑھ سو کے قریب شہید ہوئے ۔ ہماری قوم کی پیٹھ پر روایتی اونٹ کی طرح آخری تنکا ثابت ہوا۔ 18 کروڑ انسان تڑپ اٹھے۔ قوم کے نمائند ے سر جوڑ کر بیٹھے ۔ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت دہشت گردی کے حوالے سے انتہائی غیر معمولی صورت حال سے نمٹنے کیلئے غیر معمولی اقدامات کے بارے میں غور کرنے پر مجبور ہوئی ۔ چنانچہ اٹھارہ کروڑ عوام کی منتخب پارلیمنٹ نے آئین میں 21ویں ترمیم متفقہ طور پر منظور کر کے فوجی ترمیمی ایکٹ 2015ء کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام کی بھی منظور ی دے دی۔ یہ فوجی عدالتیں صرف 2سال کیلئے ہونگی۔ مگر وکلا حضرات نے فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کی ہے۔ اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے ۔ یوں کیس “سب جوڈس “ہے۔ اصل اشوع پر بحث مطلوب نہیں۔ تاہم اس مسئلہ کے عمومی پہلوئوں پر گفتگو کی اجازت چاہتا ہوں۔ عدلیہ کسی بھی ملک کا مقدس ترین ادارہ ہے ۔ قانون کے محافظ طبقے کا پیشہ انتہائی قابل احترام ہے ۔ بر صغیر کی جنگ آزادی میں قائداعظم ۔ علامہ اقبال گاندھی جی اور پنڈت جواہر لال نہرو سے لیکر نیچے تک قانون دان طبقے کارول نمایاں رہا ہے ۔ وکلاء نے ہمیشہ آمریت اور آمرانہ قوانین کے خلاف جنگ لڑی ہے ۔ ججز بحالی تحریک میں وکلا ء برادری نے مالی نقصانات کی پروا نہ کرتے ہوئے بیش بہا قربانیاں دیکر فتح حاصل کی ہے ۔ اور دنیا بھر سے داد وصول کی ہے ۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر کا نام انسانی حقوق کے حوالے سے ساری دنیا میں جانا پہچانا جاتا ہے ۔ رول آف لاء انسانی حقوق اور جمہوری قدروں کی پاسداری کے حوالے سے وکلاء ہمیشہ اگلی صف میں رہے ہیں ۔ اس لئے وکلاء کی طرف سے ایک ایسے جمہوری ملک میں (جہاں مارشل لاء نافذ نہیں ہے ۔) فوجی عدالتوں کی مخالفت ناقابل فہم نہیں آخر ان کا جواز کیا ہے ؟
تو میرے نزدیک اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس سے قبل سول عدلیہ میں دہشت گردوں کے خلاف جو قانونی کاروائی ہوتی رہی ہے۔ عوام اس سے ہر گز مطمئن نہیں تھے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شکایت تھی۔ کہ ہم کتنی مشکلات سے دہشت گردوں کو قانون کے کٹہرے میں لاتے ہیں مگر عدالتوں پر دہشت گردوں کا خوف طار ی ہے۔ جج صاحبان ملزموں کو سزا دینے کی بجائے ان سے جان چھڑانے کیلئے کسی سقم یا کسی چھوٹے موٹے عذر کا بہانہ بنا کر انہیں چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں اخبارات میں خبریں شائع ہوتی رہیں کہ کیسے علی الاعلان اعتراف قتل کے باوجود ایک کالعدم تنظیم کے سرغنہ کو باعزت بری کر دیا گیا عدالت کو اسے سزا دینے کا حوصلہ نہیں ہوا اس طرح کی دیگر مثالیں بھی ہیں ۔ اس دور کے اعداد و شمار افسوس نا ک ہیں دہشت گردی کے فروغ کے لئے دو عوامل اہم رہے ہیں۔ ایک ہمارے حکمرانوں کی روایتی بزدلی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف موثر اپریشن کی اجازت دینے کی بجائے خونخوار درندوں کے ساتھ مذکرات کے لئے ترلے کرتے رہے ۔ جبکہ دہشت گرد حکومت پر مزید دبائو ڈالنے کیلئے اپنی ظالمانہ اور بہیمانہ کاروائیاں جاری رکھے رہے ۔ یوں نہایت قیمتی وقت ضائع ہوا ۔ دوسرے عدالتوں سے بری ہونے کے بعد دہشت گردوں کی درندگی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا اور وہ حلق خدا کو بموں سے اُڑا کر جشن مناتے رہے۔ ساری دنیا میں غیر معمولی حالات میں سنگین جرائم سے نمٹنے کیلئے غیر معمولی اقدامات کرنے پڑتے ہیں ۔ امریکہ سے بڑا جمہوری ملک کون سا ہے ؟۔ رول آف لا ء۔ انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کی پاسداری کے حوالے سے دنیا بھر میں چیمپئن کا درجہ رکھتا ہے۔ 9/11 کو نیو یارک اور واشنگٹن پر حملوں میں 2 ہزار 9 سو 96 امریکی ہلاک ہوئے۔ صدر جار ج بش نے حملوں میں مبینہ طور پر ملوث غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف سول عدالتوں میں مقدمے نہیں چلائے ۔ بلکہ 13 نومبر 2001ء کو آرمی کمیشن قائم کئے ۔ اور رسوائے زمانہ عقوبت خانہ گوانتا ناموبے کی تشکیل کی ۔ امریکہ میں دنیا کا بہترین عدالتی نظام ہے ۔ ان عدالتوں کو غیر ملکی دہشت گردوں سے کوئی خوف خطرہ بھی نہیں تھا۔ صدر جارج بش نے فوجی عدالتیں قائم کرنے کیلئے کانگرس یا ایوان نمائندگان کو اعتماد میں لینے کا تکلف بھی نہیں کیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ امریکی جمہوری معاشرے میں کسی فرد یا ادارے نے فوجی عدالتوں کی مخالفت نہیں کی ۔ امریکہ میں اس نازک مرحلہ پر کسی وکیل یا وکلاء کی تنظیم نے فوجی عدالتوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا۔ وکلاء حضرات نے اپنے پیشہ ورانہ مفادات کو نظر انداز کر کے قوم کے اجتماعی ضمیر قومی جذبات اور احساسات کا بھرپور ساتھ دیا ۔ امریکہ کی کسی عدالت کو فوجی عدالتوں کے خلاف از خود نوٹس لینے کی توفیق نہیں ہوئی۔
تاآنکہ پانچ سال بعد 2006ء میں سپریم کورٹ میں ایک کیس حمدان بنام رمز فیلڈ میں عدالت نے ضمنا ً یہ ابزرویشن دی کہ فوجی عدالتوں کو آئینی طور پر اختیار سماعت نہیں ہے ۔ تاہم بین الاقوامی آئینی ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ اس دوران پانچ سال میں امریکہ گوانتا ناموبے کی تشکیل اور اسے قائم رکھ کر دہشت گردوں اور انکے سرپرستوں کے خلاف کاروائی کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس ابزرویشن سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ فوجی عدالتیں بھی ایک عدالتی نظام ہے۔ ملزموں کو صفائی کا پورا موقع دیا جاتا ہے ۔ اگر اس نظام میں مزید بہتری کی گنجائش ہے ۔تو وکلاء تنظیموں کو اسکی نشاندہی کرنا چاہیے۔ سول عدلیہ اور فوجی عدالتوں میں ایک فرق یہ ہے کہ فوجی عدالتیں دہشت گردوں سے خوف زدہ نہیں ہونگی۔ اگر آج فوجی عدالتوں کے سوال پر ملک میں ریفرنڈم کرایا جائے۔ تو یقین کیجئے 99فیصد لوگ فوجی عدالتوں کے حق میں دونوں ہاتھ کھڑے کر دیں گے۔ اس نظام کے خلاف ایک فیصد سے کم لوگوں میں چار کیٹگری کے لوگ شامل ہونگے۔ 1 ۔دہشت گرد درندے ، 2۔دہشت گردوں کے ہمدرد منافقین ، 3۔عادی جرائم پیشہ لوگ جنہیں ڈر ہے کہ انکے خلاف سنگین مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں جاسکتے ہیں اور 4۔ وکلا حضرات۔ سوال یہ ہے کہ آخر لوگ سول عدلیہ کی بجائے فوجی عدالتوں کو کیوں ترجیح دیتے ہیں ؟تو اس کا ایک مختصر جواب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے 24جنوری کو چکوال ڈسٹرکٹ بار کے نو منتخب عہدیداروں کی تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے دیا ہے ۔ فرماتے ہیں ۔”انصاف میں تاخیر کے حوالے سے جو انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور انصاف کے طلبگاروں میں جواضطراب پایا جاتا ہے ۔ وہ مبنی بر حقیقت ہے ۔ اور اس حوالے سے عدلیہ اور وکلاء برابر کے ذمہ دار ہیں”۔ عدلیہ کا تقدس اور احترام بجا ۔ مگر جہاں تک عوام کا تعلق ہے انکی تو عدالتوں کے نام سے جان جاتی ہے ۔ عدالتوں کا روایتی طریق کار اتنا طویل ۔ اتنا مہنگا ۔ اتنا ازکار رفتہ اور اتنا ذلالت آمیز ہے کہ عوام اس سے جان چھڑانے کیلئے کسی بھی معقول سپیڈی ۔ موثر اور سستے نظام کو خوش آمدید کہنے کو تیار ہیں۔ یقین کریں تمام سنگین فوجداری مقدمات کے مدعی اور مستغیث اپنے مقدما ت سول عدلیہ سے فوجداری عدالتوں میں منتقل کرانے کے لئے ترلے لے رہے ہیں۔ ان سے پوچھیں کیوں ؟۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں نے انصاف میں غیر معمولی تاخیر کے حوالے سے ایک کالم لکھا کہ فوجداری مقدما ت 10 -10 سال اور دیوانی 25-25سال لٹکے رہتے ہیں۔ اور انصاف میں اتنی تاخیر بجائے خود نا انصافی بن جاتی ہے ۔ جس دن کالم چھپا میں اتفاق سے مرحوم ایس ۔ ایم مسعود ایڈووکیٹ سپریم کورٹ (سابق وفاقی وزیر قانون )کے چیمبر میںگیا۔ کالم انکی نظر سے گزر چکا تھا۔ کہنے لگے کہ گھرال صاحب ! آپ نے فوجداری مقدمات 10-10سال اور دیوانی 25-25سال تک لٹکے رہنے کا لکھا ہے ۔ یہ جو ساتھ والے کمرے میں سفید بالوں ، چہرے پر جھریوں کے ساتھ قبر میں پائوں لگائے مائی بیٹھی ہے ۔ یہ نابالغ لڑکی تھی۔ کہ اس کا باپ فوت ہوا۔ مکان کے علاوہ والد کی واحد جائیداد بازار میں دوکان تھی۔ جو اس نے بیٹی کو ہبہ کر دی۔ مگر دوکان پر والد کے بھائی نے ناجائز قبضہ کر لیا۔ یہ بے چاری اس وقت سے مقدمے بھگت رہی ہے۔ کئی دفعہ فیصلہ اسکے حق میں ہو گیا۔ مگر پھر اپیل ہو جاتی ہے ۔ یا کیس ریمانڈ ہو جاتا ہے ۔ اور آپ جانتے ہیں کہ ضابطہ دیوانی کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے کیس کو لمبا کرنا یا فیصلہ نہ ہونے دینا وکلاء حضرات کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ مجھے یقین ہے فیصلہ اسکی زندگی میں نہیں ہو گا ۔ وراثت میں مقدمہ بازی چھوڑ جائیگی ۔ تین تین نسلیں جونہی انتظار کر تی اور مرتی رہتی ہیں۔ سول عدلیہ میں مقدمہ بازی تو ایک لعنت ہے ۔ جسے ختم کرنے کیلئے کوئی بھی معقول میکنزم کیوں نہ اختیار کیا جائے آپ یقین کریں ۔نام نہاء قبضہ گروپوں کے وہ گروہ جو معاوضہ لیکر یا محض خداترسی سے غریب اور ستم رسیدہ لوگوں کو ناجائز قابضین سے بنوک پستول قبضہ چھڑا دیتے ہیں۔ عوام کے نزدیک ان مقدس اداروں سے زیادہ قابل احترام ہیں۔ پھر یہ نظام اتنا مہنگا ہے کہ اس سے غریب عوام انصاف کی توقع کر ہی نہیں سکتے لاکھوں اور کروڑوں کی فیسوں کاسنکرعام آدمی تو ویسے ہی غش کھا کر گر پڑتا ہے ۔ پھر واقف جج صاحبان سے حق میں فیصلہ کرانے کی امید یا یقین دلا کر لاکھوں کروڑوں الگ لئے جاتے ہیں۔ سردار لطیف کھوسہ نے ٹھیک ہی کہا تھاکہ مجھ پر محض 30لاکھ کا الزام لگانے والوں کو شرم آنی چاہئے۔ مجھ پر الزام لگانا ہی تھا۔ تو تیس کروڑ کا تو ہوتا ۔ 30-30لاکھ تو میرے بیٹے لیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ وکیل کی خدمات تو کوئی بھی کرائے پر حاصل کر سکتا ہے ۔جس مجرم نے جتنی بڑی کرپشن اور فراڈ کیا ہو گا۔ اسکے لئے اربوں کے گھپلے کر کے کروڑوں فیس دینا مشکل نہیں ۔ یا جس مجرم نے کم سن بچی کو زیادتی کے بعد شہادت مٹانے کیلئے جان سے مار دیا ہے اور اسے خواب میںبھی پھانسی نظر آتی ہے ۔ خوشی
سے لاکھوں کی بھاری فیس ادا کرے گا۔ یوں ہم اپنی خداداد صلاحیتوں اور محنت شاقہ سے ان کو تختہ دار سے بچا کر ثواب دارین لوٹتے ہیں۔ اور ملک میں انصاف کا بو ل بالا ہوتا ہے۔ اس مرحلہ پر مجھے ایک واقعہ یا د آرہا ہے ۔ جس میں میرے ایک وکیل دوست نے فیس میں بلینک چیک کی پیشکش ٹھکرا کر ملزموں کا کیس لینے سے معذرت کر دی تھی۔ گجرات کاہی واقعہ ہے ۔ دو ڈاکوئوں نے ایک ایسے گھر میں ڈاکہ ڈالا جو دور پار سے انکے رشتہ دار تھے۔ گھر میں ایک خاتون اور اسکا چھوٹا بچہ تھے۔ ڈاکوئوں نے چہرے خوب ڈھانپ رکھے تھے۔ مگر انکی حرکات و سکنات سے انکی شناخت مشکل نہ تھی۔ ڈاکوئوں نے بھی محسوس کر لیاکہ خاتون خانہ اور اسکے بچے نے انکو پہچان لیاہے ۔ اب ڈاکوئوں کیلئے اپنے خلاف شہادت مٹانے کیلئے انہیں ٹھکانے لگانا ضروری ہو گیا۔چنانچہ بی بی کو فائر کر کے ٹھنڈا کر دیا۔ اس اثناء میں بچہ ڈر کر صندوق کے نیچے گھس گیا۔ جہاں سے اسے باہر نکالنا مشکل ہو گیا۔ لکڑی کی ٹھوکروں کی وجہ سے وہ چینختا ضرور مگر باہر نہیں آتا تھا۔ تاآنکہ تلاش کرنے پر سریے کے ایک ٹکڑے نے جس کا ایک سرا نوکدار تھا یہ کام آسان کر دیا۔ (اس سے آگے تفصیل لکھنے کا حوصلہ نہیں ۔میری آنکھوں میں اندھیرا سا چھا گیا ہے ) کیا ان ڈاکوئوں کو اپنا کیس لڑنے کیلئے کوئی اور قابل وکیل دستیاب نہیں ہوا ہو گا۔ جس نے “بلینک چیک “پر کر کے ان کو بچانے کیلئے اپنی تما م تر مہارت اور صلاحیت صرف کی ہو گی۔ موقع پر چشم دید گواہ کے فقدان کا عذر موجود تھا۔ کیوں نہ ان کو پھانسی سے بچا کر اور با عزت بر ی کرا کے بار روم میں دوستوں سے داد وصول کی ہو گی۔ میں ایمانداری سے آج تک فیصلہ نہیں کر سکا۔ کہ ہم وکیل جو ملک میں انصاف پروری کا دعویٰ کرتے ہیں ۔فی الواقعہ معاشرے میں عدل و انصاف کے فروغ کا باعث ہیں۔ یا ظالموں اور مجرموں کو بچانے کا رول ادا کر رہے ہیں یہ نظا م بنیادی اور انقلابی تبدیلیوں کا متقافی ہے ۔ سردست میں تجویز کرونگا کہ جس طرح ملک میں بعض خداترس ڈاکٹر اور ماہر سرجن امیر مریضوں سے تو ٹھیک ٹھاک فیس لیتے ہیں۔ مگر بعض مسکین اور مفلوک الحال مریضوں کا علاج اور اپریشن مفت کر کے ثواب دارین حاصل کرتے ہیں۔ سینئر وکلاء کو بھی یہ کرنا چاہئے۔
بہت سے محترم دوست یقینا خاموشی سے ایسا کرتے ہیں۔ لیکن سینئر اور ٹاپ کے وکلاء کو اس کار خیر میں باقاعدہ حصہ لینا چاہئے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس ملک میں 10فیصد اپر کلاس دولت میں کھیلتی اور عیش کرتی ہے جبکہ 20فیصد بیچارے محض سفید پوش اور 70فیصد دو قت کی روٹی کے محتاج ہیں ۔ وہاں یہ “نظام عدل ” ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔آخر نامور قانون دانوں کی خدمات کونسا طبقہ افورڈ کر سکتا ہے۔ نہ صرف دنیا کے دولت مند سائنس دانوں نے دولت کمانے والے بزنس ،شو بزنس سپورٹس کے شعبوں میں فلاحی ادارے قائم کئے ہیں۔ مگر ہمارے ایک ایک کیس میں 30-30کروڑ کمانے کا دعویٰ کرنے والوں میں کبھی کسی فلاحی ادارے کی خبر نہیں آئی ۔ اتنی دولت کو کیا کریں گے۔ ممتاز قانون دان میاں محمود علی قصوری مظلوم سیاسی ورکرز کے کیس مفت لڑتے تھے۔ ہمیں مظبوط اور موثر فری لیگل ایڈمراکز قائم کرنا چاہیے ۔اور ملک میں سلیکشن گریڈ کے مہاں ظالم مجرموں کے خلاف استغاثہ کی طرف سے کیس لڑ کر انکو سزا دلوانی چاہیے ۔ اور مفلوک الحال غریبوں جن کے خلاف جھوٹے کیس ہوں۔ ان کو ظلم سے بچانا چاہیے جہاں تک فوجی عدالتوں کا تعلق ہے ۔ فی الواقعہ شدت پسند ی سے نمٹنے کیلئے فوجی عدالتوں کے سوا کوئی آپشن نہ تھا۔ فوجی عدالتوں کے قیام کا مقصد مقدمات کو جلد از جلد فیصلہ کرانا ہے ۔ اور میں وکلاء بھائیوں سے گزارش کرونگا۔ کہ ہمیں انکی مخالفت نہیں کرنا چاہیے۔
تحریر: اصغر علی گھرال
asgharghural@gmail.com
03334115340