تحریر : ممتاز حیدر
سقوط ڈھاکہ والے دن 16دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشتگردوں کے حملے میں شہید ہونے والے 132 بچوں سمیت اسکول عملے کے 146 افراد کی شہادت کا واقعہ آج بھی قوم کے ذہن میں ہے اور اس کے زخم آج بھی اسی طرح تروتازہ ہیں۔اس واقعہ کے بعد اسلام آباد میں ہونے والی قومی کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں کے مابین فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم پر اتفاق ہواتھا۔ جس کے بعد آئین میں 21 ویں ترمیم کے لیے بل ز قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔سات جنوری کو آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل 2015 اور21 ویں ترمیم پارلیمنٹ سے منظور کرائی گئی۔جے یو آئی نے فوجی عدالتوں کے قیام پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے دینی مدارس کو تحفظ، سانحہ پشاور کی شفاف تحقیقات اور صوبائی حکومت سے سانحہ پشاور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ 18ویں ترمیم کے خلاف درخواستیں اپریل2010 ء میں دائر ہوئیں جن پر عدالت عظمیٰ نے اکتوبر 2010 ء میں حکم جاری کرکے معاملہ زیر التوا رکھا۔
فوجی عدالتوں اور 21 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر پہلی سماعت 27جنوری2015 ء کو چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ سپریم کورٹ میں18 ویں اور21 ویں ترمیم کے خلاف کل 32 درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے 18 ویں اور21 ویں ترمیم کے خلاف تمام درخواستوں کو یکجا کرکے سننے کا حکم جاری کیا۔24 فروری کو جسٹس انور ظہیر جمالی کی سر براہی میں تین رکنی بینچ نے معاملہ پر فل کورٹ بینچ بنانے کی سفارش کی۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے 3اپریل کو معاملہ پر فل کورٹ تشکیل دیا۔16 اپریل کو سپریم کورٹ نے حکم امتناعی جاری کرکے فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائی جانے والی چھ دہشت گردوں کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا۔
عدالتی فیصلہ آنے کے بعد فوجی عدالتوں کی ملزموں کو سنائی گئی سزائوں پر عملدرآمد بھی شروع ہوجائے گا، جن پر سپریم کورٹ نے حکم امتناعی جاری کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی اکثریت نے فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار کے حق میں فیصلے جاری کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے اس حق کو بھی تسلیم کر لیا ہے کہ وہ عوام کی رائے کی ترجمانی کرتے ہوئے آئین میں ترمیم کا مکمل اختیار رکھتی ہے۔سپریم کورٹ نے 18ویں اور 21ویں ترامیم کیخلاف درخواستیں خارج کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کو آئینی اور جائز قرار دیدیا ہے۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے 18 ویں اور 21ویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کا فیصلہ سنایا، درخواستوں میں فوجی عدالتوں کے قیام کے علاوہ ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔
درخواستیں اکثریت رائے سے مسترد کی گئیں، 17میں سے 14ججوں نے 18ویں ترمیم کے حق میں جبکہ 11ججوں نے 21ویں ترمیم کو جائز قرار دیا، تین ججوں نے اٹھارہویں جبکہ 6 ججوں نے اکیسویں ترمیم کی مخالفت میں فیصلہ دیا۔ درخواستوں میں فوجی عدالتوں کے قیام، خواتین کی مخصوص نشستوں کے معاملے، پارٹی سربراہ کی طرف سے رکن پارلیمنٹ کو ڈی سیٹ کرنے کے اختیارات کو چیلنج کیا گیا تھا، دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک نے فیصلے کے اہم نکات پڑھ کر سنائے، عدالت نے قرار دیا ہے کہ فوجی عدالتیں برقرار رہیں گی، ججز کی تقرری کا طریقہ کار بحال رہے گا۔ اختلاف کرنے والوں میں جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس دوست محمد، جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس اعجاز چودھری شامل ہیں۔
عدالت نے904 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کے لامحدود اختیارات ہیں اور پارلیمنٹ کے آئین میں ترمیم کے اختیارات پر کوئی قدغن لگائی جاسکتی ہے نہ ہی آئین سپریم کورٹ کو کسی آئینی ترمیم کو کالعدم قرا ردینے کااختیار دیتا ہے۔ عدالت نے واضح کردیا ہے کہ آئینی ترمیم چاہے بنیادی حقوق سے متصادم ہی کیوں نہ ہو سپریم کورٹ کے پاس اسے کالعدم قراردینے کا کوئی اختیار نہیں۔ سپریم کورٹ کو فوجی عدالتوں کے فیصلوں اور سزائوں پر نظر ثانی کا اختیار ہوگا۔عدالت نے واضح کیا کہ بدنیتی، اختیار سماعت نہ ہونے یا مجاز فورم نہ ہونے کی بنیاد پر نظر ثانی کا اختیار ہوگا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور دہشت گرد عدالتی نظام کی خامیوں اور پراسیکیوشن کی کمزوریوں کا جو فائدہ اٹھا رہے تھے اس فیصلہ سے انہیں حاصل ”قانونی سہولتیں” ختم ہو جائیں گی۔ پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے، منفی تبصرے بند اور دہشت گردی ختم کرنے پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔ دہشت گرد کسی رعایت کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ سپریم کورٹ کے تاریخ ساز فیصلے سے دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملے گی اور پارلیمنٹ اپنا آئینی کردار مزید بہتر انداز میں ادا کرتی رہے گی۔ فوجی عدالتوں کے قیام سے دہشت گردی اور جرائم کی بیخ کنی کرنے میں مدد ملے گی اور اس سے اداروں کے درمیان ہم آہنگی میں اضافہ ہوگا۔ ،فوجی عدالتوں کا قیام اچھی با ت ہے اس سے سہولت ہو گئی ہے۔
فوج اس وقت اپنے مشن پر ہے وہ پاکستان میں امن لانا چاہتی ہے اب فوجی عدالتوں کے قیام سے فیصلے ذرا تیزی کے ساتھ ہو نگے جس سے امن لانے میں آ سانی ہو جائے گی۔حکومت اورسپریم کورٹ کو چا ہیے کہ وہ نچلی عدالتوں کو ٹھیک کر یں تا کہ اس ملک میں جلدی انصاف ملے اورفوجی عدالتیں بنانے کی آ ئندہ ضرورت ہی پیش نہ آ ئے۔ فوج، ایوان اور سپریم کورٹ نے ثابت کر دیا کہ تینوں دہشت گردی کے خلاف ایک پیج پرہیں، فیصلے سے ہمارا مستقبل محفوظ ہوگا۔ آرمی پبلک سکول کے شہداء کے لواحقین نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقد م کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے سے سانحہ پشاور کے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں مدد ملے گی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے انصاف کا بول بالا ہوگا۔وزیراعظم نواز شریف نے اٹھارہویں اور اکیسویں ترامیم اور ان کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق عدالت عظمیٰ کے 17 رکنی بنچ کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلہ کے قومی زندگی اور تاریخ پر دیرپا اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے، یہ فیصلہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا مظہر ہے۔اس فیصلہ سے دہشت گردی کی حوصلہ شکنی ہو گی اور اس کے خلاف جاری جنگ کو تقویت ملے گی، ہم نے اتحاد و اتفاق کا جو راستہ اختیار کیا ہے وہی ہمیں منزل سے ہمکنار کرے گا۔ آپریشن ضرب عضب، نیشنل ایکشن پلان اور اقتصادی راہداری کے لئے اتفاق رائے سے فیصلہ کر کے نیا کلچر پروان چڑھایا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہناہے کہ 18 ویں اور 21 ویں آئینی ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے نے ثابت کردیا ہے کہ غیرمعمولی حالات میں پارلیمنٹ نے درست فیصلہ کیا ہے۔ آج پارلیمنٹ کی بالادستی اور فتح کا دن ہے، ہم ریاست کو اولین ترجیح دیتے ہیں، ریاست اور نظام کا مضبوط ہونا حکومت کیلئے بہتر ہے۔مولانافضل الرحمن کہتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول ہے، میری ذاتی رائے اختلافات کرنے والے 6 ججزکے ساتھ ہے۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے ہمارے تحفظات ختم نہیں ہوئے وہ اپنی جگہ برقرار ہیں۔
تحریر : ممتاز حیدر