تحریر:بدر سرحدی
آج دہشت گردی کے حوالے سے ملک انتہائی نامساعد حالات میں ،بلکہ حالت جنگ میں خاص کر اپریشن ضرب عضب کے حوالے سے ،پھر واہگہ بارڈر پر حملہ اور ١٦ دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے نے جس میں پہلی رپورٹ کے مطابق ١٣٢ ،بچے اِن ظالموں نے بھون دئے جس پر پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا ،تب سیاسی اور عسکری قیادت ایک نقطہ پرمتفق ہوئی ہزاروں دہشت گرد حراست میں ہیں جو سرکاری مہمان پیر تسمہ پا بنے ہوئے ہیں ،انہیں اس طرح رکھنا بھی گھمبیر مسلہ …… اس حوالے سے خبریں کافی گرم تھیں اے پی سی کی میٹنگ بلائی گئی….دہشت گردوں کے مقدمات سالہا سال تک لٹکانا اور سول عدالتوں پر بوجھ کم کرنے کے لئے دو برس تک دہشت گردی کے مقدمات جلد از جلد نپٹانے کے لئے فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے گرم اور مثبت خبریں آرہی تھیں گو سیاستدان مخمصے میں تھے پہلے تو زرداری نے خوف کا اظہار کیا۔
پھر بھی ٢١ ویں آئنی ترمیم پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوگئی اس پر قوم کو مبارک کہ کہیں تو متفق ہوئے ہیں ،مگر دینی جماعتیں باہر ہیں گویا انہوں نے طالبان کا ساتھ دیا ہے یہی دینی جماعتیں ٧٧،میں ضیاء الحق کے بدترین دور میں جب نہتے سیاسی کار کنوں پر کوڑے برسائے جاتے تھے یہ سب دینی جماعتیں ماشل لاء کا حصہ تھیں تب تو ان فوجی عدالتوں پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا ، خصوصا جماعت اسلامی جو آج معترض ہے تو ضیاء حکومت کا ہر اول دستہ تھی مگر ….. اور آج آئینی اور جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے محض دو برسوں تک فوجی عدالتوں پر اعتراض کیوں؟ جبکہ چیف آف آرمی جناب راحیل شریف کھلے اور واضح لفظوں میں کہہ چکے ہیں کہ فوجی عدالتیں فوج کی خواہش نہیں،یہ وقت اور حالات کے جبر کی ضرورت ہے یہ کڑوی گولی نگلنی پڑے گی، تب سوائے دینی جماعتوں کے پوری قوم متفق ہوئی اور آج وکلا بھی میدان میں آگئے۔
ایک عرصہ سے قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی والا پاکستا ن آج کی دنیا کے لئے کسی بھی طور قابل قبول نہیں اور نہ ہی خوف زدہ معاشرہ جو ہر ایک کے لئے مشکوک ہو …. خیال رہے گزشتہ ١٢ برسوں میں کتنے دہشت گردوں کو لٹکایا گیا،اور قومی خزانے سے ان مہمانوں پر کتنا خرچ ہو رہا ہے ،جو آج اپنی بقا کی جنگ میں مزید تیز تر ہو گئے ہیں وہ کسی بھی طور پیچھے ہٹنے کے یا قوم کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں،پسپائی یا شکست کا کوئی خوف نہیںایک ہی ٹارگِٹ ہے پاکستان کو فتح کرنا ہے …..دینی مدرسوں کو سامنے لایا جا رہا ہے اگر تو دینی مدرسوں میں اسلحہ نہیں صرف کتابیں ہیں تو خیال رہے کہ فوج بھی ہماری اور حکمران بھی پاکستانی کوئی فرنگی زادہ نہیں ،تو پھر یہ خوف کے کیا معنی کیا اِس کا مطلب یہ تو نہیں کے کہ طالبان پر ثابت کیا جائے کہ ہم تمہارے ہمدرد ہیں ….. آ ج کسی بمبار کے خود کش حملے کے بعد اُسے جننے والی نے اعلانیہ نہیں کہا کہ میرا بیٹا شہید ہو کر سیدھا جنت میں گیا اور اسکے جسم کے بقیہ لوتھڑے جمع کر کے دفن کئے ہوں کیا۔
یہ خود کش بمبارآسمان اترتے ہیں یا زمین سے اگتے ہیں ،آج تک کسی خود کش بمبار کاکوئی رونے والا سامنے نہیں آیا یہ بھی تو قابل غور سوال ہے، ستمبر ٢٠٠٨ میں نوشہرہ کینٹ میں ایک خود کش بمبار عین موقع پر خود کو اُڑا نہ سکا اور پکڑا گیا،اسکی جیب سے تحریر بر آمد ہوئی،جس پر رقم تھا جب جنت میں پہنچوں گے تو تمہارا سر اٹھانے کے لئے حوروں میں مقابلہ ہوگا اُس نے عدالت میں بتایا کہ جنوبی وزیرستان میں تربیت حاصل کی ، اُس نے عدالت میں سب کچھ بتایا جہاں سے تربیت حاصل کی ،سب مدرسوں پر تو یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا ،گنتی کے چند ہی ایسے سینٹر ہونگے جہاں بمبار تیار کئے جاتے ہیں …..اس کے لئے خصوصی طور پر یتیم اور لا وارث بچے ہی حاصل کر کے انہیں الگ تھلگ رکھ کر تیار کیا جاتا ہے ،جس نے دنیا دیکھ لی ہے وہ بقائمی ہوش وحواس کبھی ان دیکھی دنیا کے لئے خود کو نہیںاُڑائے گا……، وزیر داخلہ نے ٹھیک ہی تو کہا ہے کہ جن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں وہ پریشان نہ ہوں ….. مولانا فضل الرحمان نے ٥ جنوری کو پریس کانفرنس میں کہا کہ اصولی طور پر تو فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں تھے لیکن قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے قبول کیا مگر حکومت نے ہمیں تاریکی میں رکھا ( خود تو چنگا چوکھا کھا گئے اور ہمیں …..)اور اب فوجی عدالتوں کے لئے آئین میں ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے تو مولانا بتائیں پھر قبول کیا کیا۔
جناب کچھ تو کھل کر سچ کہیں،یہ کہہ کر حکومت پر بھی احسان کیا کہ ہم نے فوجی عدالتوں کا قیام قومی مفاد میں قبول کیا اور پھر ووٹنگ سے باہر رہ کر طالبان کے ساتھ یکجہتی کا اعلان بھی کر دیا کہ ہم نے ووٹ نہیں دیا …. اور یہی ہو ا انہوں نے ووٹ نہیں دیا ، جماعت اسلامی بھی رائے شماری میں شامل نہیں ہوئی وہ تو اعلانیہ دہشت گردوں کو دہشت گرد ہی تسلیم نہیں کرتی، سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسین نے واضح کیا تھا کہ قتال فی سبیل اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کو لوگ دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہیں جو درست نہیں انہوں نے مارے گئے دہشت گردکو شہید کہا۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ اگر مذہبی اداروں کو نشانہ بنایا گیا تو تشویشناک صورت حال ہوگی،مولانا کیوں فکر مند ہیں مذہبی اداروں کو کیوں نشانہ بنایا جائے گا، اگر تو مذہبی اداروں میں اسلحہ ہوأ یا دہشت گرد چھپے ہوئے تو اس کا کیا جواب ہوگا … ، پورے میں ملک خوشی کی لہر تھی کہ قوم میں کہیں تو اتفاق ہوأ ہے ،مگر اب یہ بھانڈہ بھی چوراہے پر چکنا چور ہو گا کہ دینی جماعتوں کے ساتھ اب وکلاحضرات بھی میدان میں نکلنے کے لئے پر تول رہے جوکل تک خاموش تھے،
تحریر:بدر سرحدی