تحریکِ انصاف کے اقتدار کی پہلی باری کے 8ماہ میں اتنا تو واضح ہو گیا کہ الیکشن 18میں قوم کی امیدوں کا مرکز ومحور بننے والی یہ غیر روایتی سیاسی جماعت جتنا عوام دشمن نظامِ بد کو ختم کرنے کے درپے رہی، اُس کے لئے اُس کی صلاحیت بہرحال محدود تھی جسے استعمال کرتے ہوئے اُس نے اُس انہونی کو ہونی کر دکھایا کہ ہر دو روایتی مقتدر جماعتوں نے ایک دوسرے پر بھاری بھر کرپشن کے جو مقدمات اپنے اپنے ادوارِ حکومت میں تیار کئے تھے، پاناما لیکس کا فائدہ اُٹھا کر زبردست سیاسی ابلاغ کے دبائو سے نہ صرف اپنا آئینی کردار ادا کرنے کے لئے نیب اور جے آئی ٹی کو سرگرم کئے رکھا بلکہ (ن)لیگ اور پی پی کے سابق حکمرانوں کے خلاف اپنے اپنے جماعتی اقتدار میں ہی آئینی احتسابی اقدامات کو ممکن کر دکھایا۔ یہ کوئی تحریکِ انصاف کے خود برسرِ اقتدار آنے سے کم بڑی تبدیلی نہ تھی کہ اسٹیٹس کو کے خلاف تسلسل سے پیچھے پڑ جانے والی تبدیلی کی علمبردار جماعت نے یہ تبدیلی لا کر دکھا دی کہ (ن)لیگ کے برسرِ اقتدار رہنمائوں کے خلاف احتسابی عمل (ن)لیگی دورِ اقتدار میں ہی شروع ہوا، جس کے مقدمات اور الزامات سے متعلقہ مواد پی پی نے اپنے سابقہ دور میں تیار کیا تھا۔ دو وزرائے اعظم عدلیہ سے انصاف پاکر محرومینِ اقتدار ہوئے اور ہر دو جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف احتسابی عمل کی تائید کی، گویا عمران خان کا شدید سیاسی دبائو ہی نہیں، اُسے پارلیمانی اپوزیشن کی تائید بھی ملتی رہی۔ اِس صورتحال سے خان صاحب کا یہ دعویٰ ’’کچھ نہ ہونے‘‘ کے تمام تر امکانات کے برعکس درست ثابت ہوا، آئین و قانون کے اطلاق کا درجہ بڑھ گیا، حکومت کے مقابل ریاستی اداروں کی رِٹ کا گراف انتہا کو پہنچا۔ ایسے میں اسٹیٹس کو منہدم ہوتا معلوم دیا اور ہوا بھی، لیکن یہ انتخابات کے بعد مکمل ہونا تھا کہ کم از کم عوام کو ریلیف کے حوالے سے اِن شعبوں اور اِن کی انتظامیہ اور وزارتوں میں نمایاں تبدیلی ہوئی یا نہیں۔ تھانہ کچہری کلچر کے تیزی سے خاتمے، اسکولوں سے باہر بچوں کی وسیع پیمانے پر رجسٹریشن فوری شروع کرنے کا کوئی تعلق مالی بحران سے نہیں بلکہ بہتر گورننس سے ہے۔ اور کتنی ہی وزارتوں اور محکموں، ترقیاتی اداروں کی اصلاحات کا آغاز ہونا یقیناً ممکن تھا۔ ہوم ورک نہ ہونے کے باوجود ایک دو ماہ میں ’’آغازِ اصلاح‘‘ کے پیکیج تیار کئے جانا کوئی مشکل نہ تھا، آخر اقتدار ملا تھا اور اتنی جدوجہد کے بعد اور توقعات کے ساتھ، لیکن کچھ بھی تو ہوا، نہ ہو رہا ہے۔ گویا اسٹیٹس کو سے نمٹنے کی سکت اتنی ہی تھی کہ وہ تبدیلی کے ایجنڈے اور الیکٹ ایبل کے ہجوم کے ساتھ طویل عرصے سے مسلط اسٹیٹس کو کی اصل سیاسی طاقت کو اکھاڑ پچھاڑ کر اقتدار میں آ جائیں۔ جہاں تک داخلی ملکی صورتحال کا معاملہ ہے، وہ درست تو کیا ہوتی بگڑتی جا رہی ہے اور ملکی بھی کیا، حکومتی پارٹی کے معاملات ہی بڑے گمبھیر اور پیچیدہ ہیں، اُنہیں سلجھانے کے لئے جو ٹامک ٹوئیاں ماری گئیں، وہ ڈیزاسٹر پر ڈیزاسٹر ہیں۔ مان لیا جائے کہ خود اب وزیراعظم میں باقی ماندہ اسٹیٹس کو سے نمٹنے کی سکت نہیں ہے اور ٹیم کے تماشے اور نااہلی تو عیاں ہو چکی۔ امر واقع یہ ہے کہ برسرِ اقتدار آنے پر گورننس کی بہتری کے لئے عمران خان کے بڑی تعداد میں سچے اور شروع کے ساتھی جو سکت برابر اسٹیٹس کو توڑنے کی جدوجہد کے دوران برسرِ اقتدار آنے والی تحریک انصاف کی امکانی حکومت کو بہتر چلانے کے لئے منصوبہ بندی کی تیاری کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، پارٹی میں روایتی سیاسی کارکنوں کے دھاوا بولنے اور اُس میں تیزی سے جگہ بنانے اور بڑی تیزی سے نظر انداز ہونے پر مایوس ہوتے ہوتے تقریباً پارٹی سے باہر ہو گئے ہیں۔ بدقسمتی سے پارٹی کو منظم کرنے کے لئے کوئی اہل ڈھانچہ نہ بنایا جا سکا، (اسد عمر کے سوا) شیڈو کابینہ تو دور کی بات، منشور کمیٹی بھی بڑی لاپروائی سے تشکیل دی گئی۔ اب یہ طے شدہ ہے کہ اقتدار کے سفر کی گاڑی بمطابق چلانا خود وزیراعظم کے بس میں لگ رہا ہے نہ اُس کی چھت پر بیٹھے اور کھڑکی، دروازوں میں لٹکے وزراء، مشیروں اور نو رتنوں کے۔ عوامی مفادات کے تحفظ کے لئے حکومتی رِٹ کی صورت کا اندازہ اِس چھوٹی سی مثال سے لگا لیں کہ ہمارے دوست جنگ کے کالم نویس منصور آفاق نے فیصل آباد کے ایک مشنری اسکول سے ملحقہ کوڑے اور گندے پانی کی ڈسپوزل کے لئے دو گہرے کنویں بننے سے رکوانے کے لئے اپنا سا پورا زور لگا دیا، وہ بااثر شہریوں اور میڈیا کے دوستوں کے تعاون سے کمشنر، ترقیاتی ادارے کے سربراہ، محکمہ تعلیم کے حکام، پھر چیف سیکرٹری اور چیف منسٹر کی حمایت اور یقین دہانی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن عوام اور تعلیم دشمن فیصلہ ساز سب سے طاقتور نکلے، گویا پرنالہ وہیں بہہ رہا ہے لیکن منصور نے نصرت کا علم چھوڑا نہیں، آخر کو پی ٹی آئی کا پرانا جیالا ہے، اب اُس نے عدالت میں جاکر انصاف پانے کا عزم باندھا ہے،
ایسے میں وزیراعظم عمران خان کے لئے ملین ڈالر ٹپ ہے کہ اگر اُن کا دل گواہی دے رہا ہے کہ جو اوپر درج کیا ہے، وہ کڑوی حقیقت ہے تو مادۂ تبدیلی کے بدستور علمبردار رہتے ہوئے نئی اقدار کے امین بنیں۔ نئے راستوں کی تلاش منزل سے آگے نئے اہداف منواتی اور حاصل کراتی ہے۔ آپ کے لئے ملین ڈالر ٹپ ہے، اب جبکہ پارلیمان بدستور لاحاصل، آپ قوم سے براہِ راست رجوع کریں۔ گڈ گورننس کو یقینی بنانے کے لئے اور اس بحرانی کیفیت میں ملکی وسائل اور سازگار صورتحال کی موجودگی میں ملکی ضروریات کے لئے موجود جامد پوٹینشل ہے۔ جو ہو سکتا ہے، عوامی مفادات کے زور پر، وہ تو کیا جائے۔ یہی نئی راہ ہے کہ اولین توجہ طلب دس قومی مسائل کی نشاندہی ایک ہائی فائی بورڈ سے کرا کر پوری قوم کو دعوت دیں کہ اُن دس مسائل کو موجودہ صورتحال اور دستیاب وسائل میں ہی بہتر کرنے کا اگر کسی کے پاس کوئی حل ہے جس کا عقلی جواز علم اور عمل کے حوالے سے پیش کیا جا سکے، اُس کی قابلِ عمل حکمت عملی پیش کی جا سکے، وہ حکومت کو پیش کئے جائیں۔ پھر اُن پر سوالات کی بھرمار سے برین اسٹارمنگ ہو۔ یعنی جو بھی اچھوتی، عوام دوست ملکی وسائل سے نکلتے حل اداروں، افراد، گروپس، تنظیموں کی طرف سے پیش کئے جائیں، اُنہیں عمل میں ڈھالنے کے لئے زیادہ سے زیادہ ڈاکیومنٹیشن کا عمل تین ماہ میں مکمل کیا جائے۔ یہ مطلوب پالیسی سازی کا وسیع تر اور جلد سے جلد اہتمام کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔ اِس ضمن میں بیرونِ ملک مختلف شعبوں کے ماہرین کو خصوصی اہمیت دی جائے اور یہ امر یقینی بنایا جائے کہ تجاویز کا جائزہ لینے والی کمیٹی/کمیشن ہائی کپییسٹی اور پالیٹکس فری ہو۔ اتنی بڑی مشاورت سے اتنی ہی بڑی برکت یقینی ہے۔