پاکستان کے موقر روزنامے میں چھپنے والا ہوشربا ادارتی نوٹ جس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجہ نہائت بیہانک کھیل کی طرف دلادی۔ جس میں پاکستان سے باہر پاکستانیوں کیساتھہونے والے بیہانک سلوک کو موضوع بنایا گیا ہے۔
یہبات من حیث القوم ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ گزشتہ تیس پینتیس برسوں میں شاید ہی کوئی مہینہ ایسا گزرا ہو جس میں بیرونِ ملک غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کو ڈی پورٹ نہ کیا گیا ہو۔ جمعرات کے روز ترکی سے 24اور دبئی سے 3پاکستانی واپس بھیجے گئے جنہیں ایف آئی اے امیگریشن حکام نے پاسپورٹ سیل کے حوالے کر دیا، اسی طرح پانچ روز قبل سعودی عرب سے 140افراد اسلام آباد پہنچے ان میں سے 100کو گھر جانے کی اجازت دیدی گئی۔ دیگر 40کو پوچھ گچھ کیلئے روک لیا گیا جبکہ مختلف ملکوں کی جیلوں میں طویل قید کی سزائیں کاٹنے والے لاکھوں پاکستانی اس کے علاوہ ہیں، آج ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ یہ صورتحال ایک طرف وطن عزیز کی بدنامی کا باعث بنتی ہے دوسری طرف ان سادہ لوح افراد کو سبز باغ دکھا کر ان سے لاکھوں روپے بٹورنے والے ریکروٹنگ ایجنٹوں کی شکل میں انسانی اسمگلر ہیں جن پر ہاتھ ڈالنے یا انہیں گرفتار کرکے سزا دلوانے کی شاید ہی کوئی مثال سامنے آئی ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لاکھوں انسانی اسمگلر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ان کا نیٹ ورک اس قدر مضبوط ہے جہاں کہیں خطرہ بھانپتے ہیں آسانی سے دوسرے ملک منتقل ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ قیمتی انسانی جانوں سے کھیلنے میں کسی بھی حد تک جاتے ہیں۔ نقل مکانی کے دوران تارکین وطن کی کشتیاں ڈوب جانے اور بڑی تعداد میں ہونے والی ہلاکتیں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ انسانی اسمگلنگ بالخصوص خواتین اور بچوں کی تجارت کی ممانعت اور تدارک کا بل قومی اسمبلی میں زیر التوا ہے، وطن عزیز کی بیرونِ ملک ساکھ اور سادہ لوح پاکستانیوں کو لٹنے سے بچانے کیلئے اس بل کو سرد خانے سے نکال کر منطقی انجام تک پہنچانے پر سنجیدگی سے توجہ دینا چاہئے۔