مینارِ پاکستان، پاکستان کی ایک قومی عمارت ہے جسے ’یادگارِ پاکستان‘ بھی کہا جاتاہے۔ اس مینار کو لاہور میں عین اسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے، جہاں23مارچ 1940ء کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں تاریخی ’قراردادِ پاکستان‘ منظور ہوئی۔ اس جگہ کو اُس وقت منٹو پارک کہا جاتا تھا جو سلطنتِ برطانیہ کا زیرِ انتظام تھا۔ آج کل یہ اقبال پارک کے نام سے منسوب ہے۔
تخمینہ و منظوری
مینارِ پاکستان کی تعمیر کے سلسلہ میں 1960ء میں اُس وقت کے صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے ایک کمیٹی تشکیل دی اور اسی کمیٹی کی منظور شدہ سفارشات اور ڈیزائن پر اس مینار کی تعمیر ہوئی تھی۔ ممتاز ادیب مختار مسعود بھی اس کمیٹی کے سرکردہ رکن تھے۔ اس مینار کا ڈیزائن ترک ماہر تعمیرات نصرالدین مرات خان نے تیار کیا۔ اس کی تعمیر کا ٹھیکہ تحریک پاکستان کے کارکن میاں عبدالخالق کو دیا گیا تھا۔ مینارِ پاکستان کی تعمیر کے کام میں تاخیر کے سبب اس کی تعمیری لاگت بھی بڑھ گئی، چنانچہ 28جون 1966ءکو کمشنر لاہور کی زیرِصدارت کمیٹی کے اجلاس میں مینار اور اس سے ملحقہ پارک کی تعمیر کے نئے تخمینوں کی منظوری دی گئی۔
اس کمیٹی نے ایک لائبریری اور کیفے ٹیریا کی تعمیر کی بھی منظوری دی۔ یہاں تحریکِ پاکستان میوزیم بنانے کا بھی منصوبہ تھا مگر اگست 1967ءمیں آڈیٹوریم اور اس میں میوزیم کے قیام کا منصوبہ ترک کر دیا گیا اور اعلان ہوا کہ آڈیٹوریم ”پاکستان ہاؤس“ کے نام سے شاہراہ قائداعظمؒ پر چڑیا گھر سے متصل 9کنال اراضی یا اسمبلی چیمبر کے عقب میں بنایا جائے گا۔ مینار کی تعمیر پر کُل لاگت 75لاکھ روپے آئی اور یہ اعلان کیا گیا کہ گورنر مغربی پاکستان محمد موسیٰ خان 21اپریل 1968ءکو ”یومِ اقبال“ کے موقع پر اس کا افتتاح کریں گے، مگر افتتاح سے چند روز قبل ہی اس تقریب کو مؤخر کر دیا گیا کیونکہ 19اپریل کوروسی وزیراعظم الیکسی کوسیجن پاکستان کے دورے پر آنے والے تھے اور حکمران اُن کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھے، اس لئے ان کے پاس اس منصوبے کے افتتاح کے لیے وقت نہیں تھا۔ یہ شاید یہ دنیا کا واحد مینار ہے جو کسی قرارداد کی یاد کے طور پر تعمیر کیا گیا ہو۔
تعمیر کی تفصیلات
مینار کی تعمیر میں استعمال ہونے والا بیشتر سامان پاکستانی ہے۔ سنگِ سُرخ اور سنگِ مرمر ضلع ہزارہ اور سوات سے حاصل کیا گیا ہے۔ مینار پاکستان18ایکڑ رقبے پر محیط ہےاوراس کی بلندی 196فٹ6انچ ہے۔ مینار کو 180فٹ تک لوہے اور کنکریٹ سے تعمیر کیا گیا ہے جبکہ باقی ساڑھے16فٹ میں اسٹین لیس اسٹیل کا ایک گنبد بنایا گیا ہے، جس سے سورج کی روشنی منعکس ہوکر ماحول کو روشن کرتی ہے۔ یہ مینار ہائپربولا ڈیزائن میں تعمیر کیا گیا ہے، اس ڈیزائن میں عمارت کی چوڑائی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔ اس مینار میں5گیلریاں اور 20منزلیں ہیں۔ پہلی گیلری 30فٹ کی اُونچائی پر ہے۔ مینار پر جانے کے لیے334سیڑھیاں ہیں جبکہ یہاں لفٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔ تعمیراتی سامان بھی اس انداز میں استعمال کیا گیا ہے کہ یہ بذاتِ خود جدوجہد آزادی کی داستان بیان کرتا ہے۔
اس کے ابتدائی چبوترے کی تعمیر کھردرے پتھروں سے کی گئی ہے، جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پاکستان کس طرح بے سروسامانی کے عالم میں کٹھن مراحل طے کر کے حاصل کیا گیا تھا۔ مینار کے پہلے حصے میں جو برآمدوں والے گول ہال کی شکل میں ہے، اس کے گرد گولائی میں پھول کی پتیاں بنی ہوئی ہیں۔ یہاں سات فٹ لمبی اور دو فٹ چوڑی سنگ مرمر کی سلوں پر خط نسخ میں اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام اور قرآن مجید کی مختلف آیات درج ہیں۔ اس کے علاوہ محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے اقوال اور پاکستان کی آزادی کی مختصر تاریخ کندہ ہے۔ اس کے علاوہ قرارداد پاکستان کا مکمل متن بھی اردو، بنگالی اور انگریزی زبانوں میں اس کی دیواروں پر کندہ کیا گیا ہے۔ ایک تختی پر قومی ترانہ درج ہے جبکہ صدر دروازے پر ’’مینار پاکستان‘‘ اور ’’اللہ اکبر‘‘ کی تختیاں آویزاں ہیں۔ یہ تمام خطاطی حافظ محمد یوسف سدیدی، صوفی خورشید عالم خورشید رقم، محمد صدمینار پر جو خطاطی کی گئی ہے وہ حافظ محمد یوسف سدیدی، صوفی خورشید عالم، محمد صدیق الماس رقم، ابن پروین رقم اور محمد اقبال کی مرہونِ منت ہے۔
مینار پاکستان کے احاطے میں پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا مزار بھی ہے۔مینار کے اردگرد خوبصورت سبزہ زار، فوارے، راہداریاں اور ایک جھیل بھی موجود ہے۔ جون 1984ء میں ایل ڈی اے نے مینار پاکستان کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ جس کے بعد مینار کے گرد و نواح کو مزید خوبصورت بنانے کیلئے کئی منصوبوں پر عمل کیا گیا۔ پارک میں جھیل کی لمبائی سات سو فٹ تک مزید بڑھا دی گئی۔ جس کے بعد جھیل کی لمبائی چار ہزار فٹ اور چوڑائی ایک سو نوے فٹ ہوگئی۔ بجلی کا بیشتر نظام دس فٹ گہرے تہہ خانے میں رکھا گیا ہے۔