انسان کے جسم سے جان نکلنے کے بعد بھی دماغ کی سرگرمیاں دس منٹ سے زائد وقت تک جاری رہتی ہیں۔
یہ دعویٰ کینیڈا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔ویسٹرن اونٹاریو یونیورسٹی کے محققین کو یہ تجربہ آئی سی یو میں اس وقت ہوا جب ایک شخص کو مردہ قرار دے دیا گیا مگر اس کا دماغ اس کے بعد بھی کام کرتا رہا۔اس کیس میں ڈاکٹر نے دیگر جائزوں جیسے دھڑکن تھم جانا اور پتلیوں کا ردعمل ظاہر نہ کرنا وغیرہ کے بعد مریض کو مردہ قرار دیا، مگر ٹیسٹ سے ثابت ہوا کہ اس کا دماغ بدستور کام کررہا تھا۔درحقیقت دماغی لہریں بالکل اس طرح کام کررہی تھیں جیسے کسی انسان کے گہری نیند کے دوران کرتی ہیں۔تحقیق کے دوران ڈاکٹروں نے دیکھا کہ سنگل دماغی لہر اس وقت بھی حرکت کرتی رہی جب شریانوں کا بلڈ پریشر اور دل کے افعال ختم یا رک چکے تھے۔
تحقیق کے دوران چار میں سے صرف ایک شخص میں طویل وقت تک اس پراسرار دماغی سرگرمی کو دیکھا گیا مگر دیگر میں بھی جسمانی طور پر موت کے بعد چند منٹوں تک دماغی رویہ بالکل مختلف نظر آیا۔جس سے محققین کے خیال میں یہ اسرار بڑھ جاتا ہے کہ دماغ کے ساتھ موت کے بعد کیا ہوتا ہے جس کا اب تک جواب سامنے نہیں آسکا۔محققین کا کہنا تھا کہ وہ اس سرگرمی کی وجہ اب تک نہیں جا سکے ہیں اور یہ تجربہ کسی غلطی کا نتیجہ نہیں تھا کیونکہ تمام آلات بالکل ٹھیک کام کررہے تھے۔اس سے قبل مختلف رپورٹس میں یہ بات سامنے آچکی تھی کہ موت کے بعد دماغ میں ایک منٹ تک کے لیے پراسرار اور بہت زیادہ سرگرمیاں ہوتی ہیں مگر وہ تجربات چوہوں پر کیے گئے تھے۔سائنسدانوں نے تسلیم کیا کہ موت کے بعد جسم اور ذہن پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ اب بھی ان کے لیے کسی معمے سے کم نہیں۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے کینیڈین جرنل آف نیورولوجیکل سائنسز میں شائع ہوئے۔