اسلام آباد(یس اردو نیوز)پی آئی اے 2023 تک دنیا کی ایک ذمہ دار ایئرلائن بن کر ابھرے گی۔’ہم نے اصلاحات شروع کردی ہیں، جہاں کچھ غلط ہورہا تھا اس سے ٹھیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں، پچھلے دور میں پچھلے چیف جسٹس نے از خود نوٹس لے کر پی آئی اے کے مختلف شعبوں کے اندر ڈگری چیک کرنے کا حکم دیا تھا جس پر تصدیق کا عمل شروع ہوا’ وزیر ہوابازی غلام سرورخان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ‘جتنے بھی پائلٹس ہیں، جن لوگوں کے خلاف انکوائری ہوئی، یا جو لوگ ریکروٹ ہوئے یہ سب 2018 سے پہلے کے لوگ ہیں’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ 2018 کے بعد ہم نے پی آئی اے یا ایوی ایشن ڈویژن میں نہ کوئی نئی بھرتی کی ہے اور نہ ہی اس طرح کے کوئی امتحانات لیے ہیں’۔ غلام سرور خان نے کہا کہ ‘پچھلے دو ادوار میں جو کچھ ہوتا رہا ہے، بعض لوگ بین الاقوامی سطح پر اس کے اثرات اور منفی پہلو کی بات کررہے ہیں لیکن ایک مریض کا بچانے کے لیے اس کی سرجری اور کیمو بھی ہوتی ہے’۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہم نے اصلاحات شروع کردی ہیں، جہاں کچھ غلط ہورہا تھا اس سے ٹھیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں، پچھلے دور میں پچھلے چیف جسٹس نے از خود نوٹس لے کر پی آئی اے کے مختلف شعبوں کے اندر ڈگری چیک کرنے کا حکم دیا تھا جس پر تصدیق کا عمل شروع ہوا’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘تصدیق کے اس عمل میں 2019 تک مجموعی طور پر 648 لوگ کیبن کرو 119، کاک پٹ 16، انجینئرنگ 98 اور جنرل ایڈمنسٹریشن کے 415 لوگ تھے’۔ انہوں نے کہا کہ ‘جب پائلٹس کے لائسنسن کی اسکروٹنی شروع کی گئی تو پاکستان میں کمرشل پائلٹس 753 ہیں، غیر ملکی ایئرلائنز میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس کی تعداد 107 اور مجموعی 860 ہیں’۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ‘پی آئی اے میں 450 پائلٹس کام کررہے ہیں، ایئربلو 87 سرین میں 47، شاہین میں 68 تھے، مختلف ایئرلائنز اور فلائنگ کلبز میں 101 کے لگ بھگ پائلٹس کام کرتے ہیں اور مجموعی تعداد 753 ہے’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرینے، سابق شاہین کے 17 اور دیگر85 ہیں’۔ انہوں نے کہا کہ ‘یہ سارے مشتبہ ہیں، 121 پائلٹس ایسے ہیں جن کے فرانزک کرنے کے بعد پتا چلا کہ ان کا ایک پرچہ بوگس تھا اور ان کی جگہ کسی اور نے بیٹھ کر پرچہ دیا، دو بوگس پرچے والے پائلٹس 39، تین بوگس پرچے والے 21، 4 بوگس پرچے والے 15، 5 بوگس والے 11، 6 بوگس پرچے والے 11، 7 بوگس پرچے والے 10 اور 8 بوگس پرچے والے 34 پائلٹس ہیں جبکہ مجموعی پرچے 8 ہوتے ہیں’۔ وزیر ہوابازی نے کہا کہ لائسنس کی بھی اقسام ہوتی ہیں، ایک کمرشل پائلٹس لائسنسن (سی پی ایل) اور دوسرا ایئرلائن ٹرانسپورٹ پائلٹس لائسنس (اے ٹی پی ایل) ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘سی پی ایل کی تعداد 109، اے ٹی پی ایل 153 ہیں، یہ سارے مشکوک لائسنس کے حامل ہیں، ان کی فہرست تمام متعقلہ اداروں کو بھیج دی گئی ہے’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘پی آئی اے کو 141 پائلٹس کی فہرست دی گئی، ایئربلیو کو 9 پائلٹس کی فہرست دی اور کہا کہ یہ مشکوک ہیں لیکن انہوں نے اس تاثر کو رد کیا، اسی طرح سرین کو بھی کہا گیا کہ ان پائلٹس کو پروازوں کی اجازت نہیں دی جائے’۔ غلام سرور خان نے کہا کہ ‘اس عمل میں سول ایوی ایشن کے جو لوگ ملوث تھے اور 5 لوگوں کو معطل کرکے ان کے خلاف انکوائری شروع کردی گئی ہے اور کریمنل انکوائری کے لیے مشورہ کیا جارہا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ آئی ٹی کے بھی چند لوگ ملوث تھے اور ان کی چھان بین کی جارہی ہے اور 3 یا 4 لوگ بیرونی ہیں لیکن متعلقہ اداروں کو ان کے نام بھی دیے گئے ہیں جن کے خلاف انکوائری ہوگی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ’28 پائلٹس ایسے ہیں، جن کی تمام انکوائریز مکمل ہوئی ہیں، ان میں سے 9 پائلٹس نے اعتراف بھی کرلیا ہے، انہیں برطرف کرنا حکومت کا کام ہے جس کے لیے کابینہ سے اجازت لینی ہوگی’۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بتانا ضروری تھا کہ یہ سب کچھ 2018 سے پہلے ہوا، 2010 سے لے کر 2018 تک ہوا، پیپلزپارٹی کے دور میں شروع ہوا اور عبوری حکومت تک ان کے امتحانات ہوئے اور تربیت بھی شروع ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہمارا ایجنڈا پی آئی اے کی ری اسٹرکچرنگ ہے، جعلی ڈگری والے 600 سے زائد ملازمین کو سپریم کورٹ کے حکم پر پہلے ہی نکالا جاچکا ہے اور ادارے نے انہیں فارغ کیا’۔
غلام سرور خان نے کہا کہ ہم نے حکومت میں آنے کے بعد جعلی ڈگری کی بنیاد پر 280 ملازمین کو نکالا ہے اور اب 28 پائلٹس کا کیس کابینہ میں لے کر جارہے ہیں جن کے بارے میں ثابت ہوچکا ہے کہ ان کے پاس جعلی لائسنس تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان پائلٹس کے نہ صرف لائسن منسوخ ہوں گے بلکہ نوکریوں سے جائیں گے اور کریمنل کارروائی بھی ہوگی اور صفائی کا عمل اسی سال ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صفائی کے بعد 2021 کا سال پاکستان کے اداروں کی بہتری کا سال ہوگا اورپی آئی اے 1960، 1970 اور 1980 والی اچھی پی آئی اے ہوگی اور منصوبے کے مطابق 2023 تک 45 طیاروں کی فلیٹ ہوگی جس میں نئے طیارے بھی شامل ہوں گے اور پائلٹس بھی اہل اور تربیت یافتہ ہوں گے۔