counter easy hit

وزارت اعلیٰ کے منصب پر چیف آف جھالاوان کا انتخاب

PML N

PML N

تحریر : شبیر احمد لہڑی
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد، وزیراعظم میاں محمدنوازشریف اورصوبے کی قوم پرست جماعتوں کے درمیان جومری معاہدہ طے ہواتھا ،اس کے روسے اگلے اڑھائی سال کے لیئے پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی صدرچیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ خان زہری وزیراعلیٰ کے منصب پرفائزہوکرصوبائی حکومت کی باگ ڈورسنبھال چکے ہیں،مری معاہدہ ملکی سیاسی وجمہوری تاریخ کاوہ قابل ستائش اورقابل تقلیدعمل ہے ،جس پر فریقین نے خوش اسلوبی اورفراخ دلی سے عملدرآمدکرکے جمہوری روایتوں کاعملی نمونہ پیش کیا، جس پروہ یقینا مبارکبادکے مستحق ہیں ۔یوں تونواب ثناء اللہ خان زہری کی نامزدگی کے اعلان پرپورے صوبے میں جشن کاایک سماںتھامگرچیف آف جھالاوان کے آبائی علاقہ سوراب جوکہ تخت جھالاوان انجیرہ کاتحصیل ہیڈکوارٹرہے ،کے باسیوں کی خوشی قابل دیدتھی ، اہلیان علاقہ تمام ترسیاسی ونظریاتی تعلق سے بالاترہوکرمسّرت وشادمانی کااظہارکررہے تھے ، ان کی شادمانی بلاشبہ درست ہے اس لیئے کہ صوبے کے اعلیٰ منصب پرتخت جھالاوان انجیرہ کے نامورسیاسی وقبائلی خاندان کے معتبرقدآور رہنماء کاانتخا ب ہی علاقہ کے لیئے ایک بہت بڑااعزازہے۔

چیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ خان زہری کے خاندان کی قبائلی وسیاسی حیثیت اوران کی خدمات سے انکارنہیں کیاجاسکتا،زہری قبیلہ کی سربراہی کے زمہ داریاں نبھانے والے زرکزئی خاندان کی عظمت اوران کے ممتازمقام کااعتراف صوبے کے تما م اقوام کے ہاں مسلم ہے یہاںکی تاریخ میںیہ خاندان بلوچ قوم اوراس دھرتی کے لیئے لاوزال خدمات سرانجام دینے کے ایک منفرداعزازکاتسلسل رکھتاہے ،اس قبیلہ کے جری اوربہادرسپوتوں نے مختلف ادوارمیںدھرتی ،قبائلی روایات اوریہاں بسنے والے لوگوں کے حقوق کے لیئے جو قربانیاں دی ہیں ، اہلیان بلوچستان ان کے بھی نہ صرف معترف ہیں بلکہ زہری قبیلہ کے شہیدوں کوبلوچ قوم بلاامتیازمشعل راہ سمجھتی اوران پرفخرکرتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج صوبے کے تمام حلقوں میں نواب ثناء اللہ خان زہری کے وزارت اعلیٰ کے منصب پرمنتخب ہونے کابھرپوراندازمیں خیرمقدم کیاجارہاہے۔

نواب ثناء اللہ خان زہری کے پیش رو ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے جب وزارت اعلیٰ کاقلم دان سنبھالاتوصوبے کی حالات حوصلہ افزاء نہ تھے ،سب سے بڑاچیلنج امن وامان کی تشویشناک صورتحال پرقابوپانے کاتھا،ا س کے علاوہ یہاں کرپشن کی عفریت بے قابوہوچکی تھی،میرٹ کی پامالی اوراداروں کی زبوحالی بھی سنگین مسائل میں سے تھے مگرمتوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے اپنے سیاسی سمجھ بوجھ ،بصیرت ،اخلاص ،سنجیدگی اورانتہائی محنت کے بل بوتے پراڑھائی سالہ مختصر مدت میں جوانقلابی اقدامات اُٹھائے وہ بھی صوبے کی تاریخ میںسنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔انہوںنے میرٹ کی بالادستی اورکرپشن کے خاتمے کے لیئے سب سے زیادہ کام کیاجواس کی حقیقی سیاسی اورعوامی شخصیت کی عکاسی اورایمانداری کامظہرہے۔قطع نظرنظریاتی وسیاسی اختلاف کے ماضی کے ادوارسے موزانہ کرتے ہوئے صوبے کے غیرجانب دار حلقے ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کے دوراقتداراوران کی کارکردگی کوبہترین الفاظ سے سراہتے ہیں جوان کی مثبت طرزحکمرانی کااعتراف ہے۔

ان ہی حوصلہ افزاء اقدامات کے سلسلے کوآگے بڑھانے کے عزم کا نواب ثناء اللہ خان زہری بھی اظہارکرچکے ہیں ،حلف برداری کے موقع پراپنے ابتدائی خطاب میں انہوں نے جس اندازمیں اپنے وژن اورایجنڈے کاتذکرہ کیااسے یہاںکے سیاسی حلقوں میں سراہاگیااوران کی مدبرانہ سوچ کے تناظرمیں صوبے کے حالات میں مزیدبہتری کی توقع کی جارہی ہے گوںکہ بلوچستان کو اپنے مخصوص جغرافیائی حیثیت کے باعث بین الاقوامی اہمیت حاصل ہے ،عالمی قوتوں کی نظریں اورمفادات وابسطہ ہونے کی وجہ سے یہاں حالات کی خرابی میں ان کاہاتھ کارفرماہوتاہے اس حوالے سے نئے وزیراعلیٰ کومختلف پہلوکے چیلنجزکاسامناہوگاخصوصاً امن وامان کی بحالی پرتوجہ اولین ترجیح ہوگی لیکن ساتھ ساتھ انہیں صوبے کے پسماندگی کے دیگروجوہات کابھی جائزہ لیناہوگاجس کے سبب یہاں احساس محرومی دن بدن بڑھتی جارہی ہے ،ان میں سرفہرست نظراندازعلاقوں کے دیرینہ مسائل اوران کی جانب عدم توجہی شامل ہے ،یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ نظراندازاورپسماندہ علاقوں میں بدامنی سب سے زیادہ سراٹھاچکی ہے ،جویہاں کے باسیوں کے ساتھ ناانصافی اورانہیںپس پشت ڈالنے کانتیجہ ہے،صوبائی بجٹ سمیت دیگرخصوصی فنڈزمیں ایسے علاقوںکوترجیح دینی ہوگی تاکہ یہاںپرپیداہونے والی احساس محرومی کاازالہ ہواوران علاقوںکے لوگ بھی اپنے حقوق کومحفوظ تصورکرسکیں اوران کااعتمادبحال ہو۔

اس سلسلے میں مذکورہ علاقوں سے منتخب نمائندوں کواس پربات پرقائل کرناہوگاکہ اب مزید ٹھیکوں میں بھاری کمیشن لینے سے یہاں کے عوام کی بے چینی اورمایوسیوں میں اضافہ ہوجائے گاجس کی صوبے کے موجودہ حالات کسی بھی صورت متحمل نہیں ،ماضی کے نطراندازعلاقوں کی ترقی کے لیئے خصوصی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں صوبے کے دیگرعلاقوں کے برابرلایاجاسکے ،وہاں کے نوجوان طبقہ پرخصوصی توجہ دینی ہوگی جواپنے علاقوں سے تسلسل سے منتخب ہوکراقتدارپربراجمان ہونے والے نمائندوں کے کرپشن اوربدعنوانیوں سے نالاں اورمایوس ہوچکے ہیں،ا نہیں باورکراناہے کہ ریاست اورحقیقی سیاسی رہنماء انہیں ان کے حقوق دلانے میں مخلص ہیں، اس حوالے سے ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کی پالیسیاں اوراقدامات سے کسی حدتک موثرواقع ہوئی ہیںجن کی روشنی میں کام کرنامزیدآسان ہوسکتاہے

نواب ثناء اللہ خان زہری جواس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی صدربھی ہیں اوران کی کاوشوں سے پارٹی صوبے کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بن چکی ہے ،اس کے ساتھ وزارت اعلیٰ کی اہم زمہ داری یقینا صوبے کے تمام علاقوںپر یکساں بنیادوں پران کی توجہ مرکوزہوگی ،اور اس میں دورائے نہیں کہ نواب صاحب اپنی سیاسی بصیرت ،دیرینہ تجربہ اورمخلصانہ سوچ کی بدولت اس کی بھرپورصلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ صوبے کے تمام علاقوں کوبلاامتیازترقی اورخوشحالی کے شاہراہ پرگامزن کرسکے،مگرسوراب جوکہ چیف آف جھالاون کے آبائی علاقہ انجیرہ کاسرکاری ہیڈکوارٹراورنواب ثناء اللہ خان زہری کے چاہنے والوں کامرکزہے ،یہاں کے مخصوص قبائلی وسیاسی ماحول میں چیف آف جھالاوان کے خاندان کو جو قدرومنزلت حاصل ہے وہ کسی اورکونصیب نہیں،گوکہ ماضی میںبھی علاقہ کی ترقی اوریہاں کے عوام کے فلاح وبہبودکے لیئے نواب ثناء اللہ خان زہری کابہت اہم کرداررہاہے،انہوں نے اپنے پچھلے وزارتوں کے ادوارمیں یہاںپرضرورت کے حامل کئی منصوبوں کے لیئے فنڈزمختص کرکے انہیں پائے تکمیل تک پہنچائے ،جس کی ثمرات سے آج سوراب کے لوگ مستفیدہورہے ہیں۔

اب جبکہ چیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ خان زہری صوبے کے سب سے بڑے عہدے پرفائزہوچکے ہیں اس لیئے بالعموم پورے صوبہ بلخصوص اہلیان سورا ب کی توقعات سب سے زیادہ ان سے وابسطہ ہیں کہ اب سوراب کے دیرینہ مسائل کی جانب ترجیحی بنیادوں پرتوجہ دی جائے گی جن میں سرفہرست سوراب کوضلع بنانے کے وعدے کی تکمیل ہے ، تحصیل سوراب جس کارقبہ نہ صرف وسیع ہے بلکہ اس کی آبادی بھی انتہائی تیزی سے بڑھ چکی ہے ، ملحقہ دیہی علاقے دوردرازہونے ہونے کے باعث انتظامی حوالے سے دشواریوںکاسامناہیںجبکہ سب سے زیادہ مصائب یہاں کے لوگوں کوجوایک معمولی کام کے لیئے بھی سینکڑوں کلومیٹرکی مسافت طے کرکے قلات جانے پرمجبورہیں،قومی شناختی کارڈکے حصول کی مثال لیجئے ،اس وقت ملک کے دیگرحصوں میں یونین کونسل کے سطح پربھی ناداراکے سنٹرزقائم کئے جاچکے ہیں تاکہ لوگوں کے شناختی کارڈ کے بنوانے میں دشواریوں کاسامناکرنانہ پڑے مگر تحصیل سوراب جو اس وقت ضلع قلات کاروباری اورسیاسی حوالے سے مصروف ترین مرکزاورآبادی کے لحاظ سے گنجان ترین تحصیل شمارہوتاہے ، مگر تاحال یہاں نادراسنٹربھی موجودنہیں ،سوراب سٹی اورملحقہ علاقوں گدر،مولی ،جیوا،ماراپ ،شہدازئی ،لاکھوریان ،آڑچنو،حاجیکہ ،چھڈ،خل بھٹ ،چروک ،گندان کے رہائشی قومی شناختی کارڈکے حصول کے لیئے سینکڑوں کلومیٹرکی مسافت طے کرکے قلات جانے پرمجبورہیںجس سے نہ صرف انہیں کثیرپیسہ خرچ کرناپڑتاہے بلکہ ان کاوقت بھی ضائع ہورہاہے ،طویل فاصلہ کی وجہ سے اکثرقلات پہنچتے پہنچتے دفتری وقت بھی ختم ہوچکاہوتاہے مجبوراً وہ خالی ہاتھ واپس لوٹ جاتے ہیں۔

سوراب میں حصول تعلیم کارجحان حوصلہ افزاء ہے ،یہاں کے باشعورلوگ اس کی اہمیت سے بخوبی واقف اوراپنے نئے نسل کواس زیورسے آراستہ کرنے کے لیئے سنجیدہ اورکوشاں رہتے ہیں،مگرحکومت کی جانب سے سنجیدگی اوراقدامات کااندازہ کئی عرصوں سے تکمیل کے منتطرگورنمنٹ گرلزاوربوائزکالجز کی زیرتعمیرعمارت سے لگایاجاسکتاہے ،مذکورہ عمارت کی عدم تکمیل کی وجہ سے کالج کی اپ گریڈیشن بھی التواکاشکارہےجس کے باعث سالانہ سینکڑوں طلبہ وطالبات انٹرکرنے کے بعدتعلیم کے سلسلے کوخیرآبادکہنے پرمجبورہیں،مذکورہ عمارت کی تعمیراوردونوں انٹرکالجزکوڈگری کادرجہ دینا سوراب کے عوام کادیرینہ مطالبہ اوروقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے ۔سوراب شہراورنواحی علاقوں میں قلت آب سنگین مسئلہ بن چکاہے،مکین بوندبوندکے لیئے ترس رہے ہیں جبکہ اکثررہائشی قلت آب کے ہاتھوں نقل مکانی پرمجبور ہوچکے ہیں اس وقت سوراب سٹی سمیت ملحقہ دیہی علاقوں گدر،مبارک زئی ،میرخانزئی مولی ،لاکھوریاں اورجیواکے رہائشیوں کوپینے کے پانی کے حصول میں شدیدمشکلات کاسامناہے

موجودہ بحران کابنیادی سبب گزشتہ ادوارمیں حلقے سے منتخب عوامی نمائندوں کی ناقص پالیسیاں ،اجتماعی منصوبوں میں عدم دلچسپی اورآب نوشی کے مدمیں مختص خطیرفنڈزمیں ریکارڈکرپشن ہے جس کی سزاء یہاں کے مکین آج پانی کے شدیدبحران کی صورت میں بھگتنے پرمجبورہیں،کئی علاقوں میں نوبت مکینوں کی نقل مکانی تک پہنچ چکی ہے حالانکہ گزشتہ دورحکومت میںمذکورہ علاقوں کے نام پرسب سے زیادہ فنڈزفراہمی آب نوشی کے مدمیں مختص کئے گئے مگرزبانی کلامی کروڑوں روپے مخصوص ٹھیکداروںکے زریعے منظورنظرافرادمیں ترقیاتی منصوبوں کے نام پرسیاسی رشوت کے طورپربانٹنے کے باعث خردبردکے نذرہوگئے ،نتیجتاً آج ان میں سے کوئی ایک بھی اسکیم گرائونڈ پر موجود نہیں، او رقلت آب کابحران ہولناک صورتحال اختیارکرتاجارہاہے۔مذکورہ بالامسائل کے علاوہ اکلوتے سرکاری ہسپتال میں سہولیات کی عدم دستیابی،سڑکوں کی زبوحالی ،بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی تشویشناک شرح اورعلاقہ میں زیرزمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کوکنٹرول کرنے کے لیئے منصوبہ بندی کافقدان وہ توجہ طلب مسائل ہیں جن کے سلسلے میں اہلیان سوراب وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ خان زہری کی جانب سے خصوصی اقدامات کیئے جانے کے حوالے سے پرامیدہیں۔

Shabir Lehri

Shabir Lehri

تحریر : شبیر احمد لہڑی