تحریر : واٹسن سلیم گل
اس سال بھی پاکستان کا جشن آزادی پوری دنیا میں نہایت جوش و خروش سے منایا گیا۔ پوری قوم کے ساتھ مسیحی قوم نے بھی آزادی کے اس دن کو نہ صرف پاکستان بلکہ یورپ، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا میں زبردست طریقے سے منایا۔ اتوار کا دن تھا تمام چرچز میں پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لئے خصوصی عبادات کی گیئں۔ ہالینڈ میں دی لیوینگ اسٹون اردو چرچ کی کلیسیا نے پاکستان کے جھنڈے کے رنگ کے لباس پہن کرچرچ میں شرکت کی۔ اس پروگرام کی پلانینگ چرچ کمیٹی کے رکن بوبی بوب نے بہت عمدہ طریقے سے کی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان کی آزادی کے دن کے حوالے سے پروگرام بھی ترتیب دیے گئے۔ 14 اگست کو پاکستان کے مسیحیوں نے جس جزبے کے ساتھ منایا اس کے برعکس 11 اگست کو پاکستانی مسیحیوں نے یوم اقلیت پر نہایت مایوسی کا اظہار کیا۔ اور اس دن سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ مجھے سمجھ نہی آئ کہ جب ہم سب پاکستانی جشن آزادی کو متحد ہو کر مناتے ہیں اوراس سے ماحول میں یکجہتی اور یگانگت کی فضا قائم ہوتی ہے تو پھر اقلیتوں کو کیوں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا۔
مجھے سمجھ نہی آئ کہ ہم نے جشن آزادی منانے سے محض تین دن قبل یوم اقلیت منانے کا فیصلہ کیوں کیا۔ اس بات میں بھی ابہام ہے کہ کیا یہ دن اقلیتوں کے مشورے سے اور ان کی منشاء سے منایا جانے لگا؟۔ کیوں کہ اقلیتیں اپنے آپ کو پاکستانی کہلوانا زیادہ پسند کرتی ہیں نہ کہ اقلیت۔ اور ان کے لئے 14 اگست کی زیادہ اہمیت ہے نہ کہ 11 اگست کو منانے کی۔ سوال یہ ہے کہ 11 اگست کو یوم اقلیت منانے کی منطق کیا ہے۔ بلکہ مجھ سمیت پاکستان کے بہت سے مسیحی یہ سمجھتے ہیں کہ اس دن کو منانا بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمودات کے ساتھ مزاق ہے۔ قائد اعظم نے 11 اگست 1947 کوپاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں اپنی تقریر میں فرمایا کہ مزہب ہر شخص کا نجی معاملہ ہے اور ریاست کا اس سے کوئ تعلق نہی ہے۔
ہم اگر قائد اعظم کی تقریر کہ اقلیتوں کے حوالے سے ادا کئے جانے والے جملوں کو ایک طرف رکھ کر صرف اس حصے پر بات کریں تو بہت سے مزہبی حلقے اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ قائد اعظم نے کبھی بھی اس طرح کے الفاظ استعمال نہی کئے۔ وہ مزہبی حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ قائداعظم پاکستان کو خالص اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کی تخلیق کے حوالے سے تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس وقت کے ہندوستان کی تمام اسلامی مزہبی جماعتیں بشمول جمعیت علمائے ہند اور جماعت اسلامی ہند محمد علی جناح کی زندگی پر زبردست تنقید کرتے تھے۔
قائد کی 11 اگست کی اس تقریر کے چند گواہ ابھی بھی زندہ ہیں جن میں کراچی کی ایک 83 سالہ خاتون صفیہ خیری بھی ہیں جنہوں نے اس تقریر کو مہمانوں کی گیلری میں بیٹھ کر سُنا تھا۔ اس تقریر کے گواہوں میں اس وقت کے ریڈیوپاکستان کے چند لوگ آج بھی موجود ہیں جن میں ایک پروگرام ڈائریکٹر ہیں جو فرماتے ہیں کہ قائد اعظم کی یہ تقریر 1977 تک محفوظ تھی۔ اور اس تقریر میں سے چند حصے جنرل ضیا کے دور میں حزف کئے گئے ۔ یہ تقریر ریڈیوپاکستان کے ریکارڈ میں محفوظ تھی اور پھر شالیمار ریکارڈینگ والوں کے پاس بھی موجود ہے۔ آل انڈیا ریڈیو کے پاس قائد اعظم کی تمام تقریروں کا ریکارڈ محفوظ ہے۔
پاکستان براڈ کاسٹینگ کارپوریشن کے سابق ڈائرکٹر جنرل مرتضی سولنگی نے آل انڈیا ریڈیو سے بھی اس تقریر کے ریکارڈ کے حوالے سے بات چیت کی مگر ابھی تک بھارت کی حکومت اس تقریر کو پاکستان کے حوالے کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔ 2005 میں ایل کے ایڈوانی نے پاکستان کے دورے کے دوران اسی تقریر کا حوالہ دے کر قائد اعظم کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ جس کے بعد بی جے پی نے ان کے خلاف ایسا محاز کھڑا کیا کہ ایڈوانی کو بی جے پی کی قیادت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ ایڈوانی نے قائد اعظم کو مسلمانوں اور دیگر مزاہب کے درمیان سفیر قرار دیا تھا۔
دنیا میں قومیں اپنے لیڈرز کی تقاریر اور دستاویز صدیوں سمبھالتی ہیں اور ہم نے اپنے لیڈر کی تقریر کی چند سال تک حفاظت نہ کی۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر قائد اعظم نے 11 اگست کو اقلیتوں کے حوالے سے یہ کچھ نہی کہا تھا تو اقلیتوں کو 11 اگست پر یوم اقلیت کا لولی پاپ کیوں ؟۔ اور اگر قائد نے 11 اگست کو اپنی تقریر میں اقلیتوں کو برابری کے حقوق دئے ہیں تو پھر ان پر عمل درآمد کیوں نہی ؟۔ ان دونوں صورتوں میں نقصان اقلیتوں کا ہو رہا ہے۔ پہلے مسیحیوں کی بستیوں کو الگ کر دیا گیا۔ پھر مسیحیوں کو معاشرے سے الگ کر دیا گیا پھر ہمیں انتخابی نظام سے الگ کر دیا گیا اور اب یوم پاکستان سے بھی الگ کر کہ یوم اقلیت کے زریعے ہمیں باقی قوم سے پیچھے کر دیا گیا۔
پاکستان میں صرف اقلیت ہے جن کو اپنے حقیقی نمایندے چُننے کا بھی حق نہی ہے۔ پاکستان کے جمہوری نظام میں ہمارے سرو پر اقلیتی نمایندوں کی شکل میں آمر ہیں مُسلط کردئے ہیں۔ جن کو اقلیتوں کے حقوق اور انصاف سے کوئ لینا دینا نہی ہے کیونکہ ان کو اسمبلیوں میں اقلیتوں کے ووٹ نہی بلکہ ان کے آقاؤں کی آشرباد پہنچاتی ہے۔ اسی لئے یہ 14 اگست کے بجایے یوم اقلیت منانے پر زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ مجھے کوئ ایک وجہ بتائ جائے کہ ہم 11 اگست کو یوم اقلیت منایئں؟۔ کیا 11 اگست کو اقلیتوں کو چھٹی ہوتی ہے؟۔ کیا یوم اقلیت پر اقلیتوں کو بونس دیا جاتا ہے؟۔ کیا اس دن مسیحوں کو برابری کے حقوق مل جاتے ہیں۔
میں نے اس دن جتنے بھی ٹی وی ٹالک شوز دیکھے ان میں پاکستان کے تمام معروف تجزیہ نگار، مفکر، دانشور، صحافی سب ایک بات سے متفق تھے اور اعتراف کر رہے تھے کہ ہم نے اپنی اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہی کیا۔ مگر حیرت انگیز طور پر ہمارے مسیحی پارلیمنٹ ممبرز جو کہ حکومت کا حصہ ہیں اور ان کے دوست کچھ مسیحی مزہبی راہنما جن کا تعلق نواز لیگ سے ہے وہ یوم اقلیت پر اقلیتوں کے اسپورٹس کے مقابلے کرواتے نظر آئے۔
یعنی اب کھیلوں میں بھی اکثریتی اور اقلیتی تفریق ہوگئ۔ یہ کثر رہ گئ تھی۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر قائد کی تقریر کو سامنے لا کر اور اقلیتوں کو تمام حقوق دے بھی دیں تب بھی ہمیں مل کر صرف یوم آزادی منانا چاہئے ۔ کیونکہ ہم پاکستانی ہیں اور ہمیں برابر کا پاکستانی سمجھا جانا چاہے۔
تحریر : واٹسن سلیم گل