تحریر: طارق حسین بٹ، چیرمین پیپلز ادبی فورم
وہ لوگ جو اس خیال کے حامی تھے کہ سیکولرازم بھارتی سیاست میں طاقتور عنصر کی حیثیت سے سامنے آئے گا اور اس کی بقا کا ضامن بنے گا انھیں تمام بھارتی حکومتوں کے مسلسل غیر منصفانہ رویوں سے مایوسی ہوئی ہے ۔ انھیں یقین تھا کہ بھارت کے اندر تمام اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ہو گی جس سے بھارت مزید مضبوط ہو کر سامنے آئے گا لیکن زمینی حقائق نے اس مفروضے کو غلط ثابت کیا ہے کیونکہ اقلیتوں کے ساتھ جس طرح کا معاندانہ رویہ جاری ہے اس سے بھارتی یکجہتی کو شدید خطرات لا حق ہیں جس کی وجہ سے کئی علیحدہ پسند تحریکیں زور پکر رہی ہیں ۔اس وقت حالت یہ ہے کہ مذہبی مفافرت اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہے جس سے اقلیتیں خود کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہیں۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کی سیکو لر ازم دنیا میں اپنا وجود نہیں رکھتا اور نہ ہی اس پر کسی ریاست کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے لہزا انھوں نے علیحدہ وطن کا مطالبہ کر دیا۔
جمہوریت مذہب کی نفی نہیں کرتی بلکہ اس میں اکثریتی مذہب سے تعلق رکھنے والی جماعت کا کوئی بالغ نظر شخص عوامی حمائت سے ریاست کی بھاگ ڈور سنبھال لیتا ہے۔کیا کبھی ایسے ہوا ہے کہ بھارت میں کسی مسلمان کو ہندوئوں نے اپنے ووٹوں سے اپنا وزیرِ اعظم چنا ہو، یا پاکستان میں کسی ہندو یا عیسائی کو وزارتِ عظمی پیش کی گئی ہو، یا اسرائیل میں کوئی مسلمان وزارتِ عظمی پر متمکن ہوا ہو، یا امریکی ا لیکشن میں کسی مسلمان نے صدارت کا الیکشن جیتا ہو، یا دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت کے دعویدار برطانیہ میں کسی مسلمان کو وزارتِ عظمی پر متمکن ہونے کا اعزاز ھاصل ہوا ہو؟یہ ناممکن ہے کیونکہ مذہب کا جذبہ اس طرح کے خیال کو اذنِ باریابی نہیں دیتا ۔حقیقت صرف مذہبی قوت ہے جس کے لئے کوئی بھی انسان اپنی جان کا نذرانہ دے سکتا ہے۔ اس میں سوال اسلام کے ماننے والوں یا نہ ماننے والواں کا کوئی فرق نہیں ہے بلکہ کسی بھی مذہب میں اپنے مذہب کی خاطر جان کی قربانی دینے کی سوچ اور جذبہ ہمیشہ موجود ہوتا ہے کیونکہ ہر انسان کی نظر میں اس کا مذہب ہی سچا مذہب ہوتا ہے۔
عیسائیت کا المیہ یہی ہے کہ اس نے اسلام کو الہامی مذہب تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا بنی تسلیم کیا ہے ۔وہ اسلام کو سچا مذہب اور رسول للہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سچا نبی ماننے کے منکر ہیں جس سے ہر سال وہ یورپ میں توہینِ رسالت کی گھٹیا حرکات کے سزاوار ہو تے رہتے ہیں۔اپنے مذہب کیلئے قربانی ایک اٹل حقیقت ہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کے اندر جان دینے کا جذبہ دوسرے مذا ہب سے بہت زیادہ ہے جس کا مظاہرہ ہم اکثرو بیشتر دیکھتے رہتے ہیں اور پھر جان دینے کے اسی جذبے کی وجہ سے امریکہ اور اس کے حوا ری اسلام سے خو فزدہ ہیں،در اصل انھیں اس محبت کا صحیح ادراک نہیں ہے جو مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے ۔مذہب کی طاقت کا عالم یہ ہے کہ امریکہ جیسے ماڈرن ملک کا صدر بھی افغانستان کے خلاف لشکر کشی کے وقت صلیبی جنگوں کا نام لیتا ہے اور ساری عیسائی دنیا کو آواز دیتا ہے کہ وہ اسلام کے خلاف اس کی برپا کردہ جنگ میں اس کا ساتھ دیں تا کہ اسلام ک کو شدیدزق پہنچائی جا سکے۔
تمام عیسائی دنیا نے امریکہ کا ساتھ دیا اور بدقسمتی سے چند مسلمان حکومتوں نے بھی ا فغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا کیونکہ ان کے اپنے مفادات امریکی تسلط سے جڑے ہوئے تھے ۔ القاعدہ کے خلاف امریکہ کی جنگ در اصل اسلام کے خلاف جنگ تھی جس میں جارج بش نے عیسائیت اور اسلام کے درمیان ہونے والی مخاصمت میں تاریخی معرکوں کا حوالہ دے کر یہ ثابت کیا کہ دنیامیں اسلام کو ختم کرنے اور اسے محکوم رکھنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور افغا نستان کی جنگ اس کی ابتدا ہے۔اسلام کو شکست دینے کی امریکی خواہش تو پوری نہ ہو سکی کیونکہ امریکہ کو افغان مجاہدین کے ہاتھوں شکست سے ہمکنار ہونا پڑا جس سے اس کی معیشت اور نظامِ زر پر بڑے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اس کی اس گرتی ہوئی مالی پوزیشن کے پیشِ نظر چین ایک نئی قوت بن کر سامنے آیا جس کی معاونت کیلئے پاکستان نے چین کا ساتھ دینے کا عہد کیا۔اسی تناظر میں پاک چین معاشی راہداری کا منصوبہ سامنے آیا جس نے امریکہ ، اسرائیل اور بھارت کی نیندیں حرام کر دیں کیونکہ اس سے آدھی دنیا چین اور پاکستان کی دسترس میں ہو گی اور یوں ان دونوں ممالک کا اتحاد دنیا کی نئی قوت بن کر ابھریگا۔میں اس اتحاد کو امریکہ اور انگلینڈ کے موجودہ اتحاد سے تشببیہ دوں گا۔
سپر پاور تو امریکہ ہے لیکن انگلینڈ امریکہ کا قریبی دوست ہونے کی جہت سے امریکی سپر میسی کے سارے ثمرات سمیٹ رہا ہے۔پاکستان بھی اس مجوزہ معاشی راہداری سے اپنی چینی دوست کی وجہ سے بے شمار ثمرات سمیٹے گا ۔اس راہداری کی کامیابی کے خوف سے بھارت پاکستان کے خلاف دھشت گردانہ کاروائیوں میں تیزی لا رہا ہے اوراس کے حملوں میں شدت آ گئی ہے۔وہ معصوم اور بے گناہ شہریوں پر ہوائی حملے کر کے انھیں موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔بھارت کا سارا زور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی طرف ہے تا کہ اندرونی خلفشار کی وجہ سے پاکستان اس معاشی راہداری سے دستبردار ہو جائے اور یوں بھارت کو عالمی تجارت میں جس خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس سے بھارت بچ جائے لیکن وہ بھول رہا ہے کہ پاک فوج اس معاشی راہداری کی ضا من ہے لہذا س معاشی راہداری نے تعمیر ہو کر رہنا ہے۔،۔
مولا نا ابو الکلام آزاد نے قائدِ اعظم کے خلاف جس زہریلے پرو پیگنڈہ کا سہارا لے کر بھارتی مسلما نوں کو ورغلایا تھا وہ اپنا سحر کھو چکا ہے۔
اب بھارتی مسلمان سیکو لرازم کی مالا جپنے کی بجائے اپنے مذہب کی جانب واپس لوٹ رہے ہیں۔نفرت انگیز اور اور زہر آلود نعروں نے مسلمانو ں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔انھیں دوسرے درجے کا شہری سمجھ کر انھیں جس طرح سے نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھا نہیں ہے۔اسی نفرت نے انھیں یہ ا حساس دلایا ہے کہ وہ ہندستان کے اندر سیکو لر ازم سے نہیں بلکہ اسلام کا نعرہ بلند کر کے ہی محفوظ رہ سکتے ہیں ۔کتنا عجیب لگتا ہے کہ بھارت کی ٥٣٤ ممبران کی اسمبلی (لوک سبھا) میں مسلما نوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ہونا تو یہ چائیے تھا کہ آبادی کے تناسب سے لوک سبھا میں مسلما نوں کی نمائندگی ہوتی اور یوں مسلم ممبران مسلمانوں کے مفادات کے محا فظ بن کر سامنے آتے ۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ صرف اکا دکا مسلمان ہی منتخب ہو تے ہیں کیونکہ کوئی سیاسی جماعت انھیں پارٹی ٹکٹ دینے کیلئے تیار نہیں ہوتی جس سے مسلمانوں کی نمائندگی برائے نام ہے حالانکہ بھارتی پارلیمنٹ کے اندر مسلم ممبران کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہونی چائیے اور اسی لحا ظ سے مسلم وزرا بھی ہونے چائیں لیکن بدقسمتی سے ایسانہیں ہو رہا۔
مسلمانوں کے ساتھ سوتیلے بچوں والا سلوک روا رکھا جا رہا ہے جس سے مسلمانوں کی تشویش میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔مسلمان اگر آبادی کے لحاظ سے ملا زمتوں اور اسمبلی میں نمائندگی کا مطالبہ کرتے ہیں تو انھیں وطن دشمن کہہ کر خاموش کروا دیا جاتا ہے۔١٩٣٦ کے انتخابات میں کانگریس کی فتح کے بعد اسی طرح کے گھٹیا رویے تھے جو علیحدہ ملک کی بنیاد بنے تھے۔اس وقت نہرو رپورٹ نے مسلمانوں کو ایک اکائی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان علیحدگی کی ر اہ پر چل نکلے اور آج ایک دفعہ پھر بھارتی مسلمانوں پر ہر قسم کے دروازے بند کئے جا رہے ہیں جو ان کے دل میں علیحدگی کے بیج بو رہے ہیں کیونکہ جب نا انصافی حدوں کو چھونے لگتی ہے تو پھر متاثرہ فریق کے من میں علیحدگی کی شمع روشن ہوجا تی ہے۔
ماضی میں بھی بڑی کوششیں ہو ئیں کہ کسی طرح سے یہ علیحدگی رک جائے لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا کیونکہ ہندو مسلمانوں کو کسی بھی قسم کے حقوق دینے کیلئے تیار نہیں تھا ۔ مولا نا ابو الکلام آزاد اور ان کے حواریوں کو ہندو نے اپنے شیشے میں اتار کر مسلم لیگ کے سامنے کھڑا کر دیا تھا اور یوں ہندو قیادت سمجھنی لگی تھی کہ ان کی موجودگی میں پاکستان کا قیام ممکن نہیں ہو گا لیکن ایسا نہ ہو سکا بلکہ مسلمانوں نے قائدِ اعظم کی راہنمائی میں پاکستان حاصل کر کے چھوڑا ۔ مولا نا ابو الکلام آزاد اور ان کے ہمنوا ہندوئوں کے خوشنما وعدوں سے دھوکہ کھا گئے۔ہندوئوں کے سارے وعدے نقش بر آب ثابت ہوئے ۔ کہاں گئے برابری کے وہ دعوے جن کے خواب مسلمانو ں کو دکھائے گئے تھے؟اب تو حالت یہ ہے کہ مسلمانوں کا کوئی پر سا نِ حال نہیں اور وہ اپنے ہی ملک میں اجنبی بن کر رہ گئے ہیں۔،۔
تحریر: طارق حسین بٹ، چیرمین پیپلز ادبی فورم