counter easy hit

عیسایوں کی انتہا پسندی اور مسلمان

Extremism

Extremism

تحریر: میرافسر امان
دوسری چیزوں کی طرح فنڈامنٹلسٹ (انتہا پسندی) کی اصطلاع بھی مسلمانوں میں مغرب سے درآمد ہوئی ہے۔ جب مغرب میں کلیسا اور بادشاہ کی کشمکش تھی تو جو لوگ مذہب کی بات کرتے تھے اُن کو فنڈامنٹلسٹ کہا گیا تھا۔ یعنی وہ لوگ جو مذہب پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ مذہب ہی کو راہنما سمجھتے ہیں جب اس کشمکش میں کلیسا ہار گیا اور بادشاہ جیت گیا تو یہ بات طے ہو گئی کہ مذہب کا ملکی معاملات میں کسی قسم کی راہنمائی برداشت نہیں کی جائے گی۔ اب مغرب کا عام معاشرہ عیسائی مذہب کی پابندیوں سے آزاد ہو گیا۔ اور جو بھی فرد کو پسند آیا اس کو قانون بنا دیا گیا۔ اسی سوچ نے عیسائیوں کی بربادی کا سامان کر دیا ۔ عیسائی معاشرہ شتر بے مہار ہو گیا اور اب جتنی بھی مغرب کی تباہی کا سامان ہے وہ اسی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔مغرب کی ترتیب شدہ آکسفورڈ ڈکشنری میں، اُس وقت سے انتہا پسندی کا لفظ عیسایوں کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔جب مسلمان غلامی سے آزاد ہوئے اور اُن کی عام آبادی کے اندر نشاة ثانیہ کی لہر اُٹھی تو یہی انتہا پسندی کا لفظ کا مسلمانوں کے لیے استعمال ہونے لگا۔ اب آپ عیسایوں کی ترتیب شدہ آکسفورڈ ڈکشنری کھول کر دیکھیں لفظ عیسائی ہٹا کر لفظ مسلمان لکھ دیا گیا۔ یعنی جو مسلمان اپنے دین کو اپنا راہنما سمجھتا ہے وہ انتہا پسندہے۔ اسی وجہ سے اسلامی دنیا میں سیاست اور دین کو علیحدہ سمجھنے والے سیکولر حضرات ویسی ہی فرد کی آزادی چاہتے ہیں جیسی عیسایوں نے چاہی تھی ۔وہ بھی اُسی بربادی کے خواہش رکھتے ہیں جس میں عیسائی برباد ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ شاید اسی پر شاعر اسلام علامہ اقبال نے کہا تھا۔
جلال پادشاہی ہو یا جمہوری تماشہ ہو۔
جدا ہودین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔

یاد رہے کہ جب اّول اوّل مسلمان اپنے مذہب پر پابندی سے عمل پیرا تھے۔ یعنی اس کے سیاسی نظریے، جنگی نظریے،بین الاقوامی تعلوقات کے نظریے کی مذہب سے راہنمائی لیتے تھے تو ننانوے سال کے اند راندر اس وقت کی معلوم دنیا کے غالب حصے پر اسلامی حکومت قائم کر دی تھی۔اس کی وجہ وہ حریتِ خیال اور زرین اصول تھے جو اسلام نے وضع کئے تھے۔ اسلام میں بادشاہت کا کوئی وجود نہیں تھا۔ بل کہ اسلام میں خلافت ہے یعنی جمہوریت۔ یہی اسلام اور عیسایت میں بنیادی فرق ہے۔اب بھی مسلمان اگر چاہتے ہیں کہ دنیا میں اِن کو عروج نصیب ہو تو اُن ہی اسلام کے زرین اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہی یہ خواہش پوری ہو سکتی ہے۔ یہ اصول ہمارے قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے اندر اب بھی موجود ہیں اسی لیے مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ قرآن اور سنت کو تھام لو فلاح پا ئو گے۔اس اصولی تجزیے کوذہن میں رکھ کر موجودہ حالات کودیکھیں گے تو صلیبیوں کی مسلمانوں کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کی وجہ سامنے آسکے گی۔عیسائی شروع سے مسلمانوں کے ساتھ انتہا پسندی برت رہے ہیں۔ پہلے سازشوں سے مسلمانوں کو غلام بنایا۔پھر ان کا نظام تعلیم بدلا۔ مشنری انگلش تعلیمی اداروں کے ذریعے مسلمانوں کے حکمران طبقے کے ذہن بدل کر انہیںاپنے جیسے بنایا۔ اب اسلامی دنیا میں دیسی انگریز حکومت کر رہے ہیں جو مسلمانوں کی تباہی کے ذمہ وار ہیں۔

عیسایوں نے اپنے اپنے غلام اسلامی ملکوں میں پہلے انتہا پسندی مکینیکل طریقے سے استعمال کی ۔ مسلمانوں کی آزادی کے بعداب گھل کر استعمال کر رہے ہیں۔کیا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں چارلی ایبڈو کی گستاخی اور توہین انتہا پسندی نہیں؟ کیا اس رسالے میں اس توہین کو دوبارہ شائع کر کے ہزاروں کاپیوں سے لاکھوںمیں بڑھا کر دوبارہ توہین نہیں کی گئی؟ پھر اس توہین کی حمایت میں چالیس ملکوں کے صلیبی حکمرانوں نے ریلی نکال کر قبیح حرکت کی جو انتہا پسندی نہیں تو کیا ہے؟ان چالیس ملکوں کی حمایت کے بعد فرانس میں ١٢ دنوں میں مسلمانوں پر ١١٦ حملے ہوئے۔مسلمان مرد خواتین پر تشدد کیا گیا۔ایک مراکشی مسلمان شہید اور ١٣ دوسرے زخمی ہوئے۔٢٨ مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ ان مجرمانہ کاروائیوں پر کسی بھی انتہا پسند عیسائی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ جس سے فرانسیی اخبار دی لوکل نے انکشاف کیا کہ اس سے فرانس میں مسلمانوں پر حملوں میں تیزی آ گئی ہے۔ فرانسیسی حکومت کے کہنے پر گوگل اور ایپل پرچارلی ایبڈو کو آن لائن لانچ کرا دیا گیا۔ یہ سب انتہا پسندی ہے۔اس انتہا پسندی کے خلاف اور اپنے پیارے پیغمبرۖ کے ساتھ محبت کے لیے مسلمان ملکوں میں پر امن احتجاج جاری ہے۔ترکی نے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کر دیا اور کہا کہ تک معافی نہیں مانگی جائے گی فرنسیسی سفیر کو نہیں آنے دیں گے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ قراداد پاس کی۔

اراکین نے مارچ بھی کیا۔پورے پاکستان میں احتجاج جاری ہے۔ ٢٥ جنوری کو جماعت اسلامی نے کراچی یونیورسٹی روڈ حسن اسکوار میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی زیر قیادت شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملین مارچ کا اعلان کیا ہے۔چیچنا میں ١٠ لاکھ مسلمانوں نے ریلی نکال کر احتجاج ریکارڈ کرایا تاریخ میں پہلے ایسا احتجاج نہیں ہوا۔ صدر پوٹن نے روسی اخبارات سے کہا ہے کوئی بھی چارلی ایبڈو رسالے کے توہین آمیزخاکے ریپرنٹ نہ کریں۔ انہوں نے مغرب کے خلاف مسلمانوں کی حمایت کر کے ان کے دل جیت لیے۔ روس کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ جلد ہی صدارتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی جائے گی کہ کسی بھی مذہب کی توہین کا پہلو رکھنے والی تحریروں، تصاویر یا ویڈیو پر پابندی ہو گی۔ مسلمان ایسی ہی قانون سازی کے لیے اقوام متحدہ کو بھی کہتے ہیں جو دنیا میں چھوٹے چھوٹے معاملات پر تونوٹس لیتی ہے مگر ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں توہین کی گئی اس پر وہ خاموش ہے۔یہ پوری دنیا کی نمائندگی نہیں بل کہ سرا سر جانبداری ہے۔ اس کو اس رویہ سے اجتناب کرنا ہو گا۔ ورنہ مسلمان اس سے علیحدگی اختیار کر کے٥٦ مسلمان ملکوں کی اقوام متحدہ بنانے میں حق بجانب ہونگے۔ ایران میں بھی گستاخ فرانسیسی رسالے کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا گیا ۔فرانس مردہ باد کے نعرے لگائے اور کہا چارلی ایبڈو رسالے کے لیے صرف موت ہے۔ فلسطینی شہر غزہ میں بھی فرنچ کلچر سینٹر پر ہزاروںفلسطینیوں نے احتجاج کرتے ہوئے فرانسیسی حکومت کی مذمت کی۔یمن، صنعامیں بھی ہزاروں لوگوں نے فرانسیسی سفارت خانے کے سامنے چارلی ایبڈو اور فرانسیسی حکومت کے خلا ف مظاہرہ کیا۔صلیبیوں نے اس سے قبل سلمان رشدی ملعون اور تسلیمہ نسرین جیسے شاتمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرداروں کو تراشا تھا۔ جس کے ذریعے مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو تکلیف پہنچائی ۔ اب کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ مسلمان ملکوں کو اس کا جلد از جلد سدباب کرنا چاہیے۔ پاکستان کی تحریک پرعالمی اسلامی پارلیمانی نے اجلاس میں قراداد منظور کی۔اُدھر او آئی سی کے سربراہ عیاض مدنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ فرانسیسی میگزین کے خلاف عالمی عدالت میں جائیں گے۔ صلیبیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ انہوں نے مسلمانوں کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کی شان میں گستاخی کی ہے۔ اس کے لیے اس کے رد عمل کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔

Mer Officer Aman

Mer Officer Aman

تحریر: میرافسر امان
mirafsaraman@gmail.com