تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ
خدائے سخن محمد تقی المعروف میر تقی میر اردو کے عظیم شاعر تھے. اردو شاعری میں میر تقی میر کا مقام بہت اونچا ہے ۔ میر تقی میر کا تصور ،زندگی کے بارے میں بڑا واضح ہے کہ ان کا زندگی کی بارے میں نقطہ نظر حزنیہ تھا۔ حزن ایک ایسے غم کا نام ہے جو اپنے اندر تفکر اورتخلیقی صلاحیتیں بھی رکھتا ہے۔ یہ غم ذاتی مقاصد اور ذاتی اغراض کا پرتو نہیں رکھتا۔ اس غم میں تو سوچ ، غور و فکر اور تفکر کو دخل ہے۔ میر کے متعلق یہ کہنا بھی درست نہیں کی میر قتوطی شاعر ہیں یا محض یاسیت کا شکار ہیں۔ محض یاس کا شاعر ہونا کوئی بڑی بات نہیں، اصل بات تو یہ ہے کی انسان یاس و غم کا شکار ہونے کے باوجود زندگی سے نباہ کیسے کرتا ہے۔ یہی نباہ اس کا تصور زندگی کی تشکیل دیتا ہے۔ میر کا تصور ِ زندگی مایوس کن نہیں صرف اس میں غم و الم کا ذکر بہت زیادہ ہے۔ مگر یہ غم و الم ہمیں زندگی سے نفرت نہیں سکھاتا بلکہ زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کر تا ہے۔ اس میں زندگی کی بھرپور توانائی کا احساس ہوتا ہے۔
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوا ن کیا
چشم رہتی ہے اب پر آب بہت
دل کو میر ے ہے اضطرا ب بہت
متصل روتے رہیے تو بجھے آتش دل
ایک دو اشک تو اور آگ لگا دیتے ہیں
میر کا تصور غم تخیلی اور فکری ہے۔ یہ قنوطیت پیدا نہیں کرتا۔ اس کے ہوتے ہوئے میر کی شاعری میں توازن اور ٹھہرائو نظر آتا ہے۔ شکستگی کا احساس نہیں ہوتا اور ضبط ، سنجیدگی اور تحمل ملتا ہے۔ وہ غم سے سرشار ہو کر اسے سرور اور نشاط بنا دیتے ہیں۔ مجنوں گورکھپوری ان کے تصورات غم سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔” میر نے غم عشق اور اس کے ساتھ غم زندگی کو ہمارے لیے راحت بنا دیا ہے۔ وہ درد کو ایک سرور اور الم کو ایک نشاط بنا دیتے ہیں۔ میر کے کلام کے مطالعہ سے ہمارے جذبات و خیالات اور ہمارے احساسات و نظریات میں وہ ضبط اور سنجیدگی پیدا ہوتی ہے۔ جس کو صحیح معنوں میں تحمل کہتے ہیں۔
ہر صبح غموں میں شام کی ہے میں
خونبابہ کشی مدام کی ہے میں نے
یہ مہلت کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر
مر مر کے غرض تمام کی ہے میں نے
میر کے ہاں درمندی ان کے فلسفہ غم کا دوسرا نام ہے۔ اگرچہ لفظ فلسفہ انہوں نے استعمال ہی نہیں کیا، مگر اس سے مراد ان کی یہی ہے۔ دردمندی سے مراد زندگی کی تلخ حقیقتوں کا اعتراف و ادراک اور مقدور بھر ان تلخیوں کو دور کرنے کی کوشش کا نام ہے۔ یہ درمندی ان کی زندگی کے تضادات سے جنم لیتی ہیں۔ درمندی کا سرچشمہ دل ہے۔ میر کے یہ اشعار ذہن میں رکھیے:
آبلے کی طرح ٹھیس لگی پھوٹ بہے
درمندی میں کٹی ساری جوانی اپنی
نہ درد مندی سے یہ راہ تم چلے ورنہ
قدم قدم پہ تھی یاں جائے نالہ و فریاد
چشم رہتی ہے اب پرْ آب بہت
دل کو میرے ہے اضطراب بہت
2014میں ریلوے گراونڈ لنڈی کوتل خیبر ایجنسی میں ایک بہت بڑے قبائلی اجتماع میںامیر جماعت اسلامی سراج الحق جوں ہی پنڈال پہنچے تو پورا پندال نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور مرد مومن مرد حق سراج الحق کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اس موقع پر انہیں روایتی قبائلی پگڑی بھی پہنائی گئی۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا تھا کہ خوشحال پاکستان کے لئے پر امن افغانستان ضروری ہے۔افغانستان میں امریکی فوج کے رہنے کے معاہدے پر تحفظات ہیں،اشرف غنی کی طرف سے طالبان اور حزب اسلامی کو مذاکرات کی دعوت کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔قبائلیوںکے نام پر آنے والے پیسے کو حکمران لوٹ رہے ہیں،ایک ایک پائی کا حساب لیں گے،قبائل کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کیا جائے۔ مینار پاکستان میں لاکھوں لوگوں کو جمع کر کے ایک بار پھرتحریک پاکستان کا آغاز کریں گے۔نیا پاکستان نہیں اسلامی پاکستان چاہتے ہیں۔ملک میں ایک نصاب تعلیم رائج کر کے دکھائیں گے۔ اجتماع میں خیبر ایجنسی کے مختلف قبائلی اقوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ سراج الحق نے کہاکہ ہمیں امیدتھی کہ نئی افغان حکومت فوری طورپرامریکہ سے کہے گی کہ وہ افغانستان سے نکل جائے، جب تک افغانستان میں نیٹوافوا ج موجودرہیں گی یہ جگہ سازشوں کامرکزبنی رہے گی ،امریکہ نے ملاعمراورگلبدین حکمت یارکوبلیک لسٹ قراردیاہے افغان حکومت فوری طورپران سے مذاکرات کاآغازکرے۔ افغانستان کے ساتھ ہماری دوستی کے رشتے ہیں۔اس قوم اورمٹی سے ہمیں محبت ہے، ہم برسوںسے لگی آگ کوبجھاناچاہتے ہیں۔ چند ماہ قبل واد ی کیلاش سے 10 افراد اسلام آباد سے لاہور پہنچے جہاں سے انہیں بھارت روانہ ہونا تھا مگر نیازی اڈے کے قریب موٹر سائیکل پر سوار کچھ پولیس اہلکاروںنے ان کا سامان چھین لیا جب یہ لوگ تھانے میں رپورٹ جمع کروانے گئے تو ان کی رپورٹ درج نہیں کی گئی۔
ایسی ہزاروں داستانیں موجودہیں جوتاریخ کا حصہ بناتی گئیں۔ اس سیاسی دوڑنے ہزاروں لوگوں زندگی چھین لی۔ لیکن ابھی تک کسی کی آوازایوان کا دروزہ نہیں کھول سکی۔مبصرین کہتے ہیں کہ جس ملک وقوم کی قسمت کرنے والوں کا یہ حال ہوکہسینیٹ انتخابات میں فاٹا سے سینیٹر بننے کے لیے بولی چالیس کروڑ تک پہنچ گئی دن بدن سینیٹر بننے کے لیے بولی میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔اس حوالے سے پیپلز پار ٹی کے امیدوار اخوند زادہ چٹان کی رپورٹ اخبارات میں شائع ہوئی ہے اور یہ بھی بتایاگیاہے کہ سیاسی قیادت گزشتہ انتخابات کی طرح مل بیٹھ کر ممبران کی خریدوفروخت کررہی ہے۔پاکستانی قوم کی قسمت تونہیں بدلے گی۔بلکہ مختلف انتخابات میں لوٹ کرآنے والوں چند خاندانوں کی چاندی ہوتی رہے گی۔اگران خاندانوں کے سربراہوں کو کوئی مشورہ بھی دے کہ پاکستانی قوم کی قسمت بدلنے کا سوچو تویہ سوال ان کی شان کیخلاف ہوگا۔
بقول۔اویس عاجز
آواز بھی دو تو نہیں لوٹ کے آنے والے
ٹوٹنے والے قیامت کی انا رکھتے ہیں
تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ