لاہور (ویب ڈیسک) ہمارے وہ زمانے جو کب کے خس و خاشاک ہو چکے، ایک سندر سپنے کی مانند بیت چکے۔ اُن میں جو لاہوری سیانے ہوتے تھے وہ کہا کرتے تھے کہ جو بھی لڑکی لاہور آجاتی ہے اُسے پر لگ جاتے ہیں۔ یعنی بے شک وہ چک جھمرہ یا ساہیوال کی ہو جب
نامور کالم نگار مستنصر حسین تارڑ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔وہ لاہور منتقل ہوتی ہے تو اُسے فیشن اور سوہنے پن کے پر لگ جاتے ہیں۔ وہ دل پذیر، دل رُبا اور دل نشیں ہو جاتی ہے۔ میں تذکرہ کر چکا ہوں کہ اداکار پر ان لاہوری کے مطابق یہ شہر برصغیر میں جدید ترین فیشن کا موجد ہوا کرتا تھا، یہاں تک کہ اگر ایک سویر ایک لاہوری لڑکی غلطی سے اپنی دونوں چوٹیوں میں ایک ہی رنگ کے ربن باندھنے کی بجائے ایک سرخ اور ایک نیلا رنگ باندھ لیتی تھی تو راس کماری سے کشمیر تک کی لڑکیاں اپنے بالوں میں الگ الگ رنگوں کے سرخ اور نیلے ربن باندھنے لگتی تھیں۔ کہ لاہور کی لڑکیاں یہ فیشن کرنے لگی ہیں۔آج بھی اگر آپ جائزہ لیں تو بیشتر فیشن تخلیق کرنے والوں کا آبائی شہر لاہور ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ نہ صرف امرتسر، پٹیالہ، جالندھر بلکہ دلّی میں بھی شادی کے موقع پر بیشتر دلہنیں جو خوش نظر اور خوش رنگ لباس زیب تن کرتی ہیں، وہ لاہور کے فیشن ڈیزائنر کے کرشمے ہوتے ہیں۔ امرتسر میں مجھے بتایا گیا کہ وہ لوگ خصوصی طور پر شادی کے ملبوسات کے چناؤ کے لیے لاہور آکر خریداری کرتے ہیں کہ یہاں جتنے بھی فیشن گھر ہیں، جو مرد اور بیشتر خواتین اپنے نام سے اپنے تخلیق کردہ لباسوں کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، ہندوستان میں پوجے جاتے ہیں۔ ہم دور کیوں جائیں، قریب کی بات کریں، میرے بچپن کے اور آج تک کے دوست خاور زمان کی
کزن سارہ زمان نے ’’بریزے‘‘ کے نام سے خواتین کے ملبوسات کا ایک فیشن ہاؤس قائم کیا۔ آج ’’بریزے‘‘ نہ صرف پاکستان بھر میں بلکہ دبئی، لنڈن اور دلّی وغیرہ میں بھی اپنے انوکھے اور نت نئے رنگوں کے ساتھ دھوم مچا رہا ہے۔ ہمارے ہاں جو بھی مہمان ہندوستان سے آتا تھا اس کی پہلی فرمائش ’’بریزے‘‘ ہوتی تھی، کہا جاتا تھا کہ اگر ہندوستان میں آپ کو کسی بڑے افسر کی سفارش درکار ہے تو اس کی بیگم کے لیے ’’بریزے‘‘ کا ایک سوٹ لے جائیے، کام ہو جائے گا۔ اس کی ایک برانچ جب دلّی میں قائم ہوئی تو پہلے دن ہی اُن کا مہینے بھر کا سٹاک ختم ہو گیا اور انہیں ایک خصوصی پرواز کے ذریعے مزید سٹاک پہنچایا گیا۔اگرچہ ہندوستان اپنے کھدّر کی مصنوعات کے حوالے سے بہت شہرت رکھتا ہے لیکن جب کبھی میرا دوست ونود دعا لاہور آتا ہے تو ہمیشہ ’’کھادی‘‘ کا رخ کرتا ہے۔ درجنوں کھدر کے کُرتے خرید کر لے جاتا ہے اور اُس کا کہنا ہے کہ نہ صرف پاکستانی کھدر ہندوستانی کھدر سے کہیں زیادہ دیر پا اور ملائم ہے بلکہ ’’کھادی‘‘ کے ڈیزائن کی خوش ذوقی دور سے پہچانی جاتی ہے۔چنانچہ لاہور آنے والی لڑکی کو اس لیے پر لگ جاتے تھے کہ وہ فیشن کیپٹیل آف انڈیا میں قدم رکھتے ہی یہاں کے ذوق لباس اور ذوق آرائش سے آگاہ ہو کر اپنے آپ کو یوں سنوار لیتی تھی کہ اسے خوبصورتی کے پر لگ جاتے تھے۔ علاوہ ازیں کسی بھی حسن کو قیامت خیز کرنے میں شاید لاہور کے
پانیوں کا بھی اعجاز تھا۔ جیسے پشاور کے پانیوں میں کچھ ایسی تاثیر ہے کہ اگر ایک بوڑھی بے دودھ بھینس کا گوشت بھی اُن میں بھونا جائے تو وہ جاپان کے کو بے بیف سے بھی بڑھ کر ذائقے دار ہو جاتا ہے۔ بے شک اُن جاپانی گائیوں کو ایک خاص خطے کے موسموں میں پالا جاتا ہے۔ اُن کی پیاس بیئر سے بجھائی جاتی ہے اور اس کے باوجود وہ بوڑھی بھینس اور ناکارہ بھینسے جو کبھی بیئر کے کڑوے ذائقے سے آشنا نہیں ہوتے جب پشاور کے پانیوں میں کڑاہیوں پر چڑھتے ہیں تو وہ جنت تاثیر ہو جاتے ہیں۔تو یوں جانیے کہ لاہور کے پانیوں میں بھی حسن کو نکھارنے کی کوئی تاثیر ہے۔ او ر اس کی گواہی وہی لوک گیت دے گا کہ۔ مجھے بتاؤ تو سہی کہ شہر لاہور کے اندر جتنے کنویں ہیں، اُن میں سے کس کے پانی کھارے اور بدذائقہ ہیں اور کن کے پانی میٹھے اور شیریں ہیں تو جان لو کہ جن کنووں سے لاہوری معشوق پانی بھرتے ہیں وہ سب میٹھے پانیوں والے ہیں اور باقی سب کھارے پانیوں کے ہیں۔ ویسے حسن کے نکھار میں لاہور کے شدید موسموں کا بھی تو کچھ حصہ ہے۔موسم گرما میں جب لاہور ایک تندور ہو جاتا ہے تو اُس کی سلگتی کچی مٹی کے ساتھ جتنے بھی چہرے چسپاں ہوتے ہیں، ہولے ہولے دہکنے لگتے ہیں۔ اُن کے رخسار آتش گلاب ہو جاتے ہیں اور آنکھوں میں عشق آتش کے الاؤ روشن ہونے لگتے ہیں۔ جیسے آم کڑی دھوپ اور شدت کی سلگتی گرمی میں پکتا ہے، رسیلا ہوتا ہے، ایسے میں لاہوری لڑکیاں رسیلی اور بیروں کی
مانند پک جاتی ہیں۔سرما کے دن اترتے ہیں، دھوپ مدھم ہو جاتی ہے۔ اُن کے بدن ٹھٹھرنے لگتے ہیں۔ ہونٹ نیلے پڑنے لگتے ہیں تو حسن اپنی نیلاہٹ میں اوج کمال کو پہنچتا ہے۔برساتوں میں یہ لڑکیاں بھیگ بھیگ جاتی ہیں تو اُن کے بدنوں سے پیاسی مٹی پر گرنے والی بارش کی پہلی بوند ایسی مہک اٹھنے لگتی ہے اور تب ’’تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے‘‘ ایسے گیت جنم لیتے ہیں۔اور جب باغ جناح کے بزرگ شجر خزاں کی بستیوں کو کوچ کر جاتے ہیں اور وہ سب بستیاں زرد رنگت میں رنگی ہوتی ہیں تو شہر لاہور کی لڑکیاں، زرد رنگت کی خزاں آلود چینی شہزادیاں ہو جاتی ہیں۔لاہور کے پانیوں اور موسموں میں ایسی تاثیراں ہیں۔ کمال کی تعبیراں ہیں۔ بہت مدت پہلے ایک دوست ہندوستان گئے۔ انہیں ایک شخص نے دلّی کے کسی فٹ پاتھ پر ’’شما کیجیے‘‘ کہہ کر روکا اور پوچھا ’’آپ لاہور کے ہیں؟ ‘‘ میرے دوست کچھ حیرت میں ہو گئے اور کہا ’’آپ کیسے جان گئے ہیں کہ میں لاہور کا ہوں؟ ‘‘ تو اُن صاحب نے کہا ’’آپ کا رنگ روپ لاہور کا ہے۔ دُور سے پہچانے جاتے ہیں‘‘۔لاہور کا یہ سحر انگیز رنگ و روپ خصوصی طور پر یہاں کی لڑکیوں کے چہروں پر درجنوں سورجوں کی مانند دمکتا ہے۔ دور سے دکھائی دیتا ہے حسن کے اس معجزے میں صرف لاہور کے پانیوں کا ہی کمال نہیں، اس کے موسموں کا اعجاز ہی نہیں، اس میں شہر لاہور کے اندرون میں آباد درجنوں قومیتوں اور نسلوں کے اختلاط کا بھی عمل دخل ہے۔ہمیں بالمیک کی ’’رامائن‘‘ میں سُراغ ملتا ہے جب لنکا سےواپسی پر سیتا پر شک کیا گیا اس پر تہمت لگی تو اس نے دریائے راوی کے کنارے ایک کٹیا میں مقیم شود ہر سنت بالمیک کے ہاں بسیرا کیا اور تب وہ ماں بننے والی تھی۔ بچّے سے تھی اور بالمیک کی دعا کے اثر سے اس کے ہاں دو بچے پیدا ہوئے۔ لوہ اور کسو، رام کے بیٹے۔ کسونے قصور کی بنیاد رکھی اور لوہ نے لاہور بسایا۔ تو اہلِ لاہور کے خون میں سیتا کے بیٹوں کی نسل کے خون کے بھی کچھ آثار تو ہوں گے۔ اُن کی دیو داسیوں کے من موہنے چہروں کے کچھ نقشے بھی تو منتقل ہوتے چلے آئے ہوں گے۔ لاہور راجپوت بھٹیوں کا مسکن بھی رہا، راجپوتانہ کے سرخ صحراؤں کے ملاحت بھرے تشنہ حسن کے کچھ تو پر تو کہیں نہ کہیں لاہور کی لڑکیوں کی شکلوں میں عکس تو ہوتے ہوں گے۔جے پال اور آنند پال ایسے جری راجپوت راجوں کی رانیوں کے مکھڑوں کی تھوڑی بہت جھلک تو آج بھی چھب دکھلاتی ہو گی۔ محمود غزنوی کے تُرک بھی بہت سارے لاہور کے اسیر ہو کر یہاں آباد ہو گئے۔ محمود کا ایاز جب برباد شدہ لاہور کا گورنر مقرر ہوا اور اس نے اس شہر کو دوبارہ تعمیر کروایا اور اسے کبھی اپنا غزنی یاد نہ آیا، لاہور کا ہو رہا اور یہیں رنگ محل میں دفن ہوا تو وہ اکیلا تو نہ ہو گا۔ ایران طوران کے بہت سے باشندے بھی اس کے ہمراہ آباد ہوئے ہوں گے۔ اظہارِ تشکر۔ پچھلے دنوں گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ نے شمالی علاقہ جات کے حوالے سے میرے پندرہ سفر ناموں کی تحسین میں نہ صرف مجھے ایک ایوارڈ سے نوازا بلکہ میرے نام کے ایک ایسے ایوارڈ کے اجراء کا اعلان کیا جو گلگت بلتستان کے بارے میں لکھے گئے بہترین سفرنامے اور ڈاکو منٹری پر دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں یوم آزادی کے موقع پر صدر پاکستان نے مجھے اردو ادب کے شعبے میں ستارۂ امتیاز عطا کیا۔ ان دونوں اعزازات نے مجھ سے زیادہ میرے پڑھنے والوں، دوستوں اور کرم فرماؤں کو مسرت سے ہمکنار کیا۔ میں اُن بے شمار خطوں اور پیغاموں کے لیے ’’نئی بات‘‘ کا سہارا لیتا ہوں اور اُن سب کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔