تحریر: شاہ فیصل نعیم
١١ سال کی عمر میں وہ آغوشِ محبت سے محروم ہو گیا ابھی کوئی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ١٤ سال کی عمر میں باپ کا سایہ ِ شفقت بھی سر سے اُٹھ گیا۔ مگر دنیا کو اُس میں ایک عظیم شخص کی جھلک نظر آتی تھی ۔ لوگوں نے اُسے بے پناہ محبتوں سے نوازا۔ اُس نے ١٩٤٤ء میں گورنمنٹ کالج لاہور جسے ایک عظیم درس گاہ کا درجہ حاصل ہے سے بی اے (آنرز) کی ڈگری حاصل کی۔ ١٩٤٨ء میں ایم اے انگلش اور ایم اے فلاسفی کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا ۔ ١٩٥٤ء میں کیمرج یونیورسٹی سے فلاسفی میں پی ایچ ڈی کے بعد دنیا اُسے ڈاکٹر کے نام سے جاننے لگی۔ تشنگیِ علم اُسے لنکن اِن لے آئی جہاں سے ١٩٥٦ ء میں بیرسٹر ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کی۔ ناصرہ اقبال کو آپ کی جیون ساتھی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
٥ اکتوبر ١٩٢٤ء کو علامہ محمد اقبال اور سردار بیگم کے ہاں سیالکوٹ میں ایک بچہ جنم لیتا ہے۔ یتیمی جس کا مقدر ٹھہرتی ہے مگر آج دنیا اُسی بچے کو جاوید اقبال کے نام جانتی ہے۔ آپ نے اپنے کیرئیر کا آغاز لاہور ہائی کورٹ سے بطور ایڈوکیٹ کیابعد میں جج اور ١٩٨٢ء سے ١٩٨٦ ء تک بحیثیتِ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ آپ خدمات انجام دیتے رہے۔١٩٨٦ء سے ١٩٨٩ء تک کا سفر آپ نے سنئیر جسٹس آف سپریم کورٹ آف پاکستان کی حیثیت سے طے کیا۔آپ سینٹ آف پاکستان کے ممبر رہے اس کے علاوہ آپ کو ١٩٦٠ء سے ١٩٦٢ء اور ١٩٧٧ء کو United Nations General Assembly میں پاکستانی کی نمائندگی کا اعزاز حاصل رہا۔ حدود لاز کے حوالے سے اپنی کی خدمات کو ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
آپ قانون دان ہونے کے ساتھ فلاسفر بھی تھے آپ کی تخلیقات کو عوام میں بہت پذیرائی ملی۔ آپ کے نوک ِ قلم سے جو الفاظ ادا ہوئے وہ ہمارے پاس آئیڈیالوجی آف پاکستان، Stray Reflections: A Note-Book of Iqbal،Legacy of Quaid-e-Azam، مئے لالہ فام،زندہ رود،افکارِ اقبال،Pakistan and the Islamic Liberal Movement ، جہان ِجاوید: ڈرامے، افسانے، مقالے،Islam and Pakistan’s Identity،The Concept of State in Islam : A Reassessment،اپنا گریباں چاک (آپ بیتی)اور خطاباتِ اقبال جیسی کتابوں کی شکل میں محفوظ رہیں گے۔
آپ کی خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان نے آپ کو ہلالِ امتیاز جیسے اعزاز سے نوازا۔ علامہ محمد اقبال نے اپنی ایک کتاب کا نام اپنے بیٹے کی مناسبت سے “جاوید نامہ ” رکھا۔ اس کے علاوہ علامہ محمد اقبال کی بہت سے نظمیں ایسی ملتی ہیں جو آپ نے اپنے بیٹے کے لیے لکھی۔ جن کا مقصد نوجوان نسل کی صلاح تھا۔ آپ کی مشہورِ زمانہ نظم جو آپ نے اپنے بیٹے کے نام لکھی جو اس وقت بالِ جبرائیل میں موجود ہے ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ جس کے ہر ہر شعر میں ایک نیا جہاں آباد ہے۔
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر
اُٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر
میں شاخِ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر سے مئی لالہ فام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے !
خودی نا بیچ غریبی میں نام پیدا کر
جاوید اقبا ل کی شکل میں لوگوں کو اقبال نظرآتے تھے۔ مگر آج ٣ اکتوبر ٢٠١٥ ء کو عکسِ اقبال ہم سے رخصت ہو گیا۔ تاریخ آپ کو کبھی فراموش نہیں کر پائے گی۔ آپ کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ آپ کا ہر چاہنے والا دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو غریقِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین!
تحریر: شاہ فیصل نعیم