تحریر: منشاء فریدی
جام غفار جو بقول اُس کے ڈویژن بہاولپور کی سطح پر سی ٹی ڈی پولیس میں تفتیشی افسر ہے اور اُس کا دعوٰی ہے کہ وہ دہشتگردوں کے قلع قمع کے لیئے سر گرم ہے۔ مورخہ 27-02-2016 کو مو صوف نے راقم کو کال کی اور شاید کسی میسج اور ایک کالم ” جناب وزیر اعظم ! ایک نظر ادھر بھی ”کا حوالہ دیا۔ وضاحت میں اُس کا کہنا تھاکہ تم( راقم الحروف) اُن لوگوں کی حمایت میں بول رہے ہو جنہوں نے افغانستان میں جا کر دہشتگردی کی ٹریننگ لی۔ اُس نے مزید کہا کہ ان موضوعات پر لکھ کرتم موت کو دعوت دے رہے ہو۔۔۔۔۔۔آئندہ دہشتگردی کے خلاف تمھاری تحریر نہیں آنی چاہیئے۔ راقم نے جواب میں عرض کیا کہ،،مذہبی و فرقہ وارانہ دہشتگردی نے ملک و قوم کے ساتھ جو کھلواڑ کر رکھا ہے وہ نا قابل برداشت ہے۔
دہشتگردی میں ملوث عناصر کے کیخلاف کارروائی وقت کی ضرورت ہے افغان جہاد سے انتہائی متنفر ہوں۔ اس پر جام غفار خاصا برہم ہوا اور متنبہ کیا کہ سی ٹی ڈی والوں کے مشکوک کردار پر بحث مت کرو ،سچ، مگراس ضمن میں وضاحت کرتا چلوں کہ راقم نے کبھی بھی کسی ادارے کیخلاف نہیں لکھا۔اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کیخلاف لکھا۔ وطن عزیز پاکستان پر دل اور جان نچھاور یہ سوہنی دھرتی جنت نظیر ہے۔
دیس کے دشمنوں کا منہ کالا۔ وطن عزیز کے جانباز سپاہیوں کی ایک ہی للکار دشمن کو عبرتناک شکست سے دو چار کر سکتی ہے۔عالمی سطح پرمسلمہ ریاست پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر دور میں دشمنوں نے مواقع تلاش کیے۔اور موقع ملتے ہی ڈنک مارنے کی کوشش کی ہے۔ براہ راست تو دشمن پاکستان کاری وار سے محفوظ رہا۔ بالواسطہ وار کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہا۔
دشمن نے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کرپٹ افسروں، مخصوص مساجد و مدارس کے شدت پسندملائوں کو خرید کر اپنے مقاصد میں کامیاب رہا۔لیکن سلام ہے حقیقت پسند قلمکاروں اور دانشوروں کو جنہوں نے بر وقت ملکی تحفظ کے لیے اس حرکت پر تنقید کر کے ریاست کا دفاع اور مثبت ویژن کا پر چار کیا۔ راقم نے بھی انھی اصولوں پرچلتے ہوئے باوقار پاکستان کے تحفظ کے لیے لکھا، اور ان عناصر اور اس سسٹم کو کریٹی سائز کیا جو ملکی وقار کے لیے باعث خطرہ اورنقصان کا سبب رہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ راقم تھریٹس کا نشانہ رہا اور حملوں شکاربھی ہوا۔
مورخہ 27-02-2016 کو جام غفار کی کال بھی اسی کا تسلسل ہے۔کیا ان دھمکیوں سے مرعوب ہو کر قلم کو ترک کیا جا سکتا ہے۔ یا اس پاک دھرتی کے تحفظ کی قسم کو توڑا جا سکتا ہے؟۔ہرگزنہیں۔۔۔ وطن عزیز پاکستان کے لیے ہمارے اسلاف نے جو قربانیاں دی ہیں وہ کبھی فراموش نہیں ہو سکتیں۔ہماری فوج کے جوان جو قربانیاںدے رہے ہیں انہیں خراج تحسین پیش کرنا وقت کی ضرورت اورایک ملی و قومی فریضہ ہے۔ دوسری طرف سی ٹی ڈی میںموجود نا اہل اور ذاتی مفادات کے شکار افسروںکی بوگس کارروائیاں بھی قابل مذمت ہیں۔۔۔۔۔!
معروف صحافی سلیم شہزاد شہید ہوا۔۔۔۔۔۔زما ن محسود کو گولیاں مار دی گیئں۔۔۔ حامد میر پر قاتلانہ حملے ہوئے جس میں وہ شدید زخمی ہو ئے۔۔۔۔ رضا رومی کو نشانہ بنایا گیا مگر محفوظ رہے۔۔۔۔اصغر ندیم سید بھی قاتلانا حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے۔۔۔ وجہ کیا تھی۔۔۔؟ محض یہ کہ وہ اُن عناصر پر اس نیت سے تنقید کرتے تھے کہ ملک میں امن قائم ہو۔ وہ دہشتگردی کے خلاف کھل کر اس لیے لکھتے تھے کہ دہشتگردی نے پاکستان اور پاکستانیوں کو ایک کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس شورش میں ہزاروں بے گناہ شہری شہید ہو چکے ہیں۔
اسی طرح ہماری آرمی کے افسران اور جوانوں کو مسلسل شہید کیا جا رہا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دہشتگرد اور سیکورٹی کے اداروں میں موجود کالی بھیڑیں اُن کے خون کی پیاسی ہو گئیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ان مشاہیر کہ نشانہ بنایا گیا۔ آج راقم الحروف بھی اسی کیفیت اور اضطراب کا شکار ہے۔ جان کی امان پائوں تو عرض کروں کہ سی ٹی ڈی پولیس کی جام غفار وغیرہ اینڈ کمپنی اور پنجاب پولیس میں جمیعت مولوی انسپکٹر اشرف قریشی و دیگران، دوسری طرف دہشت گرد راقم کے خون کے پیا سے ہو گے ہیں۔جب بھی اُنھیں موقع ملے گا تو” منشاء فریدی ”قتل کر دیا جائے یا جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہو گا اور سچ کا ایک اور پیام برجو فقیہہ شہر کو للکاررہا ہے امر ہو جائے گا۔
تحریر : منشاء فریدی
چوٹی زیریں، ڈیرہ غازیخان
0333-6493056