‘آسٹریلیا کی سیریز ہر گز آسان نہیں ہو گی۔ اگرچہ بہت کم لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم یہ جیت سکیں گے اور بجا کہ آسٹریلین کنڈیشنز اور ٹیم کی موجودہ فارم ہمارے حق میں نہیں ہیں لیکن ہم اپنا راستہ خود بنائیں گے۔ ہمیں پتا ہے کہ ہم کر سکتے ہیں اور ہم کر لیں گے۔’
یہ بات مصباح نے آسٹریلیا روانگی سے پہلے کہی تھی اور پچھلے تین ہفتوں میں یہ مصباح کا پہلا بیان تھا۔
ان کا دوسرا بیان آج یعنی پیر کو گابا میں میچ کی اختتامی تقریب میں سامنے آیا ‘مجھے خوشی ہے اور اس بات پر فخر ہے کہ میں اس ٹیم پہ یقین رکھتا ہوں۔ پچھلے چھ سال میں ہماری کامیابیوں کی وجہ یہی یقین ہے۔’
تین ماہ پہلے آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو ڈیوڈ رچرڈسن نے لاہور میں یہ کہا تھا کہ ‘مصباح بہت کم گو ہیں۔ وہ ایک جنرل کی طرح بات کرتے ہیں لیکن جب وہ بولتے ہیں تو لوگ سنتے ہیں۔’
عموماً ٹیسٹ کپتانوں کو ان کے ریکارڈز اور اعدادوشمار کی بنیاد پہ یاد رکھا جاتا ہے۔ مگر کرکٹ ان کے مزاج کو یاد رکھتی ہے۔ عمران خان نے انڈیا کو انڈیا میں ہرایا اور انگلینڈ کو انگلینڈ میں۔ کب؟ کیسے اور کتنے مارجن سے، یہ یاد رکھنا ضروری نہیں۔ انگلینڈ کے سابق پلیئرز اور ان کے جانشین آج بھی عمران خان کی عزت کرتے ہیں۔
عمران خان کی پہچان وہ جارحانہ انداز ہے جو وہ پاکستان کو دے کر گئے۔ جو وسیم اکرم اور وقار یونس کی بولنگ میں جھلکتا تھا، اعجاز اور انضمام کی بیٹنگ میں نظر آتا تھا۔
وسیم اکرم کی پہچان دنیا کی مضبوط ترین، مگر تنازعات میں گھری ٹیم تھی۔ ان کی کپتانی میں جیتے جانے والے یادگار میچز کی تعداد ہارے جانے والوں سے کم ہے۔
انضمام کی پہچان نوآموز ٹیلنٹ پول میں سے ایک بہتر شکل کی ٹیم پیدا کرنا تھا۔ وسیم اکرم، وقار یونس، ثقلین، سعید انور، اعجاز اور معین جب ایک نہایت تلخ ورلڈکپ کے بعد جلد ہی گوشہ گمنامی میں چلے گئے تو اس دور میں انضمام نے پاکستان کرکٹ کو سنبھالے رکھا۔
ایک کپتان کی پہچان وہ کلچر ہوتا ہے جو وہ اپنے ساتھ لے کر آتا ہے اور سالہا سال کی محنت سے اسے اپنی ٹیم کے لاشعور کا حصہ بنا دیتا ہے۔
مصباح کی ٹیم کی پہچان کیا ہے؟
یہ وہ ٹیم ہے جسے پاکستان کی تاریخ میں سب سے کم پذیرائی ملی۔ اس ٹیم کو ہمیشہ کمزور اور بزدل کہا گیا ہے۔ لیکن یہ صرف پاکستانیوں کا عمومی موقف ہے۔
وہ لوگ جو وسیم، وقار کا سامنا کیا کرتے تھے اور جنھوں نے اپنے ہوم گراونڈز پہ عمران خان سے سیریز ہاری ہیں، وہ مصباح کی ٹیم کو دنیا کی مضبوط ترین ٹیم مانتے ہیں۔
ان کے نزدیک، یہ وہ ٹیم ہے جو آج تک اپنے گھر میں کھیلنے سے محروم ہے لیکن پھر بھی گرتے پڑتے نمبر ون رینکنگ تک پہنچ گئی۔
یہ ایک ایسا اعزاز ہے جو پاکستان کو گذشتہ تین دہائیوں میں نصیب نہ ہوا تھا حالانکہ اس عرصے میں جنھوں نے پاکستان کی کپتانی کی، وہ سبھی بڑے پلیئرز تھے۔
مصباح کا پاکستان وہ پاکستان ہے جو پچھلی دو دہائیوں سے جاری کپتانی کی لڑائیوں، ڈریسنگ روم کے جھگڑوں اور میچ فکسنگ کے دھندلے نقوش میں سے، خلاف توقع، ایک نہایت شفاف، غیر متنازع اور محنتی ٹیم بن کر سامنے آ گیا۔
برسبین میں پہلے آٹھ سیشنز میں جو پاکستان کے ساتھ ہوا اور پھر اس کے بعد اگلے پانچ سیشنز میں جو پاکستان نے کیا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ ٹیم مصباح کی ٹیم بن چکی ہے۔
یونس، اظہر، سمیع، عامر، یاسر اور اسد شفیق، یہ سارے پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ میں اسی دباؤ سے گزرے ہیں جسے مصباح نے چھ سال تک برداشت کیا۔ اور ان سبھی نے وہی کیا جو مصباح، دباؤ کے جواب میں کرتا ہے۔
مصباح کوئی تکنیک نہیں ہے، یہ ایک اپروچ ہے۔ مشکل ترین حالات میں اپنے آپ کو چیلنج کرنے کا نام ہے۔ یہ لاجک اور محنت میں پرفیکشن پہ مبنی ہے، اسے نتائج میں پرفیکشن سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ نتائج اس اپروچ کی افادیت کی دلیل ہیں۔
ممکن ہے یہ مصباح کا آخری دورہ ہو اور ہو سکتا ہے اس سیریز کا نتیجہ شاید کوئی اچھا فیئر ویل نوٹ نہ ہو۔ لیکن برسبین کے اس مقابلے نے یہ بتا دیا ہے کہ مصباح کے بعد بھی یہ ٹیم مصباح ہی رہے گی۔
بیسٹ آف لک ٹیم مصباح!