تحریر : شاہد شکیل
تاریخ گواہ ہے فسادات اور جنگوں سے کبھی کسی قوم اور ملک نے ترقی نہیں کی بلکہ کئی دہائیوں تک پیچھے دھکیل دیا اور زوال پذیر ہوئے ،تاریخ اور حقائق سے سبق سیکھنے کی بجائے دنیا بھر میں چند نام نہاد مادہ پرست سیاسی لیڈرز سب کچھ پیروں تلے روندنے اور کچلنے میںمصروف ہیں اور ملک و قوم کو مزید تباہی و بربادی کی طرف دھکیلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے،جنگیں کبھی مسائل کا حل ثابت نہیں ہوتیں بلکہ ریاستوں کو کئی برس ماضی کے گمنام اندھیروں میں غرق کرنے سے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتی ہیںجس نے نہ صرف معاشرے میں بے سکونی اور بے چینی کے علاوہ ہر قسم کی بدحالی کا دور شروع ہوجاتا ہے بدیگر الفاظ ہر انسان کو دوبارہ ایک نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کرنا پڑتا ہے اور گہری کھائی میں گرے یا دلدل میں پھنسے ہوئے افراد کا زندہ سلامت بچ نکلنا کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔
محقیقین کا کہنا ہے دنیا بھر میں دیگر کئی مسائل کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر فسادات اور جنگیں زمین اور موسم میں شدید اثر انداز ہونے سے ممکنہ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیںبالخصوص جنگیں اہم کردار ادا کرتی ہیں جس سے جانی و مالی نقصان کے ساتھ دیگر کئی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں،ماہرین کے مطالعے سے شام میں جاری خانہ جنگی خطے میں خشک سالی اور موسمیاتی تبدیلی میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے اور اس جنگ سے دنیا کے کئی محقیقین متفق نہیں ،شام میں جاری جنگ کے بارے میں ہر لمحے دنیا بھر میں بریکنگ نیوز نشر ہو رہی ہے۔
اگر ایک طرف یہ جنگ کئی بے گناہ کو موت کے منہ میں دھکیل رہی ہے تو دوسری طرف موسم اور دنیا بھر کے ماحول میں بھی کشید گی پیدا ہو رہی ہے ،اس جنگ کے پیش نظر جرمن محقیقین نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ وہ اس جنگ سے اختلاف رکھتے ہیں کیونکہ تصادم کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا اس جنگ سے نہ صرف لاکھوں لوگ بے گھر ہو رہے ہیں بلکہ اس کونفلکٹ سے موسم میں نمایا ں تبدیلی اور خشک سالی کا آغاز ہو چکا ہے ،بیسویں صدی کے اوائل سے اب تک ان علاقوں میں کئی بار جنگیں ہوئیں اور موسم تبدیل ہوا خاص طور سے دو ہزار چھ سے دو ہزار دس تک اعداد وشمار کے مطابق شدید خشک سالی آئی درجہ حرارت تبدیل ہوا اور ریکارڈ بدترین گرم موسم رہا۔
کمپیوٹرز کی پییشن گوئی کے مطابق ایک مضبوط ترین گرین ہاؤس کا اثر نیم مرطوب خشک زون کو شمال کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے جس کے نتیجے میں شام اور ارد گرد کے علاقے شدید متاثر ہو رہے ہیں اور بارش نہ ہونے کے زیادہ امکانات ہیںماہرین کا کہنا ہے ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ شام کی جنگ سے موسمیاتی تبدیلی اور خشک سالی کا آغاز ہوا ہے اور اسی جنگ کی وجہ سے بھوک ،نقل مکانی اور اقتصادی مشکلات پیدا ہوئی ہیں فسادات، جنگ اور موسمیاتی تبدیلی کے سبب اب تک تقریباً دو لاکھ سے زائد افراد موت کا شکار ہو چکے ہیں۔
جرمن موسمیاتی کنسورشیم ایک سادہ دلیل رکھتے ہیں کہ خشک سالی اور جنگ سے بہت نقصان اور نقل مکانی کا عمل شروع ہوا ہے احتجاجی مظاہروں میں کئی افراد موت کا شکار ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے کیونکہ سال دوہزار سے شام کی سیاسی پالیسیوں میں کئی بار رد وبدل کیا گیا اور غریب عوام شدید دباؤ کا شکار ہوئی،جرمن ماہرین کا کہنا ہے شام میں سماجی ، معاشی اور سیاسی حالات کو مضبوط ہونے میں اگرچہ وقت درکار ہے۔
لیکن موسمیاتی تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے اور سے قبل بھی ماہرین نے شکوک و شبہات ظاہر کئے تھے کہ شام کی جنگ سے موسم تبدیل ہو سکتا ہے لیکن کئی سیاسی لیڈرز نے ان شکوک و شبہات کو رد کیا کہ سیاسی حالات سے بھوک ،سماجی ، معاشی اور اقتصادی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے سیاست دانوں کی غلط پالیسیوں و اقدامات کے نتیجے سے ہی شام کے حالات خراب ہوئے اور زمینی تبدیلی کے علاوہ زراعت اور دیگر شعبوں میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی جو قحط میں پھیل چکی ہے جس کے نتیجے میں شامی لوگوں کے علاوہ دنیا بھر میں اثر انداز ہو رہی ہے۔ یو این او کی رپورٹ کے مطابق ان خطوں میں خشک سالی ایک نارمل سی بات ہے موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلی کی وجوہات جنگ ، فسادات اور نقل مکانی ہے درجہ حرارت میں تبدیلی آنا بارشیں کم ہونا اسی جنگ کے اثرات ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ ساٹھ برسوں سے اس خطے میں خشک سالی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے بارشوں نے اپنا رخ مختلف سمتوں میں کیا جس سے شام کو شدید نقصان پہنچا ہے اگرچہ شام میں پھیلی جنگ اور فساد کو روکنا فوری طور پر ممکن نہیں لیکن دنیا بھر کے سیاست دانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ خطے میں امن وامان قائم ہو ،موسم اپنی نارمل حالت میں آئے نقل مکانی میں کمی واقع ہو اور سب سے بڑھ کر انسانی تحفظ ہے جس پر خاص طور سے توجہ اور تعاون کی اشد ضرورت ہے۔
ملک کی سلامتی کیلئے باہمی اتفاق سے سیاست دانوں کو ذمہ داری سے اپنے فرائض انجام دینا ہو نگے نہیں تو شام کی جنگ اور فسادات دیگر کئی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف جانی و مالی نقصان ہو گا بلکہ موسم میں مزید تبدیلی آئی تو لاکھوں افراد موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
تحریر : شاہد شکیل