اپنی برق رفتاری اور ہیجان انگیزیزی میں سوشل میڈیا‘ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر سبقت لے جاری ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں نئی ایجادات نے ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا ہے اور دنیا ایک گائوں کی طرح سکڑتی جا رہی ہے۔ میں عید کی صبح شکاگو میں اپنے ایک عزیز دوست جناب احتشام نظامی سے واٹس ایپ پر گفتگو کر رہا تھا تو اُن کی تصویر بھی آویزاں تھی اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ہم آمنے سامنے بیٹھے بات چیت کر رہے ہوں۔ سوشل میڈیا جغرافیائی سرحدوں کو بھی عبور کر گیا ہے۔ اب اپ انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا میں کسی بھی حصے کے حالات معلوم کر سکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کی تصویریں ہزارہا پابندیوں کے باوجود باہر دیکھی جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے کسی واقعے کے بارے میںفوری ردعمل چشم زدن میں ملک ملک پھیل جاتا ہے۔ اب تو سیاسی جماعتوں کے علاوہ آئی ایس بی آر نے بھی ٹویٹر کا استعمال شروع کر دیا ہے ۔ بڑے بڑے گروپس منظم ہو کر اپنی آرا سے عوامی رائے عامہ پر اثرانداز ہو رہے اور لوگوں کی آگاہی میں حیرت انگیز اضافہ کر رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں سب سے پہلے تحریک انصاف نے سوشل میڈیا کوبڑے پیمانے پر فروغ دیا۔ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ نوجوان جو کبھی عمران خان کی کرشماتی شخصیت سے متاثر تھے‘ انہوںنے عوام تک پہنچنے کے لیے نئے نئے طریقے اختیار کیے جن کا بنیادی
مقصد مخالفین کا مضحکہ اُڑانا‘ اُن کی کردار کشی کرنا اور اپنے چیئرمین کو ’مسیحا‘ ثابت کرتے رہنا شامل تھا۔ زبان ایسی استعمال کی جاتی جس سے ہماری سیاسی کلچر بہت کم آشنا تھا۔ اپنے سیاسی حریفوں کو ناشائستہ القاب سے نوازنے کا سلسلہ سب سے پہلے جناب ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا جس نے معاشرے میں نفرت کے بیج بوئے تھے اور سیاست میںبازاری پن داخل ہوا تھا۔ تحریک انصاف کے منچلے نوجوانوں نے اسی تندی و تیزی اور بدمذاقی کو ہوا دی اور ایک تنائو کی سی کیفیت پیدا کر دی۔ تب احساس ہوا کہ ایک بگڑا ہوا ذہن ایک اچھی ایجاد کوبھی منفی مقاصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ آپ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کوتعلیم یافتہ بھی بنا سکتے ہیں اور اُن کے اخلاق اور اُن کے اذہان میں بگاڑ بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں بدقسمتی سے بیشتر علمی وسائل اُن کے ہاتھ میں آ گئے ہیں جو بگاڑ کی طرف زیادہ مائل ہیں‘کہ اس میں نفس امارہ کوبڑی لذت محسوس ہوتی ہے۔ افواہیں پھیلانے میںشیطان خوشی محسوس کرتا ہے کہ ان سے انسان گمراہ ہوتے اور اشتعال میں آ جاتے ہیں۔ ایمان اور ایقان کی بنیادیں مضبوط نہ ہوں‘ تو سوسائٹی میں فساد پھوٹنے لگتے ہیں۔
گزشتہ عشرے ہماری قوم ایک عظیم الشان تجربے سے گزری ہے۔ چھ ستمبر پورے ملک میں غیرمعمولی جوش و خروش سے منایا گیا۔ تمام صوبائی دارالحکومتوں میںبڑے بڑے اجتماعات ہوئے جن میںفوجی ہائی کمان اور وزرائے اعلیٰ شریک ہوئے۔ ان تقریبات میں عوام جوق در جوق آئے۔ مرکزی تقریب جی ایچ کیو میں منعقد ہوئی جس سے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے ایک ایسے انداز میں خطاب کیا کہ اہل وطن کے جذبے اور ولولے بجلیوں کی طرح کوندنے لگے۔ ان کی تقریر میں ایک مجاہد اورایک مدبر کی شان کارفرما تھی۔ انہوں نے بڑے وضاحت کے ساتھ کہا کہ چھ ستمبرکی جنگ میںفوج اور عوام نے جس پامردی‘ استقامت اور جذبہ ایثارسے دشمن کے ناپاک ارادے خاک میںملا دیے تھے‘ ہم نے انہی جذبوں اور اعلیٰ روایات کو زندہ رکھا ہے اور اب آپریشن ضرب عضب میں فوج‘ رینجرز‘ انٹیلی جنس کے ادارے‘ ایف سی اور پولیس کی بے مثال قربانیوں سے دہشت گردوں کی کمرٹوٹ چکی ہے‘ ان کے محفوظ ٹھکانے تباہ کیے جا چکے ہیں اور اُن کا ہر جگہ تعاقب کیا جا رہا ہے۔ وہ قوم کو مژدہ سنا رہے تھے کہ پاکستان کی مسلح افواج ہر خارجی اور بیرونی چیلنج سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اب پاکستان ناقابل تسخیر ہو گیا ہے اور ہم قومی سلامتی کی خاطر آخری حد سے بھی آگے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں پاکستان کا موقف دہرایا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور ہم کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھیں گے اور دنیا کو باور کرائیںگے کہ کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینے ہی سے خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکے گا۔ جنرل راحیل شریف نے بڑے وقار اور پورے عزم کے ساتھ پاک چین اقتصادی راہداری کا ذکرکرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس کی تکمیل اور حفاظت ہمارا قومی فریضہ ہے اور ہم کسی بیرونی طاقت کو اس منصوبے میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے جو اس خطے کی تقدیر بدل کے رکھ دے گا۔
آرمی چیف کے خطاب میں علاقائی اور عالمی حقائق کا مکمل ادراک اور شعور کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں ایک بلند مقام دلانے کاپختہ عزم موجزن تھا۔ وہ منتخب حکومتوں اور سول اداروں کوبھی اس امر کی دعوت دے رہے تھے کہ دہشت گردی کا پورے طور پر قلع قمع کے لیے قومی ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کو یقینی بنانا اور کرپشن اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ توڑنا ازبس ضروری ہے۔ انہوںنے واضح الفاظ میںکہا کہ کریمنل جسٹس کے نظام میں جامع اصلاحات کی جائیں تاکہ دہشت گرد قانون کی پکڑ سے بچ نہ سکیں اور انسانوں کو لقمۂ اجل نہ بنا سکیں۔پوری قوم نے جنرل راحیل شریف کا خطاب پوری یک سوئی اور بڑی محویت کے ساتھ سنا اور یوں جانا کہ جیسے یہ بھی میرے دل میںہے۔ ہماری پوری تاریخ اس خطاب میں سمٹ آئی تھی اور نئے امکانات کی ایک دنیا ہمارے سامنے جلوہ گر تھی۔ عوام کے دلوں میں اپنی فوج کے لیے اپنائیت کے جذبات بہت گہرے ہوتے ہیں اور انہیں پورا پورا احساس ہے کہ شہیدوں کے خون سے ہمارے بقا اور ہماری آزادی کے گرد جوحصار تعمیرہوا ہے وہ ناقابل تسخیر ہے۔ انہیںیہ بھی احساس ہے کہ جمہوریت کے تسلسل اور سول عسکری خوشگوار تعلقات پاکستان کو ترقی‘ خوشحالی اور سلامتی کی نئی نئی رفعتیںعطا کر سکتے ہیں۔
اس پر کیف اور حیات افروز ماحول میں ایک افسوس ناک واقعہ رونماہوا جسے بے مہار سوشل میڈیا نے دیکھتے ہی دیکھتے شعلہ جوالہ بنا دیا۔ موٹر وے پولیس کی ایف آئی آر کے مطابق دو فوجی افسر نوشہرہ سے موٹروے پر رش ڈرائیونگ کے مرتکب پائے گئے۔ پولیس افسر نے اُنہیںرکھنے کااشارہ کیا‘مگر وہ رکنے کے بجائے اپنی رفتار تیز تر کرتے گئے۔ پولیس موبائل نے تعاقب کرکے رکنے پر مجبور کیا جس سے فوجی افسر نے پستول نکال لیا اور اپنی مدد کے لیے قریبی چھائونی سے فوجی بلا لیے۔پچیس کے قریب فوجی آئے اور ان میں سے ایک دو نے پولیس افسروں پر تشدد کیا اور انہیں اٹک قلعے میں لے گئے جہاں غیرقانونی حراست میںرکھا۔ گیارہ ستمبر کی صبح روزنامہ ڈیلی ٹائمز کے سوا کسی اور اخبار نے اس افسوس ناک واقعے کی خبر شائع نہیں کی‘ چنانچہ اس خلا کی موجودگی میں سوشل میڈیا پر ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ واقعے کی تصویریں دس ستمبرکوتین بجے سہ پہر لوڈ ہو گئی تھیں اور ہزاروں لوگ اپناردعمل پوسٹ کرنے لگے۔ مجھے اُن کا ردعمل پڑھتے ہوئے غیرمعمولی تشویش محسوس ہوئی۔ دراصل دشمن کوہماری سوشل میڈیا میںاپنی سوچ کوداخل کرنے کا موقع مل گیا تھا اور چار پانچ روز پہلے فوج کی عظمت کے جو ترانے فضا میں گونج رہے تھے اور یہ مصرع دلوں کے تار ہلا رہا تھا کہ ’رسولؐ پاک نے بانہوںمیں لے لیا ہو گا‘ اس کے برعکس شدید جذبات سوشل میڈیا میں تیرتے رہے۔ ایک چھوٹے سے واقعے نے چند ساعتوں کے اندر اندر ذہنوں میںطرح طرح کے سوالات اُٹھا دیے تھے اور شیطان کواپناکام کرنے کا پورا پورا موقع مل گیا تھا۔ بعدازاں فوجی ترجمان نے باقاعدہ تحقیقات اور قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کا یقین دلایا ہے۔ فوج کی طرف سے بھی ایک ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ایک دو افسروں کی بے احتیاطی قومی سطح پر ارتعاش پیدا کرنے کا باعث بنی۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ تحقیقاتی رپورٹ عام کی جائے گی ا ور فوجی وردی کا وقار بحال رکھنے کے لیے انصاف کا عمل سبھی کو نظر آئے گا۔ روزنامہ ڈان کے مطابق گزشتہ دسمبر میں تحریک انصاف کے سینیٹر نعمان سے ایک چیک پوسٹ پر ایک فوجی نے بدتمیزی کی تھی۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ موٹر وے پولیس کے اہلکاروں نے نوجوان فوجی افسروں کے ساتھ بدتمیزی کی جس کے ردعمل میں یہ سب کچھ ہوا۔ چیئرمین سینیٹ جناب رضاربانی کی مداخلت پر جنرل راحیل شریف نے تحقیقات کرانے کا وعدہ کیا تھا‘ مگر ابھی تک اس معاملے میں پیش رفت کا کچھ پتہ نہیں چلا ہے۔
دراصل عوام اور فوج کے مابین محبت کا جوفطری رشتہ قائم ہے‘ وہی سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اس امرکا بھرپور احساس رکھتے ہیں کہ فوج اپنی حدود سے تجاوز نہ کرنے پائے اور اپنی بے لوث خدمات سے اہل وطن کے اعتماد پر پوری اترتی رہے جبکہ آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز میں بعض اوقات تحکم کا رنگ جھلکتا ہے جو قومی حلقوں میں گاہے گاہے موضع گفتگو بنتا ہے اور سوشل میڈیا بات کا بتنگڑ بنا دیتا ہے۔ ہمارے ارباب اختیار اور ہماری فوجی قیادتوں کواس پہلو پر نہایت سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ سوشل میڈیا کو ایک مثبت رخ کس طرح دیا اور منفی اثرات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔