تحریر: علی عمران شاہین
نظریہ پاکستان ،لا الہ الا اللہ کے عظیم سپاہی، ایم ایم عالم کو ہم سے بچھڑے دو سال بیت گئے، لیکن افسوس کہ اسلام اور پاکستان کے اس عظیم بیٹے جس نے 1971کے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد وہاں رہنا پسند نہ کیا تھا۔ اس نے باقی ساری زندگی ہماریلئے گزار دی ، اسے بھلا دیا گیا۔ ایم ایم عالم کون تھا؟ ہماری تاریخ کا وہ ستارہ تھا جودو سال قبل 18 مارچ 2013 کو 78 برس کی عمرمیں ڈوب گیا۔ محمد محمود عالم… جوہماری بھارت کے خلاف واحد جیتی گئی جنگ 1965ء کے ہیرو اور مملکت خدادادکے ماتھے کا جھومر تھے،وہ جہان فانی سے رخصت بھی ہوئے توکس حال میں ؟…کہ وفات سے پہلے طویل عرصہ سے ان کاٹھکانہ پاک فضائیہ کے کراچی کے آفیسرز میس کا کمرہ نمبرایک تھا… وہ یہیں تنہامقیم رہے… انہیں وطن عزیزسے محبت اس قدرتھی کہ اسے کبھی چھوڑنا گوارا نہ کیا۔
ایم ایم عالم 6 جولائی 1935ء کو کلکتہ میں پیداہوئے۔ تقسیم ہند کے بعدوہ خاندان سمیت پاکستان آگئے۔ وہ گیارہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ انہیں بچپن سے ہی پائلٹ بنے کاشوق تھا تو ان کے والدانہیں سی ایس پی آفیسر بنانا چاہتے تھے۔ ان کے بچپن کا ایک واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ان کے چچانے کھلونارائفل انہیں تحفے میں دی جبکہ والد نے سائیکل خرید کر دی۔ وہ سائیکل کے ساتھ اس کھلونا رائفل کو لٹکائے ،ہر طرف مجاہد انہ روپ بناکر گھومتے نظر آتے۔ انہوں نے اس سائیکل کو ”جنگی جہاز”کا نام دیاتھا۔ تقسیم ہند کے بعد جب ہندؤوں اور سکھوں کا مسلمانوں پربے پناہ ظلم شروع ہوا توایم ایم عالم اپنی حفاظت اوردشمن کو نقصان پہنچانے کی خاطر اپنے پاس تیز دھار چاقو رکھتے کیونکہ دوسرا کوئی ہتھیارتواس زمانے میں دستیاب ہی نہ تھا۔ ہجرت کے بعد پاکستان پہنچے تو 1960ء میں پاک فضائیہ کو جوائن کیااور پھراپنی صلاحیتوں کالوہا منواتے ہوئے ترقی کی منازل طے کرتے چلے گئے۔
1965 ء کی جنگ میں جب بھارت نے چوروں کی طرح رات کی تاریکی میں حملہ کر کے یہ پروگرام بنایا تھا کہ ان کی فوج ناشتہ لاہور فتح کر کے وہاں کرے گی،ہمارے انہی دلیر بیٹوں نے اسے ناکام بنایا تھا۔بھارت اور پاکستان کارقبے ،آبادی، معیشت، جنگی طاقت ،فوجی نفری سمیت کسی میدان میں بھارت سے کوئی تقابل نہیں تھا۔ بھارت تو تقسیم کے وقت سے ہی اس قدر بے خوف تھا کہ اس نے پاکستان کے حصے میں آنے والے بجٹ،ایمونیشن اور دیگراملاک پر ہی قبضہ نہیں کر لیا تھا بلکہ پاکستان کا حصہ بننے کے لئے تیار کشمیراور پاکستان سے الحاق کا اعلان کرنے والے حصوں جونا گڑھ ،مناودرپر بھی بالجبر قبضہ جما لیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ساری دنیا بھارت کی حامی جب کہ پاکستان کے وجود کی ہی مخالف تھی۔ان حالات میں پاکستان کا باقی رہ کر آگے بڑھنا کسی کرامت سے کم نہیں تھا ۔پھر پاکستان پربھارت کا جنگ مسلط کرنا تو اس میںمنہ کی کھانا بھی تائید ایزدی ہی کہا جا سکتا ہے۔اس جنگ میں بھارت کی فضائیہ بھی پاکستان پر ہر لحاظ سے حاوی تھی۔لیکن ایم ایم عالم کی جانب سے تاریخ مرتب کرتے ہوئے بھارت کے5 ہنٹرطیاروں کو تباہ کرناکوئی حادثاتی واقعہ نہیں تھا۔6ستمبر جنگ کے پہلے ہی روز ایم ایم عالم نے بھارتی فضاؤں میں داخل ہوکر 2بھارتی طیارے تباہ کردئیے تھے۔ بھارتکیمیدانی جنگ میں دانت کھٹے ہوئے تو انہوں نے ہمارے اس سرگودھا ائیربیس کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا کہ جہاں سے اڑان بھر کر ایم ایم عالم نے پہلے روز بھارت کو زک پہنچائی تھی۔ واقعہ کے چشم دیدگواہ ریٹائرڈ کمانڈرمحمد عارف اقبال کہتے ہیں کہ بھارت کابڑا ہدف سرگودھا ائیربیس ہی تھا۔ ہم توتیارتھے کہ کب حکم ملے۔ ہماری نگاہیں مغربی سرحدکی جانب تھیں جبکہ ایم ایم عالم کی نگاہیں مشرقی سرحد کی جانب۔پھر پتہ چلاکہ بھارتی طیارے پاکستانی حدود میں داخل ہورہے ہیں۔ ایم ایم عالم نے اپنے سیبر 86 طیارے کولے اڑان بھری اور بھارتی طیاروں کو جالیا۔ بھارتی ہنٹر طیارے ہمارے سیبرسے کہیں زیادہ جدیداور تیزرفتار تھے لیکن ایم ایم عالم نے انتہائی پھرتی اور مہارت سے 30 سیکنڈ میں 4 جبکہ بعدمیں 5 واں طیارہ تباہ کر دیا۔ یوں انہوں نے وہ ریکارڈ قائم کیا کہ جسے آج تک دنیا میں کوئی توڑنہیں سکا۔اس جنگ میں ایم ایم عالم نے مزید 4 بھارتی طیارے بھی تباہ کیے تھے۔اس کارنامے پر انہیں 2 مرتبہ ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔
جنگ ختم ہوئی’ قوم نے ہرسال 6 ستمبر کو یوم دفاع کے طورپر مناناشروع کیا تو7ستمبریوم فضائیہ قرار پایا۔ یوم فضائیہ اسی جری بیٹے کے کارناموں سے وجود میں آیا۔ 1965ء کی جنگ نے توانہیں ہیرو کادرجہ دلوایا ہی تھالیکن جہاد سے محبت ان کے رگ و پے میں بسی ہوئی تھی۔ 1979ء میں جب روس نے افغانستان پرحملہ کیا تو یہ بات ریکارڈ پرموجودہے کہ وہ پاک فضائیہ سے چھٹی لے کر افغانستان پہنچ گئے اوراپنی جنگی صلاحیتوں اور مہارتوں سے روزاول سے ہی افغان مجاہدین کو روشناس کروانااور خود اس میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ 1982ء میں پاک فضائیہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنی زندگی کا بڑاحصہ افغان جہاد کے میدانوں میں گزارا۔ جس وقت تک روس اور روس کی باقیات مکمل طورپر شکست کھاکر پسپا نہیں ہوگئیں ‘وہ اس جہادی میدان سے جڑے رہے۔ اس کے بعد جب کشمیرمیں جہاد کاآغاز ہوا تو وہ اپنی شاہین صفت طبیعت کی وجہ سے اس جہاد سے بھی دور نہ رہ سکے اوروہاں بھی دادشجاعت دینے پہنچ گئے لیکن کشمیرکے بلندوبالا پہاڑوں اور برفیلی چوٹیوں کو بھاری وزن اٹھاکر عبورکرناان کے لیے اب ممکن نہ تھا’ اس لیے وہ واپس آگئے لیکن ان کا دل ہمیشہ اسلام اور غلبہ اسلام کے لیے تڑپتا رہا۔ انہیں 1971 میں بھارتی حملے اور پھر اس سے پاکستان کے دولخت ہونے کا بہت زیادہ صدمہ تھا۔ وہ ایک بہاری النسل تھے تو ان کاخاندان 1971ء کے سانحہ کے بعدپاکستان چھوڑ کر بنگلہ دیشمنتقل ہوگیا لیکن انہوں نے خاندان کو چھوڑ کر پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی اوراپناسب کچھ پاکستان کے نام کردیا۔
ایم ایم عالم کو اس بات کابہت دکھ رہتا تھا کہ قوم انہیں 6 ستمبر کے موقع پر ہی یاد کرتی ہے اور وہ جوحق بات کہنا چاہتے ہیں’وہ آج کا میڈیا دکھانے کو تیار نہیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں اپنی اولادوں کو عربی اور فارسی لازمی پڑھانا چاہیے کیونکہ ہماراسارا ثقافتی ومذہبی ورثہ یہیں پر ہے لیکن ایساہونہیں رہا۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ امریکہ نے جب 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا تھاتوانہوں نے اس روز سے ہی کہنا شروع کردیا تھاکہ روس کی طرح افغانستان کی دہلیزپر امریکی غرور کا سربھی نیچا ہو جائے گا۔ آغاز پر تولوگ نہ مانتے تھے لیکن اچھاہوا کہ وہ اپنی آنکھوں سے روس کے بعدامریکہ کو یہاں ذلت سے دوچار ہوتا اور داغ رسوائی سمیٹتا واپس جاتے دیکھ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ 18 مارچ 2013ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔وفات سے قبل ماہ دسمبر میں انہیں سانس کی تکلیف شروع ہوئی تھی جو بڑھتی چلی گئی اور پھر زندگی کے انہیں آخری روز تک لے گئی۔ وہ اس دنیاسے دوسرے انسان کی طرح چلے گئے لیکن جو وہ کرگئے وہ انہیں دنیا میں ہمیشہ ان کی پرواز کی طرح اونچا وسربلندرکھے گا۔
کیا یہ ہماری تاریخ کاافسوس ناک باب نہین کہ ان کی وفات کے بعدانہیں خراج تحسین پیش کرنے والوں میں چندنام توسامنے آئے لیکن جنازے میں سوائے سندھ و کراچی سے کوئی اہم ملکی شخصیت شریک نظر نہ آئی تھی۔ شایدکہ آج ان کے کارناموں کا ہمارے ہاں اب رواج نہیں۔ بھارت کاایساہیروآنجہانی ہوتو بھارتی میڈیا پوراہفتہ اس کی خبریں گرم رکھتا ہے لیکن ہمارے میڈیا میں تو انہیں اس وقت بھی ایک دن بھی اپنے ہیرو کی وفات سب سے بڑی خبرنہ بنی اوراسے اس وقت بھی محض چھوٹی خبروں میں پیش کیا گیا لیکن دشمن کو ان کی اہمیت کاپورا احساس تھا۔اسیلیے توایک بھارتی صحافی نے لکھا تھا کہ آج جب ایم ایم عالم اس دنیاسے رخصت ہوا ہے ‘ بھارت کے لوگ چین کی نیند سوئے ہوں گئے۔دوسال قبل جب وہ اپنے اللہ سے جا ملے تھے تو اس وقت بھی پاکستان میں یوفون موبائل کمپنی کے علاوہ کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ انہیں سلام عقیدت پیش کرتا۔ پاکستان کی محبت میں مر مٹنے اور سب کچھ فنا کر دینے والے اس عظیم سپوت کے لئے آخر کسی پاس کیوں وقت نہ پہلے تھا نہ آج ہے۔ آخر کیوں…؟ کیا قومیں اپنے ہیروزکے ساتھ یہی سلوک کرتی ہیں…؟ انہیں یوں بھلا دیا جاتا ہے؟ یہ سوال اتنابڑا ہے کہ جواب شاید آسانی سے نہ مل سکے۔
تحریر: علی عمران شاہین