چکوال: صوبہ پنجاب کے شہر چکوال میں مبینہ طور پر احمدیوں کی ایک عبادت گاہ کا گھیراؤ کرنے والے اینٹوں اور لاٹھیوں سے لیس تقریباً ایک ہزار مشتعل مظاہرین کو منتشر کردیا گیا۔
چواس سیداں پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او محمد نواز نے ڈان کو بتایا کہ ہجوم کو منتشر کردیا گیا ہے لیکن ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کیا گیا کہ عبادت گاہ کو سیل کرنا ہے یا نہیں۔
قبل ازیں جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان سلیم الدین نے بتایا تھا کہ ‘تقریباً ایک ہزار افراد نے ضلع چکوال کے ضلع ڈھلمیال میں بیت الذکر پر دھاوا بول دیا اور پتھراؤ کرنے کے ساتھ ساتھ فائرنگ بھی کی’۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘مشتعل ہجوم نے بیت الذکر کا گھیراؤ کرلیا جبکہ پولیس صورتحال کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی’۔دوسری جانب پنجاب حکومت کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کیے گئے پیغام میں کہا گیا تھا کہ ‘محکمہ داخلہ چکوال میں ہونے والے واقعے کو دیکھ رہا ہے اور مقامی انتطامیہ اور پولیس صورتحال کو کنٹرول میں کرنے کے لیے جائے وقوع پر موجود ہے’یہ بھی کہا گیا تھا کہ ‘ابتدائی تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ دو گروپوں کے درمیان ‘غلط فہمی’ کی وجہ سے پیش آیا’۔ پنجاب حکومت کا مزید کہنا تھا کہ وہ کسی بھی رنگ، نسل اور ذات کے امتیاز سے قطع نظر قانون کے شفاف عملدرآمد پر یقین رکھتی ہے۔ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ واقعے میں کون سے گروپ ملوث ہیں۔واضح رہے کہ گذشتہ برس نومبر میں بھی صوبہ پنجاب کے شہر جہلم میں مبینہ طور پر قرآن پاک کے مقدس اوراق نذر آتش کرنے پر شہر میں حالت کشیدہ ہوگئے تھے، جس کے بعد امن و امان کے قیام کے لیے فوج طلب کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: پنجاب حکومت کا صوبے میں کالعدم تنظیموں کیخلاف کریک ڈاؤن مزید سخت کرنے کا حکم
مذکورہ واقعے میں جی ٹی روڈ کے قریب اسمال انڈسٹریل اسٹیٹ کے عقب میں واقع ایک چِپ بورڈ بنانے والی فیکٹری میں قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کی خبر گردش کر رہی تھی، جس کے بعد مشتعل افراد نے ایک فیکٹری کو آگ لگا دی تھی۔جبکہ پولیس نے قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں فیکٹری کے سیکیورٹی ہیڈ قمر احمد طاہر کو گرفتار کرلیا تھا، جن کا تعلق احمدی کمیونٹی سے بتایا گیا تھا۔