تحریر: مجید احمد جائی
اشرف المخلوقات کے منصب پر فائز ہونے والے انسان کو جانے کیا ہو گا ہے کہ نائب کی کُرسی چھوڑ کر صدارت کی عہدے پر فائز ہونا چاہتا ہے۔اِ س کی زبان شکوے و شکایات کرتے نہیں تھکتی۔۔اِسے اوقات سے زیادہ مل جائے تو مغرو ر ہو جا تا ہے اور کہیں ذرا کمی محسوس کرے تو شکوے شکایا ت کے انبار لگا دیتا ہے۔اِس کو اپنے بنانے والے کا شاکر ہونا چاہے تھا مگر یہ خود کو ہی خدا سمجھ بیٹھا ہے۔
پچھلے دِنوں اسلام آباد جانا ہوا۔اسلام آباد کو وی آئی پی لوگوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔میرا قیام فیصل مسجد کے ساتھ دعوةاکیڈمی میں تھا۔دس روزہ تربیتی کیمپ میں شامل تھا۔میرا زیادہ وقت فیصل مسجد کے پا س ہی گزرتا تھا۔وہاں جو مناظر اِن آنکھوں نے دیکھا۔بیان کرنے سے قاصر ہوں۔دل خون کے آنسو روتا ہے۔آنکھیں شرمندہ سی ہیں۔خود کو چھپاتا پھرتا ہوں۔کہاں جائوں،کہاں چھپائوں خو د کو،امت مسلمہ نے خود کو کیوں بربادی کی طرف گامزن کر لیا ہے۔یہ حضر ت انسان کو آخر ہو کیا گیا ہے۔؟ خود کو اونچا کرنے کے لیے مقدس مقامات کو پامال کر دیا ہے۔اپنی تعریفیں تو سُننا چاہتا ہے لیکن دوسروں کی ذات پر کیچڑ اُچھالتا رہتا ہے۔خود کے اندر کیا خوبیاں ،خامیاں ہیں ،جاننے کی فکر نہیں ہے،بس دوسروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں۔
یہ 27نومبر2015 کی بات ہے جب پاکستان میں زلزلہ آیا۔لوگ جوق درجوق فیصل مسجدچلے آئے تھے۔۔چند ساعتوں پہلے زلزلے نے کسی پر اثر نہیں کیا تھا۔لوگ پریشان نہیں تھے۔اپنے کیے پر پشیمان نہیںتھے۔یہاں کے مناظر دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گیاکہ ،کیا ہم مسلم معاشرے میں رہتے ہیں۔؟تہذیب وتمدن کلچر ،ثقافت کی ڈھجیاں اڑ رہی ہیں۔ہماری عورتوں کا لباس ایساکہ انسانیت شرما جائے۔سروں پہ ڈوپٹے کا نام ونشان نہیں ہے۔جو عورتیں پردے میں آئیں ہیں ان کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے تیسری دُنیا سے آئی ہوں۔لڑکیاں چلتے ہوئے بال سنوار رہی ہیں۔محرم ،نامحرم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
شمالی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے لڑکیوں کا گروپ بیٹھا ہے،میک اپ ہو رہا ہے۔اُن کو یہ خبر نہیں ہے کہ اللہ کے گھر میں بیٹھی ہیں۔تصویریں ،سیلفی بنائی جا رہی ہیں۔مجھے اِن دیکھ کر ”وی آئی پی”کا مفہوم سمجھ آگیا تھا۔خود کو بگاڑ کر حسین نظر آنا کتنا مشکل ہے۔؟خوبصورت نظر آنے کے لیے خود کو نمائشی بنانا پڑتا ہے۔ہمیں مسجد نظر آتی ہے،نہ قبرستان۔ہم نے خود اپنا مذاق بنا لیا ہے۔مقدس مقامات کے تقدس کی پامالی،مقدس کتابیں ،پائوں کے نیچے ہیں۔
عبرت ناک مقام تھا جب میں ترکی سے آئے وفد کو دیکھا۔ان کی عورتوں نے سروں کو ڈھانپ رکھا ہے اور نظریں جُھکی ہوئی ہیں۔مسجد کا وزٹ کیا اور چلی گئیں۔ہم نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور جوتے چوری ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔پانی کی سبیلیں ہیں ،گلاس زنجیروں سے جکڑے ہیں۔،لیٹرین کے باہر ،ایک آدمی بیٹھا رکھا ہے،جو دس روپے،دس روپے کی گِردان کر رہا ہے،۔یہ بھی حقیقت ہے ہماری نوجوان نسل ،لڑکیاں اور لڑکوں کی ملاقاتیں انہی مقامات پر رکھی جاتی ہیں۔دیکھنے والے شرمندہ اور اُن کے لیے انجوائے۔
شام ہوئی،دن بھر کا تھکا ہارا سورج آرام کرنے چلا گیا تو یہ مخلوق بھی اپنے اپنے گھروں کی طرف چلی گئی لیکن مجھے حیرت میں مبتلا کر گئے۔۔مسجد کو جانے والے راستوںپر،پارکوں میں گندگی ہی گندگی،شاپر وں کی بھرمار،اشیاء کے بقایات کے انبار،کہیں سے نہیں لگتا کہ ابھی کچھ دیر پہلے یہاں پڑھے لکھے ،عقل و شعور رکھنے والے آئے تھے۔جو خود کو حسین و جمیل،وی آئی پی کہلواتے ہیں۔آزاد خیال لوگ،دین سے آزاد،دلوں سے آزاد۔کیا ہو گیا ہے ہماری قوم کو،ہم کس سمت چل پڑے ہیں؟ذرا اپنے گربیانوں میں جھانکیں ،ہم ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔
قصور اپنا ہے یا حکمرانوں کا۔ہم اپنا گند حکومت پر ڈال دیتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں ہوٹلوں میں سیاست پر تبصرہ کرنے۔حکومت ،حکمران کہاں کہاں بھاگیں۔جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے،تبدیلی نہیں آئے گی۔دین اسلام نے جو درس دیا ہے اُس پہ عمل پیرا نہیں ہونگے تو زلزلے آئے گے۔قدرتی آفات گھیر لیں گی۔ابھی وقت ہے اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیں اور اپنی اپنی جگہ رہتے ہوئے انصاف اور عدل کرنے والے بن جائیں۔ملک میں امن بھی ہوگا،سکون بھی۔بُرائیاں ختم ہو جائیں گے۔
تحریر: مجید احمد جائی