سائنس کی فیوض و بر کات کے باعث جہاں دنیا انگلیوں کے پوروں پر سمٹ آئی، وہیں مکتوب نگاری کا عمل نہ صرف متروک ہو کر رہ گیا بلکہ اس صنف کے ذریعے ادب میں تخلیق کا دروازہ بھی عملاً بند ہو کر رہ گیا ہے۔
جانگسل تنہائیوں کا کرب، ہجر و فراق کی صعوبتیں ہوں یا قربتوں کے نشاط آمیز لمحات، اسرارو رموز کی تفہیم ہو یا، دل کی بات، تشبیہات، استعارے، طرز تخاطب، الفاظ کا خوبصورت استعمال، یہ سب کچھ بیان کرنے میں مکتوب نگاری نے ایک کلیدی کردار ادا کیا۔
ٹیکنالوجی کیا عام ہوئی مکتوب نگاری بھی اپ گریڈ ہوگئی۔ ای میل، ایس ایم ایس واٹس ایپ، ٹوئٹر اور ایسی کئی ایپلی کیشنز سے جہاں فاصلے سمٹے وہیں مختصر الفاظ اور علامتی نشانوں کے اس حیران کن انقلاب سے مکتوب نگاری پر ایسی کاری ضرب پڑی کہ اس صنف کی آبیاری کرنے والے چشموں کے سوتے ہی خشک نہیں ہوئے۔ بلکہ مکتوبات کے ذریعےاردو ادب کی پھلنے پھولنے والی زمین ہی بانجھ ہو کر رہ گئی۔
ماضی کے جھروکوں سے جھانکیں تو مکتوب نگاری نے نہ صرف عشق و محبت، رمزیہ گفتگو اور ادب و آداب کے قرینے، سلیقوں کے ساتھ بات کہنے کا وصف عام کیا بلکہ اردو زبان میں ادب کی ایک نئی جہت کو بھی فروغ دیا۔ مکتوب نگاری میں جس طرح ڈاکٹر رشید جہاں نے فیض کو اسی طرح علامہ اقبال نے عطیہ فیضی کو علمی و ادبی طور پر متاثر کیا۔ جاں نثار اختر کو صفیہ کے لکھے گئے خط بھی اردو ادب کا مرقع ہیں۔
علامہ اقبال کے اپنی جرمن اتالیق ایما کوسٹے کو تحریر کر دہ خطوط بھی دل کی بات سیلقے سے کہنے کا شاہکار ہیں۔
مرزا ا سد اللہ خاں غالب نے سادہ و پرکار، حسین و رنگین خطوط کے ذریعے اردو نثر میں سلاست، روانی اور جستگی سکھائی۔ غالب کے خطوط نے اپنے دلکش اسلوب سے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ان کے خطوط آج بھی ندرتِ کلام کا بہترین نمونہ ہیں۔