تحریر : محمد آصف اقبال
جدید بھارت کی وزیر تعلیم اسمرتی ایرانی صاحبہ اپنی تقدیر اور مستقبل قریب میں سیاسی کیرئیر کو جاننے کے لیے راجستھان کے بھیل واڑا میں پنڈت نتّھو لال ویاس کے گھر کیا گئیں کہ حزب اختلاف اور وہ لوگ جو ان کے نظریہ سے اختلاف رکھتے ہیں، نے ان کے سامنے سوالات کی بھر مار کردی ساتھ ہی انہیں دقیانوسی خیالات کی حامل قرار دے ڈالا۔اس میں پیش پیش تو دراصل میڈیا ہی تھا ،جو اگر اس خبر کو عام نہ کرتا تو عوام تک اس بڑے پیمانہ پر نہ پہنچتی لیکن دوسری جانب ملک سے دلچسپی رکھنے والے اوراس کے حال و مستقبل کی بھلائی میں سرگرم رہنے والے دیگر افراد و گرہ بھی تھے جو ان کے اس عمل پر نکتہ چینی میں مصروف تھے۔لیکن ایک طبقہ ایسا بھی تھا جس نے اس خبر کی تائید کی اور کہا کہ فرد کی ذاتی زندگی اور اس میں انجام دی جانے والی سرگرمیوں پر تنازعہ کھڑا کرنا ٹھیک نہیں ہے۔بھیل واڑ میں اسمرتی کی آمد پر پنڈت جی نے ان کی تقدیر سلیٹ پر لکھ کر پیشین گوئی کی کہ آنے والے دنوں وہ ملک کی صدر بنیں گی۔یاد رہے کہ یہ وہی اسمرتی ایرانی ہیں جنہوںنے 2004میں گجرات میں ہونے والے فسادات کے لیے سابقہ وزیر اعلیٰ گجرات،نریندر مودی کی کھل کر مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ انہیں اس سلسلے میں لازماً استعفیٰ دینا چاہیے، ساتھ ہی انہوں نے بھوک ہڑتال پر بیٹھنے کی بات بھی کہی تھی۔ لیکن بعد میں اپنے بیان کو واپس لیا اور کہا کہ میں نے گجرات کے بارے میں جو بیان دیا تھا، میں اسے واپس لیتی ہوں، مجھے لگتا ہے کہ پارٹی کی ایک ذمہ دار ممبر ہونے کے ناطے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔لیکن ایک بار پھر اسمرتی ایرانی صاحبہ موضوع بحث اس وقت بنیں جب موجودہ حکومت نے انہیں مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل کاعہدہ دیا ، اوران کی تعلیمی صلاحیت پر سوالات کھڑے ہوئے ۔یہ بات سامنے آئی کہ الیکشن کمیشن کو جمع کیے اپنے کاغذات نامزدگی میںخود کو انہوں نے بارہویں پاس لکھا لیکن بعد میں انہوں نے اسکول آف اوپن لرننگ سے کامرس کی ایک سالہ پڑھائی مکمل کی۔
ڈاکٹر جے ایس راجپوت اسمرتی کی ادھوری پڑھائی کو بطور وزیر ان کے کام میں رکاوٹ نہیں مانتے،اور کہتے ہیں کہ وزرات توموضوعات کی معلومات رکھنے والے کئی ماہرین کی مدد سے چلتا ہے۔اس سب کے باوجود ہمارا خیال ہے کہ اس اہم عہدہ پر رہتے ہوئے ایرانی نے حالیہ واقعہ کے پس منظر میں ملک کی شبیہ متاثرکی ہے،وہیں تعلیم اور فروغ انسانی وسائل میں کس نہج پر کام کیا اور کروایا جا رہا ہے،اس پر بھی کہیں نہ کہیں روشنی پڑتی ہے۔اسمرتی کے تعلق سے یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ 2001میں شادی شدہ ذبین ایرانی (پارسی)سے انہوں نے شادی کی ۔جبکہ اسمرتی بچپن ہی سے راشٹریہ سوم سیوک سنگھ(آر ایس ایس)کا حصہ رہی ہیں،ان کے دادا سوم سیوک رہے ہیںاور ان کی والدہ بھی جن سنگھ کی ممبر رہی ہیں۔اس لحاظ سے اسمرتی کا فکری و نظریاتی رشتہ آر ایس ایس سے بہت پختہ ہے۔برخلاف اس کے وہ بی جے پی کے ایجنڈے “ہندوئوں کی شادی دیگر مذاہب کے لوگوں سے نہیں ہونی چاہیے”سے شاید اتفاق نہیں رکھتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ دقیانوسیت اور جدیدیت ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں،اور دونوں ہی کی اساس مذہبی عصبیت اورعقل پرستی ہے ۔درحقیقت جدیدیت کلیسائی جبرو استبداد کے رد عمل میں پیدا شدہ ایک مغربی فکر و تحریک ہے۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسوی کے یورپ میں حد درجہ دقیانوسیت اور روایت پرستی پائی جاتی تھی جس کی بنیاد پر اہل کلیسا نے وہاں کے باشندوں کو ظلم کے خونیں پنجے میں جکڑ رکھا تھا۔ لہذا اس تحریک نے عہد وسطیٰ کو تاریک دور قرار دیا اور مذہبی عصبیتوں ، روایت پسندی اور تنگ نظری کے خاتمے کو اپنا ہدف بنایا۔ جدیدیت کی اس تحریک کی نظریاتی بنیادیں فرانسس بیکن، این ڈی کارٹ، تھامس ہولبس وغیرہ کے افکار میں پائی جاتی ہیں جن کا نقطہ نظر یہ تھا کہ یہ دنیا اور کائنات عقل، تجربہ، اور مشاہدے کے ذریعے قابل دریافت ہے اور اس کے تمام حقائق تک سائنسی طریقوں سے رسائی ممکن ہے۔ اس لیے حقائق کی دریافت کے لیے کسی اور سرچشمے مثلاً وحی یا نبوت کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کا وجود ہے۔ صرف وہی حقائق قابل اعتبار ہیں جو عقل، تجربہ اور مشاہدے کی کسوٹیوں پر کھرے ثابت ہوں۔ برخلاف اس کے علم کے حصول کے دوذریعے ہیں ایک علم وہ ہے جو عقل اور حواس کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے اور دوسرا وہ جس کی بنیاد ایمان اور وجدان پر ہے۔ لہذا تعلیم کا حقیقی مقصد انسانی سیرت و کردار کی تعمیر کرکے اس کی تسخیر ِ حیات کی صلاحیت کو تقویت پہنچانا ہے اور اس کے ساتھ ہی خدا ، کائنات ، اور انسان کو ایک کلی نظام کی حیثیت سے دیکھنا ہے۔ چنانچہ محض مادی یا روحانی تعلیم کو مقصود ٹھہرا لینا درست نہیں ۔کیونکہ روح اور مادہ کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا اور تعلیم کا فرض ہے کہ تن اور من دونوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھے اور جسمانی وروحانی تقاضوں کو یکساں اہمیت دے ۔ساتھ ہی تعلیم کا مقصد انسان کو تسخیر کائنات کے لئے تیار کرنا بھی ہے اور اسے ایسے سانچے میں ڈھالنا ہے کہ وہ خود کو مفید شہری بنا کر صالح معاشرے کو وجود میں لانے میں مدد دے۔
سچائی کی اضافیت کا نظریہ اسلامی نقطہ نظر سے ایک باطل نظریہ ہے۔ اسلام اس بات کا قائل ہے کہ عقل انسانی کے ذریعے مستنبط حقائق یقیناً اضافی ہیں اور شک و شبہ سے بالاتر نہیں ہیں۔ اس حد تک ما بعد جدیدیت اسلامی فکر سے ہم آہنگ ہے لیکن اسلام کے نزدیک جن حقائق کا سرچشمہ وحیِ الٰہی ہے وہ حتمی اور قطعی ہیں۔ ان کی جزوی تشریحات و تعبیرات (جس میں فہم انسانی اور عقل انسانی کا دخل ہے) تو اضافی ہو سکتی ہیں، لیکن ان کے واضح معنی ہر اعتبار سے حتمی اور قطعی ہیں۔ مزید یہ بات کہ انسانی عقل حتمی نہیں ہے اور بسا اوقات دھوکا کھا جاتی ہے، اسلام کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے کوئی نئی فکر نہیں ہے۔ جدیدیت نے جس طرح عقلِ انسانی کو حتمی اور قطعی مقام دیا اور عقلیات کو حتمی سچائی کے طور پر پیش کیا، اس پر ما بعد جدیدی مفکرین سے بہت پہلے اسلامی مفکرین نے جرح کی۔ بلکہ یہ مبحث صدیوں قبل امام غزالی اور امام ابن تیمیہ کے افکار میں بھی ملتا ہے۔امام غزالی نے تہافة الفلاسفہ میں ارسطو کی منطق پر خود اسی منطق کے اصولوں کا استعمال کرتے ہوئے جو تنقید کی ہے اس کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ عقل کے ذریعے معلوم حقائق کو محض واہمہ قرار دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کائنات کی وسعتیں اور وقت لا محدود ہے اور انسانی عقل لا محدود کا ادراک نہیں کر سکتی۔ اس لیے اس کے مشاہدات اضافی ہیں اور ان مشاہدات کی بنیاد پر اخذ کردہ نتائج بھی اضافی ہیں۔
اپنی کتاب معیار العلم میں اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے مختلف مثالوں سے ثابت کیا ہے کہ انسانی حسیات کے ذریعے حاصل شدہ معلومات اکثر اوقات دھوکے کا باعث ہوتی ہے۔ صرف آنکھ سے دیکھا جائے تو ستارے چھوٹے ذرات معلومات ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً ان میں سے کئی ستارے زمین اور سورج سے بھی بڑے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نظر آنے والے حقائق بھی ضروری نہیں کہ حقائق ہوں۔ وہ محض حقیقت کا سایہ یا واہمہ ہو سکتے ہیں۔ حسیات کا دھوکا عقل سے معلوم ہوتا ہے اور عقل کا دھوکا کسی ایسے ذریعے سے معلوم ہوگا جو عقل سے بالاتر ہے ،یعنی وحیِ الٰہی۔ جدید اسلامی مفکرین نے بھی جدیدیت پر کلام کرتے ہوئے عقل کی تحدید اور عقل کے ذریعے معلوم حقائق کے اضافی ہونے کو ثابت کیا ہے۔ معروف علماء کا استدلال ہے کہ :”انسانی فکر کی پہلی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علم کی غلطی اور محدودیت کا اثر لازماً پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس خدائی فکر میں غیر محدود علم اور صحیح علم کی شان بالکل نمایاں ہے۔ جو چیز خدا کی طرف سے ہوگی اس میں آپ ایسی کوئی چیز نہیں پا سکتے جو کبھی کسی زمانے میں کسی ثابت شدہ علمی حقیقت کے خلاف ہو یا جس کے متعلق یہ ثابت کیا جا سکے کہ اس کے مصنف کی نظر سے حقیقت کا فلاں پہلو اوجھل رہ گیا۔۔۔ ان کے (علمی قیاسات) غلط ہونے کا اتنا ہی امکان ہوتا ہے جتنا ان کے صحیح ہونے کا، اور تاریخِ علم میں ایسے بہت کم قیاسات و نظریات کی نشان دہی کی جا سکتی ہے جو بالآخر غلط ثابت نہیں ہوئے ہیں۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں : عقلِ بے مایہ امامت کی سزا وار نہیں راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کارِ حیات فکر بے نور ترا، جذبِ عمل بے بنیاد سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شبِ تارِ حیات اسلام کا نقط نظر یہ ہے کہ علمِ حقیقی (یا حتمی اور قطعی سچائی) کا سرچشمہ باری تعالٰی کی ذات ہے۔ اس نے اپنے علم سے انسان کو اتنا ہی معمولی سا حصہ بخشا ہے جتنا وہ چاہتا ہے:”جو کچھ ان کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے اور لوگ اس کے علم میں کسی چیز پر بھی حاوی نہیں ہو سکتے بجز ان چیزوں کے جن کا علم وہ خود ان کو دینا چاہے”(البقرہ:٢٥٥)۔اس طرح جو حقائق علم حقیقی کے سرچشمہ یعنی باری تعالیٰ کی جانب سے وحیِ الٰہی یا اس کے پیغمبر کی منصوص سنت کی صورت میں ظہور پذیر ہوئے ہیں وہ حتمی صداقت (absolute truth) ہیں اور ان کے ماسوا دنیا میں حقیقت کے جتنے دعوے پائے جاتے ہیں، اگر وہ وحیِ الٰہی سے متصادم ہیں تو وہ باطل مطلق (absolute false) ہیں ۔اس پورے پس منظر میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دقیانوسیت کی نہ کوئی حقیقت ہے اور نہ ہی وجود۔
تحریر : محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com