تحریر : دانیہ امتیاز
اردو ادب ہمارا سرمایہ ہے، ہم اپنے شعراء اور مصنفوں کی خدمات پر سلام پیش کرتے ہیں، اردو ادب ایسی تحاریر سے بھرا ہوا ہے جن کا موضوع معاشرے کی بہتری و بھلائی ہے، ہمارے مصنفوں نے ہر دور میں معاشرے میں سدھار پیدا کرنے کے لیے اپنا قلم اٹھایا، بیشک اللہ تعالی نے قلم میں بے پناہ طاقت رکھی ہے قلم کا صحیح استعمال کر کے کسی بھی معاشرے کو برائیوں سے پاک بنایا جا سکتا ہے۔اردو ادب کی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے قلم کمان نے اپنا قلم مثبت انداز میں استعمال کیا مگر افسوس کہ آج کے لکھاری اپنی تاریخی حیثیت سے ہٹ گئے ہیں، بلاشبہ اس دور میں بھی ایسی تحریریں رقم کی جارہی ہیں جن کا مقصد معاشرے کی بھلائی ہے مگر اکثر لکھاری دوسری ڈگر پر چل پڑے ہیں جو اردو ادب کی ہرگز منافی ہے۔
آج کے ناول پڑھو تو گویا ایسا گمان ہوتا ہے کہ ہم اردو ادب نہیں کوئی انگریزی مواد پڑھ رہے ہوں۔ ہمارے بڑے بڑے ناموار لکھاریوں نے بھی اگرچہ رومانس کو اپنا موضوع بنایا ہے تاہم حدود و قیود کو بالا طاق نہیں رکھا، مگر آج ساری حدود کو پس پشت ڈال کر انتہاء ناقابل بیان انداز میں لکھے جا رہے ہیں، حالانکہ اس دور میں بھی سب قارئین ایسا مواد پڑھنا پسند نہیں کرتے۔
اگر ایسا ہوتا تو نئی نسل ہرگز مرحوم اشفاق احمد، سعادت حسن منٹو، مستنصر حسین تارڑ، عمیرہ احمد ودیگر کی کہانیوں کے دیوانے نہ ہوتے۔ پچھلے دنوں ایک رائٹر کا ناول بہت مقبول ہوا، رائٹر نے بڑی خوبصورتی سے ایسی تحریر مرتب کی جو دینی اور معاشرتی لحاذ سے انتہاء منفرد تحریر تھی اس میں رومانس نہیں بھرا ہوا تھا اور حیرت انگیز طور پر اسے نئی نسل نے بہت پسند کیا۔
ایک مخصوص طبقہ ہی ایسے ناول یا کہانیاں پڑھنا پسند کرتا ہے جن میں ہواس باختہ جملوں کا استعمال کیا گیا ہو ، سب نہیں ایک طرف یہ آواز آتی ہے کہ جی انڈین اور ہالی وڈ موویز بھی تو دیکھی جاتی ہیں تو اردو ناولز میں ایسی بے ہودہ منظر کشی کے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ایسے افراد کو جان لینا چاہیے کہ ہم اردو ادب کا انڈین اور ہالی وڈ موویز سے موازنہ نہیں کرسکتے ہم ہنس کی چال نہیں چل سکتے اور دوسری بات یہ کہ اس دور میں بھی واحیات موویز تک سب کی رسائی نہیں مگر ایک رسالہ اور ڈائجسٹ ضرور پہنچ میں ہے پھر ایک طرف کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ کم عمر یا کچے ذہن کے لوگ نہ پڑھیں، کیوں نہ پڑھیں ہمارا ادب ہے ہم سب کا حق ہے کہ ہم پڑھیں اور اس سے مستفید ہوں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے لکھاریوں کو کم سے کم جگہ دی جائے جن کی وجہ سے کچے ذہنوں پر پڑھنے کی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔
ایک تحریر، اسٹوری اور واقعہ بذات خود اصلاح ہوتا ہے، معاشرے کی اصلاح ، ہمارے کچے ذہنوں کی اصلاح ہو، ہم ایسا لکھیں جس سے کچے ذہنوں میں پختگی آسکے، بھٹکے لوگ صحیح راہ پہ لوٹ آئیں تو شاید معاشرے میں سب بڑا مصلح خود یہ لکھاری ہو گا۔ اس بے ہنگم دور میں ایسی تحریریں رقم کی جائیں جس سے قارئین کو صاف ستھرا تفریح ماحول مہیا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے معاشرے پہ بھی مثبت اثرات مرتب ہوں لوگ اس کٹھن وقت میں مطالعہ کر کے سکون حاصل کریں نہ کہ ان کے ذہن منتشر ہوں۔
محبت زندگی کا حصہ ہے مگر جب حد سے بڑھ کر لکھا جائے تو وہ صرف بگاڑھ کا سبب بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب قلم کمان کو قلم کے صحیح استعمال کی توفیق دے اور آخر میں ان تمام اشاعتی اداروں سے التجا ہے کہ وہ سینسر پالیسی کا نئے سرے سے تعین کریں اور ایسی پالیسی مرتب کریں جس سے اردو ادب کی تباہی اور معاشرے میں پھیلتے بگاڑھ کو روکا جا سکے۔
تحریر : دانیہ امتیاز