ملک چلانا اور حکومت کرنا کوئی آسان کام نہیں، ملک کی عوام کا پیٹ کسی کی دشمنی سے نہیں بھر جاتا، دوسروں کو دھمکیاں دینے کو ترقی نہیں کہتے ، گلے پھاڑ پھاڑ کر بے ہود تقریریں کرنے سے کچھ نہیں ہوتا ، نہ ہی غیر ملکی دورے کر کے آقاوں کے تلوے چھاٹنے سے اقتدار کو بڑھاوا ملتا ہے۔ ایسی ہی کچھ صورت ہمسایہ ملک بھارت کے وزیراعظم مودی کی ہے جس نے اپنی چار سال کی حکومت میں اپنی عوام کو جھوٹی تسلیوں ، پاکستان دشمنی ، مسلمانوں کے ساتھ تصب میں وقت برباد کر کے کی ہے۔ مودی پوری دنیا کے دورے کر کر کے اس نے دنیا کا کوئی ملک نہیں چھوڑا اور کوئی ایسا ملک نہیں ہوگا جس کا کوئی نہ کوئی اہم رکن بھارت نہ گیا ہو۔ اب مودی کے دورے ہوں یا بھارت آنے والوں کی آمد سب سیاحتی دورے ثابت ہوئے۔ مودی کی جماعت بی جے پی ایک انتہا پسند جماعت ہے جوکہ بھارت میں اقلیتوں کا وجود برداشت ہی نہیں کرتی ، بی جے پی کا ہندو انتہا پسند تظیم آر ایس ایس کے ساتھ مکمل گٹھ جوڑ ہے جو کہ کھل کر مسلمانوں اور نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے دلتوں کی قاتل تنظیم ہے۔
مودی کی غلط پالیسوں کی وجہ سے حالیہ میں ہونے والے ریاستی الیکشن میں بی جے پی کو سخت ناکامیوں کا سامنا رہا، اور آئندہ ریاستی الیکشن کرناٹک میں ہونے والے ہیں جن کی صورت حال میں ناکامی کو پھانپتے ہوئے۔ بی جے پی کے مرکزی وزیر و سینئر رہنما یشونت سہنا نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی۔ یشونت سہنا مودی کی غلط پالیسوں کی وجہ سے سخت نالاں تھے وہ کافی دونوں سے بیان دے رہے تھے ان کا ایک بیان 17 اپریل 2018 کو ہندوستان ایکسپریس میں شائع ہوا تھا جس میں یشونت سہنا کے لیے اخبار نے لفظ باغی استعمال کیا تھا اس سے لگتا ہے وہ کافی دونوں سے پارٹی کے ساتھ بغاوت کر چکے تھے جس کا اعلان انہوں نے اب آ کے کیا ہے۔ اخبار میں ان کے بیان کے مطابق انہوں نے باقی ارکان کو بھی کہا جمہوریت بچانے کے لیے آگے آئیں اور آواز بلند کریں انہوں نے مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہاتھا کہ مودی نے اپنے اقتدار میں پانچ بجٹ پیش کیے ہیں لیکن ملک میں کسی قسم کی کوئی مثبت تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔
یشونت سہنا کے پارٹی چھوڑنے سے پہلے راجستھان میں بی جے پی کے پارٹی صدر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور ایسے ہی آندھرا پردیش سے بی جے پی کے صدر ہری بابو نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر پارٹی چھوڑ دی تھی۔ دوسری جانب بھارت میں سیکولر جماعتوں کا اتحاد بنتا جا رہا ہے جوکہ 2019 الیکشن میں مودی کی جماعت بی جے پی کے لیے مشکلات پیدا کرے گا۔ گزشتہ ہفتے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسٹ کے جنرل سیکریٹری شیارام یچوری نے بیان دیا تھا کہ ملک میں بحران سی کیفیت ہے نوجوان طبقہ بے روزگار ہے اور ملک بھر میں مسلمانوں اور دلتوں کو نشانہ بنایا جاریا ہے۔
بھارت میں بی جے پی کی تربیت کا یہ نتیجہ ہے ایک 8 سال کی مسلمان مصوم بچی آصفہ کو درندگی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا جاتا ہے تو جب تین ماہ بعد بھارتی میڈیا اور حکومت کو ہوش آتا ہے تو اس بچی کو انصاف دلانے کے لیے عوام آواز بلند کرتی لیکن بی جے پی کے لوگ ان درندوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اناو ¿ میں ایک دلت ذات نوجوان لڑکی کی عصمت زیری میں بی جے پی کا ایم ایل اے ملوث پایا گیا جب لڑکی کے والدین نے شکایت کی تو الٹ اس کے والد کو تھانے میں بند کر دیا جہاں تشدد سے اس کی موت ہو گئی۔ اسی لڑکی نے ریاست کے وزیراعلی کے گھر کے سامنے خودکشی کر لی ، جس کے بعد پورے بھارت میں احتجاج کا تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا تو تب جا کر مودی حکومت کو ہوش آیا اور بعد میں اس ایم ایل اے کی گرفتاری عمل میں آئی حال ہی میں ایک عدالتی فیصلے کے بعد بھارت میں ہنگامے پھوٹ پڑے جس میں کسی دلت کو کوئی اونچی ذات کا ہندو مارے گا یا تشدد کرے گا اسے پولیس اس وقت گرفتار نہیں کر سکتی جب اعلی پولیس آفیسر اجازت نہ دے، نوٹ بندی کے معاملے میں بھی مودی کی حکومت کو سخت تنقید کا سامنا رہا ، اسی پالیسی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لوگ چھپائی ہوئی رقم باہر نکالیں گے لیکن کیا ہوا ، ایک بنک کار اور بزنس مین نیرو مودی ہزاروں کروڑ ملک سے لوٹ کر ہانگ کانگ جا بیٹھا ، جس کو گرفتار کروانے میں مودی حکومت تاحال ناکام ہے۔ بھارت میں نوٹ بندی کے بعد اب حال ہی میں نوٹ مندی کا سلسلہ جاری ہے ملک میں کرنس نوٹ غائب ہو گئے ہیں سرمایہ کاروں نے پیسے کی گردش کو روک کر اپنے پاس محفوظ بنا لیا ہے۔ بھارت کی اس وقت دس ریاستوں جن میں سرفہرست آندھرا پردیش ، کرناٹک ، تلنگاہ ، مدییہ پردیش ، اور بہار میں کرنسی نوٹوں کا بحران ہے اے ٹی ایم میں کیش نہیں اور بنکوں کو ان کی ضرورت کا ساٹھ سے پچاس فیصد کیش دیا جارہا ہے بھارت کی ایک ریاست تلنگاہ میں 8500 اے ٹی ایم کیشن نہ ہونے کے سبب بند پڑی ہیں۔ دراصل کیش بحران کی وجہ مختلف ریاستوں میں ہونے والے الیکشن ہیں ابھی کرناٹک میں الیکشن ہونے والے ہیں جس کے لیے ووٹوں کی خرید فروخت کی جائے گی اور ساتھ ہی اپریل 2019 میں جنرل الیکشن پر بھی اسی پیسے کے سٹاک کو کام میں لایا جائے گا۔
مودی حکومت کی ناکامیوں کا سلسلہ صرف نوٹ بندی اور نوٹ مندی پر ختم نہیں ہوتا، مودی بھارت کو شائنگ انڈیا بنانے کا خواب تو دیکھ رہا ہے وییں ستر فیصد عوام کھلے میں رفاع حاجت کے لیے جاتی ہے اور عوام اتنی غریب ہے کہ ٹوائلٹ بنوانے کی سکت نہیں رکھتی مودی حکومت ٹوائلٹ بنا کر عوام سے آئندہ الیکشن کے لیے ووٹ مانگے جارہے ہیں اب اس میں بھی مودی حکومت کی کارکردگی یہ ہے کہ 350 اضلاع میں تین لاکھ 50 ہزار ٹوائلٹ مشکل سے بنائے گئے ہیں اور یہ اصل ٹارگٹ کا 20 فیصد بنتا ہے جبکہ ریاست بہار میں بے گھر افراد کے لیے 11 لاکھ 26 ہزار گھر بنائے جانے تھے لیکن بامشکل پندرہ ہزار گھر ہی مکمل کیے جا چکے ہیں زراعت کے شبعہ میں مودی حکومت کے حالیہ پانچوں اور آخری بجٹ میں کسانوں کو ریلف دینے کا اعلان تو ہوا تھا پر ان کی حکومت سے کسان کو یہ ریلف وہاں تو نہ ملا پر زندگی سے موت کی طرف جانے کا ریلف بڑی تیزی سے ملتا جاریا ہے ہر روز دو درجن سے زیادہ کسان خودکشی کر رہے ہیں۔ مودی حکومت نوجوانوں کو روز گار دینے کے لیے حال ہی میں محکمہ ریلوے کی ایک لاکھ آسامیوں پر بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا تو جب آسامیوں پر بھرتی کے لیے دراخوستیں طلب کی گئی تو بے روزگاروں کی فوج آن ٹوٹی اور اسٹریلیا کی مجموعی آبادی کی تعداد کے برابر بے روز گاروں نے درخواستیں جمع کروائیں۔ اس وقت بھارت میں ساڑھ چار لاکھ آسامیاں خالی پڑی ہیں پرحکومت کے پاس پیسہ نہیں کہ ان بے روز گاروں کو روز گار فراہم کیا جائے۔
بھارت میں جب سے مودی کی حکومت بنی ہے تب سے خواتین اور بچوں پر جنسی حملوں اور ایسے واقعات کی تعداد میں آضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد 34 فیصد تک بڑھ چکی ہے صرف 2015 میں ایسے کیسسز کی تعداد 34ہزار 6 سو تک تھی اور 2016 میں یہ تعداد 38 ہزار 9 سو تک پہنچ گئی یہ ہی نہیں اس وقت خواتین پر تشدد اور جنسی حراساگی و زیادتی کے کیسوں میں ملوث48 ارکان پارلیمنٹ میں براجمان ہیں جن میں 12 کا تعلق بی جے پی سے ہے۔
بھارت میں اس وقت بارہ کے قریب ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، مسلمانوں کے ساتھ بڑھتے نسلی تصب کی یہ صورت حال ہے کہ کشمیر کے مسلمانوں بے ظلم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی کشمیر میں پناہ لینے والے 5700 روہنگیا کے مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی دھمکیاں دی جاری ہیں ریاست آسام کے مسلمانوں کو ستایا جا رہا ہے کہ وہ یہاں کے مقامی آباد کار ہیں نہیں اور انہیں ملک بدر کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ مزید تصب میں آضافے کے امکانات بڑھ گئے ہیں ریاست مدھیہ پردیش میں حکومت نے ہندو مذہبی باباو ¿ں کو صوبائی وزیر کا درجہ دے دیا ہے ابتدائی طور پر پانچ بابے جن میں ہری ہرانید ، نرمد، بھبوجی ، مہاراج ، کمپیوٹر بابا ، اور پنڈت یوکند شامل ہیں۔ اگر دیگر ریاستوں میں بھی ان باباو ¿ں کو وزیر کا درجہ دیا جاتا ہے تو یہ لوگ مزید مسلمانوں کے خلاف تصب کو بڑھائیں گے۔
اب موجودہ صورت حال میں یہ واضع نظر آرہا ہے کہ مودی کے گھر جانے کی بھاری آگئی ہے آئندہ ریاستوں میں الیکشن کے اور جنرل الیکشن کے اثرات کرناٹک کے انتخابات کے نتیجے سے ہوگا ایک تو یشونت سہنا کا پارٹی چھوڑنا دوسرا کرناٹک میں لنگانت فرقہ پر کانگریس کا اتحاد بنتا جارہا ہے کرناٹک میں لنگانت کی آبادی 20 فیصد ہے جبکہ مسلم آبادی 15 سے 20 فیصد ہے جوکہ بی جے پی سے مکمل نالاں ہے جبکہ 2019 کے الیکشن کو دیکھا جائے تو بھارت میں 16 فیصد دلت آباد ہیں اور اسی طرح مسلمانوں کی آبادی 25 فیصد سے زیادہ ہے جو بی جے پی کو حکومت کو پسند نہیں کرتی ہے۔ اور تاحال 2019 کے الیکشن میں مودی کی آثار نمودار ہورہے ہیں اور مودی جی گھر جانے والے ہیں۔