تحریر : میر افسر امان
بڑی خوشی کی بات ہے کہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان اچانک جاتی امرا نواز شریف کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی۔ سیکر ٹری وزارت خارجہ اعزاز احمد صاحب کے مطابق وزیر اعظم بھارت مودی نے ساڑھے گیارہ بجے نواز شریف صاحب کو فون کیا کہ وہ کابل سے واپس وطن جاتے ہوئے آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ نواز شریف صاحب نے کہا کہ میں تو لاہور میں ہوں تو مودی نے کہا میں لاہور آجاتا ہوں۔ نواز شریف نے کہا کہ آجائیں۔ عقل ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اس ملاقات کو اچانک ملاقات مان لیا جائے یہ کوئی دوعام آدمیوں کی ملاقات ہے کہ جب چاہی جس وقت چاہی ہو گی۔
دونوں حضرات بڑے ملکوں کے وزرائے یر اعظم صاحبان ہیں دونوں ملکوں کے درمیان بہت بڑے بڑے اختلافات ہیں ۔افغانستان کی نئی پارلیمنٹ کی عمارت جس کو بھارت نے اپنے خرچہ پر افغانستان کے لیے تیا کرایا ہے کے افتتاح کے موقعے پر مودی نے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگایا اور پھر اچانک نواز شریف صاحب سے دوستی نبانے کے لئے لاہور تشریف لے آئے۔ان کے ساتھ پوری سرکاری ٹیم بھی تھی جس میں سلامتی کے بھارتی مشیر بھی شامل تھے۔ اسلام آباد میں موجود بھارت کے سفارت کار بھی لاہور پہنچ گئے تھے۔دوسری طرف نواز شریف کے ساتھ صرف ایک سرکاری اہلکار تھا جو وزارت خارجہ کا سیکر ٹری ہے وہ بھی اس لئے کہ کہ وہ لاہور میں گھر ہونے اور چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے لاہور میں موجود تھا جو صرف اتفاق ہے جو میٹنگ میں شریک ہوا۔
جب بھارت کا سفارت کار میٹنگ کی اطلاح پر اسلام آبادلاہور سے آسکتا ہے تو ہمارے قومی سلامتی کے مشیر کو کیوں نہیں بلایا گیا اور اسی طرح دوسرے ضروری سرکاری اہلکاروں کو بھی اگر نوازشریف صاحب چاہتے تو شریک کیا جا سکتا تھا۔ ایک طرف مودی کے ساتھ پوری بھارتی اہلکاروں کی ٹیم تھی اور دوسری طرف نواز شریف کے ساتھ ان کے بھائی شہبازشریف،اسحاق ڈاراور سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد صاحب شریک ہوئے تھے۔ اس لیے کہا جارہا ہے یہ دورہ موودی سرکاراوردوسری طرف نواز شریف صاحب کے رشتہ داروں کی میٹنگ تھی جس میں پاکستان سے زیادہ اپنی تجارت کا خیال رکھا گیا۔سرکاری اطلاع کے مطابق اگریہ اچانک ملاقات تھی۔ اس میں بھارت اسٹیل کا بڑا سرمایہ کار سجن جندل جس کے نواز شریف کی فیملی کے ساتھ ذاتی تعلوقات ہیں کیا کرنے آیا تھا۔جندل بھارت کا ایک اسٹیل ٹائیکون ہے جس نے مودی کی حلف برداری کی تقریب میں نواز شریف صاحب سے چائے میں بھی ملاقات کی تھی حسین نواز سے اس کی دوستی ہے۔
بھارتی صحافی برکھا دت نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سارک کانفرنس کے دوران بھارتی اورپاکستانی و ازائے اعظم کے مابین ایک گھنٹہ طویل خفیہ ملاقات اس جندل نے کرائی تھی اسی لیے کہا جارہا ہے بھارت کے اسٹیل تائیکون جندل یہ مودی نواز ملاقات کرائی ہے۔ بعد میں سیکر ٹری وزرات خارجہ جناب اعزاز احمدنے اخباری نمائندوں کو پریس کانفرنس میں بتایا کہ مودی دورے سے باہمی اعتماد سازی کو فروغ ملے گا۔بھارت سے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے سیاسی اور عسکری قیادت متحد ہیں۔بھارتی وزیر اعظم کا پاکستان کا مختصر و غیر رسمی دورہ ہے۔اس اچانک مودی نواز ملاقات پر سیاست دانوں کا ملا جلا رد عمل ہے ۔مسلم لیگ ق کے رہنما اور سابق نائب وزیر اعظم پاکستان چوہدری پرویز اہلیٰ نے پریس کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کی مودی نواز ملاقات میں ان کے ذاتی تعلوقات بہتر ہوئے پاکستان دشمنی وہی کی وہی ہے۔حافظ سعید صاحب نے کہا بھارت دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔شیخ رشید نے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جلد کہانی سامنے آ جائے گی شریف برداران کو ملکی مفادات نہیں اپنا کاروبار عزیز ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے پاک بھارت مذاکرات میں پارلیمنٹ کا اعتماد ضروری ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ مودی ایک دہشت گرد شخص ہے وہ بھارت کی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کا بنیادی ممبر ہے جس نے صوبہ گجرات میں ڈھائی ہزار مسلمانوں کو بے قصور اپنی صوبے کی پولیس اور آر ایس ایس کے غنڈوں کے ذریعے قتل کرایا تھا۔ کئی ملکوں نے مودی کو ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا جس میں امریکا بھی شامل ہے۔ مودی نے کشمیر میں ظلم کی بھٹی بھڑکا رکھی ہے ۔ گودھرا ٹرین میں سیکڑوں مسلمانوں کو زندہ جلوایا۔ ١٩٧١ء میں مکتی باہنی کی سرپرستی کر کے پاکستان کو توڑنے میں شامل تھا جس اعتراف اس نے بنگلہ دیش میں خود کیا ۔ کراچی ،فاٹا اور بلوچستان میں افغانستان کے ذریعے دہشت کروا رہا ہے جس کے ثبوت حال ہی میں دنیا کو پیش بھی کئے گئے۔ کچھ حلقوں کے نزیک اس مودی سے نواز شریف نے بغیر ایجنڈے پاکستان کے مفادات کے بجائے ذاتی کاروبار کی غرض سے ملاقات کی ہے۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی مودی کے دہشت گردانہ ریکارڈ کے خلاف اور اس بغیر ایجنڈے کے اچانک دورے پر اعتراض کیا اور کہا کہ نواز شریف اپنا نظریہ درست کر لیں ۔بھارت کشمیریوں کوعالمی قرادادوں کے مطابق حق خوداداریت نہیں دیتا تو دوستی نہیں ہو سکتی۔
جمہوری دور ہے ہر کسی کو اپنے نکتہ نظر کے اظہار کرنے کا حق ہے۔ سرکاری ٹی وی کے علاوہ نجی ٹی وی اینکر نے بھی اس اچانک دورے پر اپنے اپنے تبصرے کئے مگر ہمیں ایک جنوبی پنجاب کے رہنے والے ٹی وی اینکر جو کہ عموماً سچی اور کھری باتوں کے لیے مشہور ہیں نے جماعت اسلامی کے جمہوری حق پر تبصرہ کرتے ہوئے نہ جانے کیوں روز روشن کی طرح جانتے ہوئے بھی کہ ایک تاریخی طور پر غلط بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی نے پاکستان کی مخالفت کی تھی اور اب بڑی پاکستان وکیل بنی ہوئی ہے۔ اس پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان صاحب نے ان کی اس غلط بات پر گرفت کرتے کہا کہ ٹی وی اینکر نے اس موقعہ پر یہ غلط بات کی ہے اگر ان کے پاس ثبوت ہے تو پیش کرے۔ یاد رہے مسلم لیگ نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا تھا۔
جماعت اسلامی کے امیر مولانا موددی جن کے اس موقعہ پر لکھے گئے دوقومی نظریہ پر مضمونوں کو تحریک پاکستان کے دروران مسلم لیگ کی قیادت عوام کے سامنے پیش کرتے تھے تو یہ مخالفت ہے یا حمایت! جب پاکستان بنا تو قائد اعظم نے مولانا مودی کو کہا کہ آپ پاکستانی عوام کو بتائیں کہ اسلامی نظام کیسے نافذ ہو گا تومولانا نے پاکستان میں اسلامی عملی طور پر فافذ ہونے کے طریقہ کار پر ریڈیو سے مسلسل کئی تقریریں کی تھیں جو کو پاکستان کے عام و خاص لوگوں نے سنی تھیں جس کاریکارڈ اب بھی ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔کیا پاکستان کی مخالفت کرنے والے مولانا موددی کو قائد اعظم تقریرں کرنے کا کہتے؟۔مفکر پاکستان علامہ اقبال نے مولانا موددی کی اسلام کی خدمات پر انہیں پنجاب منتقل ہونے کا مشورہ دیا تھا پھر مولانا پنجاب کے پٹھان کوٹ میں شریف لائے تھے۔
اس لیے اس پاکستان مخالفت والے جھوٹ کو ایک اچھے نام والے ٹی وی اینکر کو بے سوچے سمجھے عوام کے سامنے بیان کرنے میں احتیاط پرتنے چاہیے ۔وہ خود جماعت اسلامی کو واحد کرپشن سے پاک جماعت کہہ چکے ہیں۔ ہاںپیٹ پوجا والا کوئی ٹی اینکر ایسی جھوٹی بات کرے تو دوسری بات ہے۔پاکستان میں رہنے والے سب پاکستان کے وفادار ہیں اس لیے ایک دوسرے کے خلاف بغیر تحقیق اور ثبوت کے الزامات اور بیانات پر احتیاط برتنی چاہیے۔
جماعت اسلامی نے ١٩٧١ء میں پاکستان کو بچانے کے لئے قربانی دی۔کشمیر پر اس کی قربانیوں سے پوری قوم واقف ہے۔پاکستان میں آئینی جدو جہد اس نے کی ہے۔ قراراداد پاکستان کو آئین کا حصہ بنانے اوراسلامی آئین کی تشکیل میں اس کی محنت شامل ہے۔ اس نے پاکستان میں سرخ اندھی،لادینی اور سیکرلر نظریات کے سامنے ہمیشہ بند باندھنے کی کوشش کی ہے۔ بہر حال پاک بھارت مذاکرات اور لیڈروں کی ملاقاتیں ہوتی رہنی چاہیں مگر کسی ایجنڈا پر ۔ پھر بھی اس ملاقات کے مندجات پر پارلیمنٹ میں بحث ہونے چاہے تاکہ عوام معلومات اور کی تسلی ہو سکے۔پاک بھارت بات چیت کشمیر پر ہونے چاہیے جو پاکستان کی شہ رگ ہے جو پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے۔
تحریر : میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان