تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی اعوان
ہندو بنیے کی کیا بات ہے مودی پہلے افغانستان پہنچا خوب بغل گیر ہو کر بغل سے چھر یاں پا کستان کی پیٹھ میں گھو نپتا رہا اور ہمیں کیا کچھ نہیں کہا پھر” شریفوں “کے گھر گھس کر منافقانہ مسکراہٹوں کوبکھیر تے ہوئے نوازی سالگرہ اور نواسی کی مہندی کی تقریب میں کشمیری مسلمانوں کے خون میں بھیگے ہوئے ہندوستانی کپڑوں کے جوڑے تحفہ میں دیے شریفوں نے تاریخی استقبال کرکے کشمیری مسلمانوں اور افواج پاکستان کی عظیم شہادتوں سے غداری کا تمغہ ماتھوں پر سجا کراسے یہ تاثر دیا کہ ہم تو آپ کی تمام پالیسیوں کے قطعاًخلاف نہیںبلکہ حامی و مدد تک تیار ہیں آپ وہاں گائے ذبح کرنے یا اس کا گوشت کھانے والے مسلمانوں کو ذبح کرتے رہوبارڈر لائن پرہماری افواج کے نوجوانوں کومزید “شہادتوں”سے دوچار کرتے رہو۔ ہم کاروباری لوگ ہیں ہمیں ایسی باتوں سے کیا لینا دینا؟یحییٰ خانی دور کا سچا واقعہ قا رئین اکرام کے گوش گزار کر تا ہوں پنجاب کے وزیر اعلیٰ فلاں (سکھ)یعنی سنگھ صاحب گورنر ہائوس میں حلف اٹھائیں گے۔پنجاب کے جاگیرداروں نے خبر کو پڑھنے کے بغیر گو نا گوں گورنر ہائوس لاہور کے باہرملاقاتیوں کی قطاریں لگ گئیں۔
ہرایک دوسرے سے پہلے ملاقات کرکے وزارت کے پنگھوڑے میں جگہ بنانا چاہتا تھا۔گورنر ہائوس لاہور کے افسروں کو پہلے تو سمجھ ہی نہ آئی کہ یہ لوگ اتنی تعداد میں کیوں ملاقات کرنا چاہتے ہیںجب انھیں بتایا گیا کہ وہ تو بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی خبرہے تو سبھی کھسیانی بلی کی طرح واپس مڑے۔جاگیردار تو دراصل سکھ وزیر اعلیٰ کواپنی رشتہ داری بتانے آئے تھے کہ ہم دراصل وہی ہیں جن کی مائوںسے تقسیم ملک کے وقت اور بعد میں ان کوجعلی مسلمان باپوں کا نام الاٹ کردیا گیا۔اصل میں یہ جا گیر دار تو ان یعنی آپ کی ہی اصل اولاد ہیں اور تو اورہمیں تو انگریزوں نے جاگیریں عطا کرڈالی تھیں۔ اس لیے وزارتوںپر تو ہمارا حق ہی فائق ہے نہ!اسی طرح اب”شریف”بیچارے توزرادری کے ساتھ پرانے حلف اور اس کے احسانات کی پاسداری کرکے اسے اورہر کرپٹ شخص کو تحفظ دینا چاہتے ہیں ۔مگر بس نہیں چلتادرمیان میں رینجرز اورافواج پاکستان رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
جو ہر قیمت پر اغوا برائے تاوان،سرکاری خزانہ ہڑپ کرنے والوں ،قاتلوں ،ڈکیتوں کو نتھ ڈالنا چاہتی ہے۔شریفوں کا مودی کے ساتھ بھی ذاتی اورکاروباری تعلقات استوار کرنا ہی مقصود ہے تاکہ ھینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ چوکھا آوے انھیں تو منافع ہی نہیں بلکہ سودی اور چوکھا منافع چاہیے سرکاری سَودوں میں توسارا مال بھی ہڑپ کرجائیں تو مضائقہ نہ ہو گا۔بیشک اس سُودی عمل سے69دفعہ سے ماں سے زنا کرنے والا”گناہ”ہی کیوں نہ فٹ بیٹھ جائے۔بالاخر جب ایک تحر یک یا محمو د غذنو ی کی صدائیں پھر سے بلند کرتے ہوئے پسے ہوئے مظلوم طبقات اٹھیں گے توایسے بھگوڑوں کا نزدیکی ٹھکانہ بھارت ہی ہوسکتا ہے۔کبھی صنعتکاروں کو کارخانے چلانے کے علاوہ کوئی سرکاری عہدہ دنیا بھر میں نہیں دیا جاتا۔مگریہاں تو صدر وزیر اعظم ،وزیر اعلیٰ تک بن بیٹھتے ہیں۔یہاں تک کہ کاروباری مفاد کے لیے خود ہی اپنے بندوں سے گدھے ذبح کرواتے ہیں تاکہ گوشت سے نفرت ہواس کی فروخت کم ہو جائے اور ہمارا چونکہ برائلر مرغیوں کا کاروبار ہے وہ زیادہ پھلے پھولے جس کاواضح ثبوت یہ ہے کہ آج تک کسی گدھے کا گوشت فروخت کرنے والے کو سزا نہیں ملی۔ زلزلہ آجائے یا سیلاب یا کوئی دوسری قدرتی آفت ہمارے حکمرانوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں بیرونی ممالک سے امداد آتی ہے اور خورد برد کرنے کے تو یہ ماسٹرز ہیں ۔ایسا پراجیکٹ شروع کرتے ہیں جس میں مال زیادہ بنے۔
جنگلہ بس کے اونچے میناروں پر کتنا “اتفاقی”سریا دفن ہوا کوئی بھلا کیسے جانے گا اسی لیے تو بیرونی ممالک کی نسبت ایسے کاموں پر یہاں 4یا6گناہ زیادہ سرمایہ خرچ ہوتا حساب کتاب میں دیکھا ئی دے رہا ہے۔ اگر باڑ ہی فصل کھانے لگے تو پھر کیا ہو گا؟ یعنی بلی کو دودھ کی رکھوالی بٹھائو گے تو سارا ہی دودھ پی جائے گی۔مودی کی ملاقات میں کاروباری عزیز اسحاق ڈار تو موجود تھا اگر نہیں تھا تو خارجہ یادفاعی امور کا کوئی سیکریٹری یا وزیر۔ یہود و نصاریٰ ہر گز ہمارے دوست نہیں ہوسکتے مگر آپ اپنے ذاتی تعلقات بنانے اور کاروباری ترقیوں کے لیے آخری انتہائوں کو بھی چھو گئے ہیں۔نہ آسمان گرا نہ زمین پھٹی مگر زلزلہ کے جھٹکے لگے اور خدا تعالیٰ کی انتباہ ضرور آگئی۔ہندوئوں تو آپ گھر کے باہر موجود تھڑے پر چڑھ جائیں تووہ گائے کے پیشاب سے دھوتے ہیں تاکہ “پاک صاف”ہوجائے۔ مگر نکاح سے قبل وہ تمہارے سارے گھر میں دندناتا پھرتا رہا۔ کیا آپ نے اس کے جانے کے بعدکلمہ کا ورد کروایا ہے کہ نہیں اور اپنی جگہوں اور برتنوں کو عرق گلاب سے دھو کر پاک کیا ہے کہ نہ جب کہ آپ کو یا د ہو گا کہ جب آپ کسی سے بھی صلاح مشورہ کیے بغیربھارتی وزیر اعظم کی حلف برداری میں گئے تھے تو جن برتنوں میں آپ اور آپ کے وفد نے کھانا تناول فرمایا تھا وہ سارے برتن بعدمیںتوڑ ڈالے گئے تھے کہ یہ تو “پلید “ہو گئے تھے۔
ان کے عقیدہ کے مطابق مسلمانوں کا ہاتھ لگنے سے “چھوت “ہوگئے تھے۔ایک سربراہ کی غلطی کا خمیازہ پوری پوری قومیں بھگتتی ہیں کہ اسے انھوں نے ہی سر وں پر بٹھایا ہو تا ہے۔مودی گیاتو سرکاری پالتو بکریاں اور کتے بلبلا نے لگے۔نہ کسی کابینہ سے مشاورت نہ کسی اسمبلی فلورسے اجازت کہ ہم خود ہی خارجہ داخلہ و دفاعی امور کے ” وزیر ” ہیں ۔اس لیے فوج کے سربراہ سے تو پو چھنے کی ضرورت ہی نہ تھی جو کہ بارڈروں پر روزانہ قربانیاں دے رہے ہیں۔وہ گولیاں ماریںاورآپ جپھیاں ڈالیں خدا کی لعنتیں ضرور بالضرور برسیں گی اور حکمرانو یاد رکھنا کہ تمہارا حشر کسی بھی سابقہ اور موجودہ ڈکٹیٹر سے بد ترین ہونے والا ہے اور جو عمرانی یا زرداری پارٹیاں ایسے تمام حکومتی کارناموں پر مذمت ہی نہیں بلکہ واہ واہ کر رہیں۔
مجھے امید ہے محمد بن قاسم ،محمود غز نو ی صدائیںگونجیں گی توگہری کھائیوںمیں مدفون ہوں گی اور جس گائے کو ذبح کرنے اور اس کا گوشت کھانے والے مسلمانو ں کو ہندو بنیوں کی طرف سے قابل گردن زدنی قرار دیا جارہا ہے وہ ہندو ا اور ماڈرن اسلامی فلاحی مملکت بھارت میں تو روز کئی ” بسمائیں ” قتل ہوتی ہیںاور ڈھاکہ فال کے دن27000ہماری بہنوں بیٹیوں کو”را “اوراسکے ایجنٹ اٹھا کر لے گئے تھے اور ہم ٹھہرے ایسے غیرت مندکہ اپنی غیرتوں کو لوٹنے والے قاتلوں کو پروٹوکول دیتے جھپیاں ڈالتے ان کی دی ہوئی پگ شادی پر اوڑھ کربھی مسلمانوں کے سربراہ اور رکھوالے کہلاتے ہیں خدا ایسے حکمرا نوں سے ملک پا کستان کو محفوظ رکھے۔
تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی اعوان