سنہ 2024 میں اپنے دوسرے دورِ اقتدار کے اختتام پر نریندر مودی ایک ایسے ملک کی سربراہی کر رہے ہوں گے جو دنیا کی آبادی میں چین کو پیچھے چھوڑنے کے لیے تیارہو گا، جہاں دنیا کے بعض سب سے زیادہ آبادی والے شہر ہوں گے اور جو دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کے طور پر کام کررہا ہوگا۔
ببانگ دہل سخت گیر ہندو قوم پرستی کی قیادت کے ساتھ وہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی کی بھی قیادت کر رہے ہوں گے اور وہ ایک ایسے خطے میں انڈیا کے وسیع تر اثر و رسوخ کا استعمال کر رہے ہوں گے جہاں کشمیر اور ’ساؤتھ چائنا سی‘ کے علاقے واقع ہیں۔
اس کے علاوہ، مسلسل دوسری یکطرفہ جیت کے ساتھ نریندر دامودر مودی انڈیا کی قیادت ایک ایسے وقت میں کر رہے ہوں گے جب زبردست مواقعوں کے ساتھ ساتھ بڑی بڑی پریشانیاں بھی ہوں گی۔
اس تناظر میں انڈیا کو کم از کم پانچ ایسے بڑے چیلنج درپیش ہوں گے جن سے نظر چرانا عقلمندی نہیں ہوگی۔
برطانیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بننے کے لیے تیار انڈیا نوجوانوں کی وسیع تر آبادی کے ساتھ عالمی اقتصادی ترقی کا انجن بننے کو تیار ہے۔
غیرملکی سرمایہ کاروں نے انڈیا کی کھلی معیشت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صرف گذشتہ مالی سال کے دوران مقامی کمپنیوں میں 44 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
اس کے علاوہ مزید چیزیں ہیں جن میں زیادہ سڑکیں، دیہی کام، غریبوں کے لیے کھانا پکانے کی سستی گیس، گاؤں میں ٹوائلٹ، یکساں سیلس ٹیکس کا نظام، ہیلتھ انشورنس سکیم جس سے 50 کروڑ خاندان مستفید ہو سکتے ہیں اور مالی دیوالیہ پن کا نیا قانون وغیر شامل ہیں۔
ان سب کے باوجود انڈیا کی معیشت کو مشکلات درپیش ہیں، یہ سست روی کا شکار ہے، لوگوں کی آمدن میں کمی ہوئی ہے اور روزگار کی صورت حال جس قدر خراب ہو چکی ہے ایسی گذشتہ چار عشروں میں نہیں تھی۔
ملک میں ہر ماہ دس لاکھ نئی ملازمتوں کی ضرورت ہے تاکہ اس ترقی پذیر معیشت کا ساتھ دیا جا سکے اور نوجوان آبادی کو مایوسی سے بچایا جا سکے۔ حکومت اب تک اپنے ہدف کے حصول میں ناکام رہی لیکن اب اسے ٹھیک کرنا ہوگا۔
جہاں انڈیا ان مسائل کے حل میں مشکلات سے دو چار ہے وہیں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا ملازمت پیدا کرنے کی اس بے لگام دوڑ میں انڈیا اپنے معاشی شراکت داروں سے تجارتی جنگ میں تو نہیں الجھ جائے گا؟
قوم پرست ‘مضبوط شخص’ کی جانب سے عظمت رفتہ کے حصول کی خواہش کا اظہار دنیا میں دوسرے رہنماؤں کی آواز سے ہم آہنگ ہے جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ‘امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے’ کی اپیل، پوتن کا ‘روس کو پھر سے عظیم بنانے’ کا اعلان، شی جنپنگ کی ‘چینی عوام کی نئی قوت’ اور نتن یاہو کی ‘ایک بار پھر سے اقوام عالم کے لیے روشنی کا مینار’ بننا وغیرہ شامل ہیں۔
مسٹر مودی اپنی انتخابی ریلیوں میں کھوئی ہوئی عظمت کے حصول اور رام راج قائم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ رام راج وہ دور حکومت ہے جس میں اساطیری بادشاہ رام، جنھیں ہندو بھگوان مانتے ہیں، وہ نظر آتے ہیں لیکن صرف رزمیہ کہانی میں۔
مسٹر مودی بڑے پُرزور انداز میں کہتے ہیں کہ بھگوان رام مثالی بادشاہ ہیں اوران کی حکومت مثالی حکومت ہے۔ بی جے پی کے صدر امت شاہ کہتے ہیں کہ رام راج کا تصور ہمارے بانیوں کا تجویز کردہ تصور ہے اور بی جے پی حکومت اس کے لیے کام کر رہی ہے۔
لیکن پارٹی کے رہنما بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ اقلیت مخالف نہیں۔ بی جے پی کے ترجمان نلن کوہلی نے کہا کہ پارٹی ایک ارب 30 کروڑ ہندوستانیوں کے لیے ہے اور وہ مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کرتی۔’
اب بی جے پی کے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے ساتھ انڈیا کے صلح جو ہیرو رام خود ہندو قوم پرست شناخت کے پوسٹر بوائے بن چکے ہیں۔
گذشتہ نومبر میں بی بی سی کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ قومی شناخت بنانے کے لیے دائیں بازو کے گروہوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر جعلی خبریں پھیلائی گئیں۔
بی جے پی مودی کے ’56 انچ کے سینے’ کے دعوے پر فخر کرتی ہے جو کہ مردانگی کی علامت ہے اور جس کا ثبوت پاکستان میں شدت پسندوں کے اڈے پر ایئر سٹرائک کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اور یہ بیانیہ بظاہر عوام کو پسند آیا ہے۔ مسٹر مودی کی مقبولیت جو ریاستی انتخابات میں لگاتار ہار کی وجہ سے گر چکی تھی، وہ ایئر سٹرائک کے بعد کافی حد تک بہتر ہو گئی۔
مودی اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران سینہ ٹھونک کر اپنی مردانگی اور قوم پرستی کے اظہار سے لوگوں میں جوش پیدا کرتے رہے ہیں۔ ان کے حامی ان کے غریب گھرانے سے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے حزب اختلاف کی پارٹی کے رہنما یعنی مقدم نہرو گاندھی خاندان سے ان کا موازنہ کرتے ہیں۔
ان تمام چیزوں نے کامیابی کے ساتھ عام ہندوستانیوں کو یہ پیغام دیا کہ مودی سنجیدہ، محنتی اور فیصلہ کن ہیں۔
ان کی رہنمائی میں انڈیا دو بار پاکستان اور ایک بار چین کے آمنے سامنے آ چکا ہے اور وہ بھی ایک ایسے خطے میں جہاں ساؤتھ چائنا سی اور کشمیر جیسے مسئلے موجود ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک ’کونسل آن فارن ریلیشنز‘ کا کہنا ہے کہ انڈیا جنوبی ایشیا میں چین کے خلاف توازن اور امریکہ کی تنزلی کی صورت میں باڑ کے طور پر تیزی کے ساتھ ابھرا ہے۔ جبکہ انڈین عوام انڈیا کے بڑھتے ہو اثر و رسوخ کو مودی کی قائدانہ صلاحیتوں کا نتیجہ کہتے ہیں۔
اب اپنے دوسرے دور میں جہاں مودی انڈیا کے اثرورسوخ میں توسیع کے لیے کوشاں ہوں گے وہیں جنوب مشرقی ایشیا کے سیاسی اور جغرافیائی اتحاد اور وفاداریوں میں تبدیلیاں دیکھنے میں آ سکتی ہیں۔
بی جے پی دائیں بازو کی سیاست کو عوامیت پسند تھیم اور خطابت کے ساتھ استعمال کرتی رہی ہے۔ جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے پناہ گزینوں کو ‘جانور’ کہا تھا اسی طرح بی جے پی کے صدر امت شاہ نے غیر قانونی تارکین وطن کو ‘دیمک’ سے تعبیر کرتے ہوئے انھیں خلیج بنگال میں پھینکنے کا عہد کیا جبکہ ہندو اور بودھ مذہب کے ماننے والے تارکین وطن کو شہریت دینے کی باتیں کہیں۔
بی جے پی کے اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ کانگریس پارٹی ‘سبز وائرس’ کا شکار ہے۔ (سبز رنگ کو مسلمانوں کی علامت کہا جاتا ہے)۔ بی جے پی کے پانچ سال کے دور میں انڈیا میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے رشتے خراب ہوئے ہیں اور مسلمانوں میں مستقبل کے حوالے سے خوف پایا جاتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ انتخابات میں تقسیم کرنے والی شناخت پر مبنی باتوں نے انتخابی حکمت عملی کے طور پر اپنا کام کیا ہے اور ملک کے اصل معاشی مسائل کو پس پشت کر دیا ہے لیکن اب اس سے پیچھے ہٹنا ان کے لیے مشکل ہوگا۔
مارچ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے 30 سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں سے 22 شہر انڈیا میں ہیں۔ اس میں دارالحکومت دہلی سے ملحق شہر گروگرام سرفہرست ہے۔
پانچ سال میں انڈیا کی آبادی جہاں چین سے زیادہ ہو رہی ہے وہیں ورلڈ بینک کی رپورٹ نے متبنہ کیا ہے کہ انڈیا میں آئندہ سال سے پانی، ہوا، مٹی اور جنگلات پر دباؤ بہت زیادہ ہو گا۔
دنیا میں انڈیا سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت اور معاشی سرگرمی کا مرکز ہونے کے باوجود، نریندر مودی کے سامنے خطِ افلاس کے نیچے بسنے والے کروڑوں افراد کی ضرورتوں کو پورا کرنا بڑا چیلنج ہوگا۔
معاشی ترقی میں کسی قسم کی سست روی کا مطلب ملازمتیں پیدا کرنے میں ناکامی ہوگی۔ دوسری جانب بے لگام معاشی سرگرمی ملک کے قدرتی ذخائر پر شدید دباؤ ڈالے گی جس سے ماحولیاتی بحران پیدا ہو سکتا ہے جو ملک کو مشکل مستقبل کی طرف لے جا سکتا ہے۔
ان تمام تضادات کے باوجود مسٹر مودی نے انڈیا کو پیرس معاہدے کا پابند کیا ہے اور دس برسوں میں 35 فیصد تک کاربن اخراج کم کرنے اور بین الاقوامی شمسی اتحاد کے ساتھ کام کرنے کا عہد کیا ہے۔