تحریر : عبد الرزاق
ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی جو اپنی متنازعہ شخصیت کی وجہ سے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کی منفرد شہرت رکھتے ہیں کچھ روز قبل حیدرآباد کی ایک یونیورسٹی میں طلبا سے خطاب کر رہے تھے کہ خفت،شرمندگی اور رسوائی کے لباس میں لپٹ گئے۔یونیورسٹی کی فضا گو مودی گو اور مودی مردہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی ۔آپ کو یاد ہو گا مودی جب برطانیہ کے دورہ پر تھے تو برطانیہ میں کشمیری تنظیموں کی جانب سے ان کے منفی رویہ کے خلاف شدید احتجاج دیکھنے میں آیا تھا ۔اور اس احتجاج کی خاص بات یہ تھی کہ اس احتجاج نے ایسا رنگ اختیار کیا تھا کہ مودی برطانیہ میں منہ چھپاتے پھر رہے تھے۔لیکن ان سبق آموز واقعات کے رونما ہونے کے باوجود مودی سرکار کیمتعصبانہ حرکات و سکنات میں رتی برابر کمی نہ آئی اور یہ روش جوں کی توں برقرار رہی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شرمندگی کی جو داستان برطانیہ سے شروع ہوئی تھی اب ہندوستان کے شہر حیدرآباد کی ایک یونیورسٹی میں دہرا دی گئی۔یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس نے جس جرات اور دیدہ دلیری سے مودی کی موجودگی میں ہلڑبازی کی اس سے یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہے کہ ہندوستان میں چلنے والی تعصب،نفرت اور ناانصافی کی آندھی اب تھمنے کو ہے۔
کئی دہائیوں سے اپنے حق سے محروم مظلوم طبقات کے وجود میں جو لاوا پک رہا تھا اب پھٹنے کو ہے اور ہندوستان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھرنے کو ہے ۔اس پیش آمدہ آگ کی اک چنگاری کی جھلک تو یونیورسٹی میں دیکھی جا چکی ہے جہاں مودی کی آنکھوں کے سامنے ان کے مرتبہ اور لحاظ کو نفی کر دیا گیا اور طالب علموں نے ببانگ دہل اپنے اضطراب اور بے چینی کا اظہار کر دیا۔اس واقعہ کے پس منظر میں ہندوستان کے سیاسی اور سماجی حالات کو نگاہ میں رکھتے ہوے کہا جا سکتا ہے کی مستقبل قریب میں مسلمانوں ،عیسایوں،سکھوں اور چھوٹی ذات کے ہندووں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی وجہ سے کوئی ایسی مربوط تحریک جنم لے سکتی ہے جو اکھنڈ بھارت کے تصور کو تار تار کرنے کا موجب بن جائے۔ہندوستان میں ان دنوں حالات یہ ہیں کہ ایک جانب مودی حکومت نے اقلیتوں کا جینا حرام کر رکھا ہے تو دوسری جانب شییو سینا نے تعصب اور نفرت کے گھوڑے پر سوار ہو کر مسلمانوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔
شیو سینا کی مذموم کاروائیاں نقطہ عروج کو چھو رہی ہیں اور اس کانہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ایک خبر کے مطابق شیو سینا نے بھارتی سرکار پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت کے تمام مدرسوں میں اردو اور عربی کی تدریس کے سلسلہ کو بند کر دے اور اس کے بدلہ ہندی اور انگلش کے فروغ کے لیے مذید اقدامات کرے ۔شیو سینا کی اس گھٹیا اور فرسودہ سوچ کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ اس بیان کے پس منظر میں شیو سینا کی مسلمانوں سے کدورت ،نفرت اور مخاصمت کھل کر سامنے آ گئی ہے ۔عربی زبان مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے اور اس زبان سے مسلمانوں کا لگاو قدرتی امر ہے جبکہ اردو زبان پاکستان کی قومی زبان ہے جس پر پاکستانیوں کو فخر ہے۔ اردواور عربی زبان کا مسلمانوں سے تعلق ہی شیو سینا کو گوارانہیں ہے اور اس نے مسلم دشمنی میں اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
پانچ دہائیاں قبل معروف انتہا پسند ہندو لیڈر بال ٹھاکرے کے والد نے مراٹھہ میں مسلم دشمن تنظیم کا بیج بویا جو آج تنا ور درخت کا روپ اختیار کر چکا ہے اور اس پر لگنے والا نفرت کا پھل بھی پک چکا ہے ۔ شیو سینا کے فتنہ کے قیام سے لے کر اب تک کئی دور گزر گئے ۔ہندوستان میں کئی حکمران آئے اور کئی گئے۔وقت بدلتا رہا ۔حالات بدلتے رہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات میں بھی کئی نشیب و فراز آئے مگر اس شدت پسند تنظیم کی انتہا پسند کاروائیوں میں کمی نہ ہونے پائی۔اور اس کی شدت پسند پالیسی کو وقت کی دھول بھی مدھم نہ کر پائی۔بال ٹھاکرے جس نے اس تنظیم کو حقیقی معنوں میں پہچان دی تھی ذہنی اور نفسیاتی طور پر ایک شدت پسند تھے ۔وہ ہٹلر سے متاثر تھے اورہٹلر کی طرز پر ہندوستان میں حکمرانی کے خواہاں تھے ۔یاد رہے شیو سینا ایک ایسی پر تشدد تنظیم ہے جس کے پہلے اجتماع میں ہی خون کی ہولی کھیلی گئی تھی اور فسادات بھڑک اٹھے تھے ۔بعد ازاں اس تنظیم نے مسلم دشمنی کی چادر اوڑھ لی اور مسلمان مخالف نظریات کا بھر پور پرچار کیا اور بالخصوص پاکستانی مسلمانوں کی نفرت اور مخاصمت میں ہر حد پار کر دی۔کبھی پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورہ بھارت کے موقع پر سٹیڈیم جلا دیے تو کبھی ہندوستانی سکیورٹی کا حصار توڑ کر گراونڈز میں داخل ہو کر پچ اکھاڑ دی۔کبھی پاکستان سے گئے۔
مہمانوں کی شان میں گستاخی کی مرتکب ٹھہری تو کبھی ہندوستان کی حکومت پر پاکستان سے ہر قسم کا تعلق منقطع کرنے کے لیے دباو ڈالتی نظر آئی۔شیو سینا اپنے قیام کے ابتدائی دنوں میں سیاست کے میدان سے باغی نظر آئی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ شیو سینا رہنماوں نے سیاست میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی ۔انیس سو اڑسٹھ میں شیو سینا نے اپنے ستر امیدوار انتخابی میدان میں اتارے جن میں سے سترہ کے قریب امیدوار فاتح قرار پائے اور یوں شیو سینا کو سیاست کا ایسا چسکا پڑا کہ ابھی تک ہندوستانی سرکار کی پالیسیوں میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ دراصل شیو سینا کی مقبولیت کو اس وقت پر لگ گئے جب انیس سو اناسی میں شیو سینا کے غنڈوں نے مرار جی ڈیسائی کی کار پر حملہ کیا اور تین دن تک ممبئی فسادات کی آگ میں جلتا رہا ۔ ان فسادات میں ستر کے قریب لوگ مارے گئے اور شیو سینا کے ماتھے پر، پرتشدد جماعت ہونے کی مہر تصدیق ثبت ہو گئی ۔ بعد ازاں بابری مسجد تنازعہ میں بھی شیو سینا کا کردار کھلی کتاب کی طرع عیاں ہے۔
شیو سینا جس کی سوچ اور فلسفہ ہی تشدد سے ہم آہنگ ہے۔اگرچہ ہندوستان میں مرکزی حکومت قائم کرنے میں تو کبھی کامیاب نہیں ہوئی لیکن مرکزی حکومت کی پالیسیوں میں ہمیشہ ہی اس تنظیم کا کلیدی کردار رہا ہے اور کوئی بھی حکمران اس جماعت یکسر نظرانداز کر کے حکومت کرتا دکھائی نہیں دیا۔ان دنوں تو اس شدت پسندتنظیم کی شر انگیزیاں نقطہ عروج کو چھو رہی ہیں اور اب اس تنظیم کا حالیہ حملہ مسلم اداروں اور اس میں دی جانے والی تعلیم پر ہے۔ جس سے مسلم اداروں میں بے چینی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے اور گزشتہ دنوں تاریخی ادارے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے احتجاج بھی منظر عام پر آ چکا ہے۔ان حالات کو دیکھتے ہوے ہندوستان کے مستقبل کے نقشہ پر گہری نگاہ دوڑائی جائے تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عنقریب ہندوستان میں حالات ایسا رخ اختیار کریں گے جو ہندوستان کی تاریخ بدل کررکھ دیں گے اور ہندوستان پارہ پارہ ہو کر بکھر جائے گا۔
تحریر : عبد الرزاق
03360060895